سمجھانے والا کوئی نہیں ہے!

مدثراحمد

تین طلاق کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لمبی بحث کے بعد پہلے مرحلے میں لوک سبھا کے اندر منظور کردیا گیا ہے،  اس منظوری سے قبل کانگریس کے ملیکارجن کھرگے، رنجیت رنجن اور یم آئی یم کے قائد اسدالدین اویسی سمیت مختلف اراکین پارلیمان نے اس بل کو پوری طرح سے غیر شرعی،  ناانصافی اور متعصبانہ نظریات سے لیز قانون بتایا گیا ہے وہیں بہار کی رہنے والی خاتون رکن پارلیمان رنجیت رنجن نے طلاق کی تشریح نہ صرف قرآن شریف کی سورۃ النساء اور سورۃ بقرۃ کی آیتوں کے حوالے سے کی ہے بلکہ انہوں نے مسلمانوں پر سیدھے سیدھے اس بات کا الزام لگایا ہے کہ اصل میں قرآن کو مسلمانوں نے نہیں سمجھا ہے اور مسلم علماء نے کبھی ان باتوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اگر مسلمان قرآن کے احکامات کے تحت طلاق کا استعمال کیا ہوتا تو یقیناً اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرنا ہوتا۔

رنجیت مہاجن کی اس تقریر کو سننے کے بعد سوشیل میڈیا اور اردو اخبارات میں انکی جم کر تعریف کی جارہی ہے اور انکی تقریر کو خوب شیئراور لائک کیا جارہا ہےاور انہیں مسلمانوں کی آواز تسلیم کیا جارہاہے مگر انہوں نے پارلیمنٹ میں نہ صرف بی جے پی اور اسکی حامی جماعتوں کو لتاڑا ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی ان ڈائریٹ کٹلی مورد الزام ٹہرایا ہے کہ انہوں قرآن کو نہیں سمجھا ہے۔ واقعی میں ہمارے اسلام سے جڑے ہوئے کئی ایسے مسائل جنہیں عام لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم مسلمانوں کی ہے اس ذمہ داری سے ہم مسلمان پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈطلاق،خلع اور حلالہ جیسے مسائل پر عام لوگوں کو سمجھانے کیلئے پچھلے دو تین سالوں سے مسلسل جلسوں وپروگراموں کاانعقادکررہا ہے اور ان پروگراموں میں نتائج کیا آرہے ہیں اس پر توجہ دینے سے زیادہ تعدادپر توجہ دی جارہی ہے۔

 کئی مقامات پر کچھ اہل علم حضرات انہیں عنوانات پر جلسوں کاانعقاد کررہے ہیں لیکن اس میں عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ہورہی ہے،جس کی وجہ سے یہ تمام باتیں اور مسائل حل ہونے کےبجائے مزید پیچیدہ ہورہے ہیں۔ ہمارے دینی مسائل کے سلسلے میں اکثر خطبے بھی دئیے جاتے ہیں لیکن ان خطبوں کو محض جمعہ کے دن پیش کیا جارہا ہے،جس میں صرف مردحضرات ہی سن رہے ہیں۔ لیکن جس طبقے پر ان معاملات کی زیادہ محنت کرنی ہے وہ طبقہ ہے عورتوں کا۔ مگر وہاں پر کسی بھی طرح کی سرگرمی انجام نہیں دی جارہی ہے۔ بعض مقامات پر مسلم عورتوں کے جلسے بھی ہورہے ہیں لیکن وہاں بھی مسلک اور عقائد کی بھرمار ہورہی ہے۔

حقیقتاً جس مدعے پر بات کرنی ہے اس مدعے پر توبات نہیں ہورہی ہے،البتہ خاص فکر اور مسلک کی تعلیمات کو ایک دوسرے پر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ رنجیت رنجن نے اپنی تقریر میں سورۃ النساء اور سورۃ بقرہ کی آیتوں کا تذکرہ کرنے پر مسلم سماج میں خوب واہ واہی کی جارہی ہے اور اس خاتون کو اسلام میں آنے کی ہدایت ملنے کی دعا کی جارہی ہے۔ لیکن ہمارے لوگ یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ اسی تقریرمیں رنجیت رنجن نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اسلام کو مسلمانوں نے سمجھایا نہیں ہے یا پھر انہیں سمجھایانہیں جارہا ہے۔

جب لوگ اسلام کو سمجھنے لگیں گے تو یقینی طو رپر ہمارے مسائل عدالتوں اور پارلیمنٹ زیر بحث نہیں ہونگے۔ ساتھ ہی ساتھ پچھلے کچھ عرصے سے امت کی خواتین کو دینی تعلیمات سے آراستہ کرنے کیلئے مدارس اسلامیہ کا قیام کیا جارہا ہے جس میں انہیں دینی تعلیمات دی جارہی ہیں۔ لیکن جس قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ہدایت دی گئی ہے اس قرآن پاک کو ان مدارس میں بھی محض ثواب اور ایصال ثواب تک محدود رکھا جارہا ہے۔ جس سے نتائج خاص نہیں آرہے ہیں۔ عرب کا ایک واقع ہے ڈاکٹر خالد فوزی نامی عرب کے دانشور کے یہاں پیش آنے والے ایک واقعہ یوں ہے۔ ڈاکٹر خالد فوزی فرماتے ہیں کہ "میری بیوی کی طبیعت کچھ ناساز ہوئی تو مجھ سے دم کرنے کیلئے کہا،میں نے اس پر دم کرنے کیلئے قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت کرنا شروع کردی۔ فانکحوا ما تابا لکم من النساء مثنی وثلاثا ورُباع۔ (ترجمہ:۔ بس تم اپنی پسندیدہ عورتوں میں سے دو یا تین یا چار سے شادی کرسکتے ہو)۔ آیت سن کر زوجہ محترمہ سارا درد بھول بھلا کر ایکدم سے اٹھ بیٹھی جیسے کبھی کچھ ہواہی نہیں ہو۔ ڈاکٹر فوزی کی بیوی چونکہ عرب تھی اس لئے سمجھ گئی کہ یہ کونسا دم ہورہا ہے”۔

 لیکن ہمارے یہاں زور زور سے اس آیت پر آمین آمین کہہ جاتے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہم دین کی دعوت تو دے رہے ہیں، لیکن دین کے حقیقی پیغام اور طریقہ کار کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جب تک ان چیزوں کو سمجھنے اور عمل کرنے کا طریقہ ہم میں نہیں آتا اُس وقت تک غیر ایسے ہی مسلط ہوتے رہیں گے۔

 

«
»

الوداع دو ہزار اٹھارہ

اسلامی ماحول کے معیاری اداروں کی ضرورت اور نصاب۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے