سماجی ،صحافتی ،دینی ،تعلیمی مرکزی شخصیت ہفت روزہ کوکن کی اواز کے مدیراعلی ڈاکٹر شفیع پورکر صاحب کی وفات سے کوکن پر غم کے بادل چھاگئے

 

مفتی فیاض احمدمحمود برمارے حسینی (استاذ جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور )

چند روز قبل عم محترم مولانارجب علی برمارے صاحب کے توسط سے ڈاکٹر شفیع پورکر رح صاحب کے علیل ہونے اور انھیں ممبئ علاج کے لئے لے جانے کی خبر موصول ہوئی،اس کے بعد وقتا فوقتاً مرحوم کے بیٹے عزیز القدر جناب دلدار پورکر صاحب سے فون پر رابطہ ہوتے رہا اوروالد محترم کی صحت وعافیت سے متعلق استفسار کرتےرہا،کبھی استاذمحترم مفتی رفیق صاحب عمت فیوضہم سے بھی معلومات لیتے رہا،کبھی اطمینان بخش جواب ملتا، کبھی طبیعت کے بگڑنے کی اطلاع ملتی،بالاخر عید کی رات جناب دلدار بھائی سے فون پر گفتگو ہوئی اس وقت ڈاکٹر صاحب کو زیر علاج اسپتال سے دوسرے اسپتال میں منتقلی کی تیاری چل رہی تھی،دعاؤں کی درخواست کی گئی،جب صبح تقریبا چار بجے موبائل  دیکھا تو استاذ محترم کا مسیج تھا کہ والد محترم اپنے حقیقی مسکن کی طرف کوچ کرگئے ہیں،فورا فون ملایا اور پہلا سوال یہی کیا کہ میت گھر ائے گی یا نہیں ؟مفتی صاحب نے کہا کہ کوشش جاری ہے،ڈاکٹر صاحب کی آخری دنوں میں طبیعت زیادہ بگڑتے گئی تواس  وقت سے دل میں یہ خدشات پیدا ہوتے رہتے تھے کہ کہیں انھیں کرونا کا مریض قرار نہ دیا جائے۔تاکہ اگر ان کے مقدر میں موت لکھی ہے توان کے آخری دیدار سے اور شرعی تکفین وتدفین سے ہم محروم نہ ہوجائیں،لیکن چوں کہ انتقال سے چار روز قبل ان کی رپورٹ نیگیٹیو آچکی تھی ،اس لئے کسی حد تک اطمینان تھا،اس وقت ایک طرف ان کی موت پرحزن والم کی کیفیت ہے تو دوسری طرف شکروامتنان کے احساسات بھی کہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرلی اور وہ اپنوں میں پہنچ کر اپنوں کے ہی ہاتھوں آخرت کے سفر کی طرف روانہ ہوئے۔
ڈاکٹر شفیع پورکررح کوکن کے چند مشہور ومعروف ناموں میں سے ایک نام تھا،وہ ایک انجمن تھے،سب کے لئے ایک سائبان تھے۔ایک سہارہ تھے،انھیں منزل کی تلاش رہتی،وہ شکست سے ڈرتے نہیں تھے،اور فتح کے لئے بے انتہاء محنت پر یقین رکھتے تھے،ناخوشگوار اور نامساعد حالات میں ہمت وعزیمت کے پہاڑثابت ہوتے،جس سے چھوٹوں کی ہمت بندھتی،سب کو اپنے دامن میں سمیٹ کررکھتے،آپ کی زندگی کے متعدد درخشاں پہلو ہیں،جن میں ہمارے لئے نصیحت بھی ہے اور سبق بھی ہے۔ان درخشاں اور روشن پہلوؤں سے نسل نوکا واقف ہونا ضروری ہے تاکہ نئی نسل ان کی زندگی کے روشن اوراق سے روشنی حاصل کرتے ہوئے قوم وملت کی خدمت کے لئے تیارہوجائے۔

اسلامی صحافت کے امین

 آپ کانام صحافت کے میدان سے جڑا ہوا ضرور تھا،لیکن ان کی صحافت کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی صحافت پرہمیشہ اسلامی صحافت کا رنگ غالب رہا،انھوں نے پوری زندگی اس بات کا اہتمام کیا کہ شریعت کی جائز حدود میں رہتے ہوئے صحافت کے ذریعہ قوم وملت کی خدمت کی جائے،احقاق حق اور ابطال باطل کا مکمل فریضہ انجام دیا جائے،چنانچہ کوکن کی آواز نے اپنے بیس سالہ زندگی میں حق کی آواز کو بلند کرنے ،مظلوموں کی آواز کو حکومت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا،نہ کسی کے دباو میں آکر کوئی خبر نشرکی اور نہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ،کسی بھی اخبار کا اپنے آپ کو جھوٹ،حکومت نوازی،خوشامدی ،اور فحش و ناجائز اشتہارات سے پاک ہوکر کام کرنا اس زمانہ میں کسی کرامت سے کم نہیں،لیکن مشکل سے مشکل حالات میں آپ نےاسلامی صحافت کے امین ورہبر ہونے کا جو ثبوت دیا ہے وہ صحافت کی دنیا میں ایک عظیم کارنامہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں ہی اس صاف ستھری صحافت کے نتیجہ میں مختلف ایوارڈ سے نوازا،مختلف صحافتی تنظیموں نے انھیں اپنے سر کا تاج بنانے پر فخر محسوس کیا۔امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی انھیں اپنی شان کے مطابق عزت واکرام سے نوازے گا۔

اچھے سماج اور معاشرے کی تعمیر کے معمار

ڈاکٹر شفیع پورکر صاحب کوئی عالم دین نہیں تھے اور نہ مصلحین اور دعاۃ میں شمار کئے جاتے تھے،لیکن انھیں قوم وملت کی اصلاح،اچھے سماج ومعاشرے کی فکر،سماجی خرابیوں کے سدباب کی دھن،معاشی برائیوں کی روک تھام اور اس طرح کی سماج ومعاشرے سے جڑی سیکنڑوں فکریں آپ کی زندگی کا حصہ تھیں،آپ نے ابتداء میں تو کوکن کی اواز کے اداریہ کالم  اور اصلاحی مضامین کے ذریعہ سماج ومعاشرے کی اصلاح کو اپنی توجہ کا مرکزبنایا،پھر آواز گروپ کی بنیاد ڈال کر اس پلیٹ فارم سے متعدد پروگرامس کئے،کبھی لوگوں کو نشہ اور زہریلی اشیاء سے دور رکھنے اور ان کے نقصانات کو واضح کرنے کی مہم چلائی،کبھی کینسر کے اسباب پرتوجہ دلانے، ان اسباب سے بچنے اور کینسرزدہ افراد کی مدد وتعاون کا بیڑا اٹھایا،کبھی سڑکوں کی مرمت اور صاف ستھرائی کو اپنا مشن بنایا،کبھی لوگوں کی صحت کی فکر دامن گیر ہوئی تو بلڈ ڈونیشن کے ذریعہ سیکنڑوں خون کے محتاجوں کی ضرورت پوری کی ،الغرض سماج میں پیداہونے والی ہرخرابی کو دور کرنے کے لئے ہمیشہ فکر مند نظر آئے،اگر مؤرخ آپ کی ان فکروں کا گہرائی  سے مطالعہ کرے گا تو اسے آپ کو مصلحین ودعاۃ کی فہرست میں شامل کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں ہوگی۔

 برادران وطن میں دعوت اسلام کے پیامبر

ڈاکٹر شفیع پورکررح جس طرح اپنوں میں مقبول تھے اسی طرح برادران وطن میں بھی محبوب تھے،آپ علاقائی زبان مراٹھی پر اچھی قدرت رکھتے تھے،اور برادران وطن کے ساتھ اسی زبان میں ہم کلام ہوتے،بہت سے لوگ اپنے مسائل کے لئے ان سے رجوع ہوتے،آپ ان کی رہبری کرتے،آپ نے اپنی ادارت میں رائے گڈھ چا اواز روزنامہ مراٹھی اخبار جاری کرکے برادران وطن تک پہنچنے کی ایک کامیاب کوشش کی،آپ کو یہ فکر تھی کہ برادران وطن کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف ہونا  چاہیے،ان سے دوری بنائے رکھنے کے بجائے قرب بنانے میں فائدہ ہے۔جب دنیا کے بعض  ممالک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جانے لگی اور گستاخانہ کارٹون بنائے گئے اس وقت آپ  نے عشق رسول کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا صحیح تعارف کرانے کی غرض سے برادران وطن کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم امن و شانتی کے پیامبر کے عنوان سے مقالہ نگاری کا ایک مسابقہ رکھا،جس میں کئی ہمارے غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں نے حصہ لیا۔بڑا انعام رکھا اور شاندار انعامی نشست کا انعقاد کیا،اس جلسہ میں یہ راقم بھی مدعوتھا،اس وقت مقالہ   نگار غیرمسلم مساہمین کی طرف سے اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں جو تاثرات سننے ملے تھے،اس سے ہر ایک اشک بار تھا،میرے لئے وہ زندگی کے تاریخی لمحات تھے،اس مسابقہ کی برکت سے کتنے ہی لوگوں نے آپ کی زندگی کا مطالعہ کیا اور اسلام کے سلسلہ میں جو شکوک وشبہات ان کے دلوں میں تھے وہ دور ہوگئے۔میرے نزدیک ان کے بہت سارے کاموں اور خدمات میں یہ کام بہت زیادہ قابل تعریف اور لائق تقلید ہے۔

 تعلیمی فروغ کے لئے کوشاں اور علم کےقدرداں

ڈاکٹر شفیع پورکر صاحب رح ملک کے ان نامورلوگوں میں شامل ہیں جنھیں اپنی قوم کی ناخواندگی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی،وہ اپنی قوم کے نونہالوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے اور ترقی کی راہ پر دیکھنے کا خواب دیکھتے تھے،جس کے لئے اپنی طاقت کے بقدر کوشش کرتے تھے،تعلیمی میدان میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں کو اپنے اخبار میں نمایاں جگہ دیتے تھے،ان کی علم دوستی جس طرح دنیوی تعلیم سے تھی اسی طرح دینی  تعلیم سے تھی بلکہ کئی گنا زیادہ تھی،اور وہ عملی طور پر اس کے نمونہ تھے،اسی لئے آپ کی نسل میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری وساری ہے،گذرے چند سالوں میں ڈاکٹر شفیع صاحب رح نے اس سلسلہ میں بڑی فکر کی اور نوجوان نسل کو دینی و دنیوی میدان میں آگے بڑھانے کا بیڑہ اٹھایا جس کے لئے آواز گروپ کے ذریعہ ہر سال عصری ودینی اداروں سے نمایاں کامیابی حاصل کرنے ،ڈگری حاصل کرنے والوں ڈاکٹر وعالم اور مفتی بننے والوں کے اعزاز میں تہنیتی اجلاس منعقد کراتے رہے تاکہ لوگوں میں تعلیم کا رجحان بڑھے۔نوجوان نسل میں تعلیم کا شوق پیدا ہو،تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے والوں کو سماج ومعاشرے میں ایک قسم کی عزت ووقار کا احساس پیدا ہو.اور پتہ نہیں ان کے دل میں اور کیا کیا عزائم وجذبات ان پروگراموں کے پیچھے کارفرماتھے۔آپ کی علم دوستی اور اردوسے سچی محبت کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ نے ایک اردولائبریری وریسرچ سینٹر کی بنیاد ڈالی تاکہ لوگوں میں مطالعہ کا شوق باقی رہے،لوگوں کا تعلق علم سے استوار رہے،آپ اردو کے بقاء کے لئے بے چین رہتے جس کے لئے الگ الگ ناحیہ سے سوچتے،پروگرام منعقد کراتے،آپ کی سرپرستی میں اردو ادب کے فروغ کے لئے ماہنامہ ادبی نشست کا آغاز کیا گیا جس سے بہت سے ادباء کو اپنے آپ کو نکھارنے اور اپنے جوہر دکھانے کے لئے ایک پلیٹ فارم مل گیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو شروع سے ہی ہرکام میں کامیابی عطا فرمائی،اچھے افراد بھی عطا فرمائے،آپ ہمیشہ اپنے ماتحتوں  کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کے ذریعہ ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے رہے جس کے ثمرات بھی حاصل ہوتے رہے۔

 مضمون نگاروں اور قلم کاروں کے محسن

کوکن کی آواز کا اجراء میرے طالب علمی کے زمانہ میں ہوا،اس زمانہ میں استاذ محترم مفتی رفیق صاحب دامت برکاتہم کی مہمیز پر چھوٹے چھوٹے ابتدائی مضامین لکھنے کی مشق کرنے کی توفیق ملتی رہتی،مفتی صاحب میرے مضامین  جمعرات کو مہاڈ واپسی پر لے آتے اور وہ مضامین کوکن کی آواز کے معیار کے مطابق نہ ہونے کے باوجود بھی مدیر اعلی جناب شفیع پورکر صاحب رح کی شفقت اور ہمت افزائی کی برکت سے کوکن کی آوازمیں جگہ پاتے،سب سے پہلے میرا ایک چھوٹا سا مضمون انتقام کی آگ کوکن کی آوازمیں شائع ہوا تھا،اس کے بعد حوصلہ ملا اور لکھنے کا شوق پیدا ہوا،پھر اللہ کے فضل اور اساتذہ کی دعاؤں اور ڈاکٹرشفیع پورکر صاحب رح کی ہمت افزائی کی بناء پر ملک کے مؤقر اخبارات وجرائدمیں مضامین کوجگہ ملنے لگی،پھر انھیں مضامین کا مجموعہ نقوش فکر
کے نام سے شائع ہوکر مقبول ہوا،اس اعتبار سے اس میدان میں میرے سب سے بڑے محسن ڈاکٹر شفیع پورکر صاحب رح ہیں،اور ممکن ہے میری طرح متعدد مضمون نگار اور کالم نگار ہیں جنھوں نے کوکن کی آواز سے اپنا صحافتی سفر کا آغاز کیا،جنھیں اس وقت کافی شہرت حاصل ہے،اس پر مستزاد کہ ان کے مضامین کتابی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں ،ڈاکٹر صاحب کو صحافت کے میدان میں لوگوں کی عدم دلچسپی پر بڑا قلق تھا،اسی لئے آپ نے صحافت کی اہمیت اجاگر کرنے اورصحافت کے میدان میں لوگوں کو آگے بڑھانے اور نئے چہروں کو سامنے لانے کے لئے صحافتی ورکشاپ بھی رکھے،میرا کوکن کی آواز سے گہرا تعلق رہا ہے،بہت سے مضامین میں نے صرف کوکن کی آواز ہی کے لئے لکھے ہیں درمیان میں تین سال تک استاذ محترم مفتی رفیق صاحب کے مشورے اور جناب دلدار بھائی اور ڈاکٹرصاحب کی ذرہ نوازی کی بناء پر اداریہ کی ذمہ داری بھی اس عاجز کے حوالے کی گئی تھی،اور ابھی کچھ مہینوں سے پھر اس زمہ داری کا مستحق سمجھا گیا ہے،اس مدت میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا،کسی بات کو مختصر اندازمیں پیش کرنے کا سلیقہ سمجھ میں آیا،حساس موضوعات کے انتخاب میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے معاونین کا ذہن ودماغ کس قدر کام کرتا ہے اس کا بھی خوب اندازہ ہوا،اسی طرح کوکن کی آواز کے اداریہ کوکتابی شکل دینے کی بات آئی تواس کے لئے اسی عاجز کا انتخاب ہوا،اور یہ کتاب
میری آواز کے نام سے شائع ہوئی
ان تمام مراحل میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے عملہ کی شفقت حاصل رہی،اللہ تعالیٰ انھیں ان احسانات کا بدلہ عطا فرمائے۔
،
انجمن دردمندان تعلیم وترقی کے معین ومددگار

اس وقت مفتی رفیق پورکرمدنی ایک جانا پہچانا نام ہے،انجمن دردمندان تعلیم وترقی کی خدمات محتاج تعارف نہیں،لیکن ایک وقت تھا جب مفتی رفیق پورکرمدنی بھی محتاج تعارف تھے،اور انجمن دردمندان تعلیم وترقی بھی محتاج تعارف تھی،ایک طرف شروعاتی انجمن کی خدمات تھیں،تو دوسری طرف ان خدمات سے ملک و بیرون ملک لوگوں کو متعارف کرانے کاکام ڈاکٹر شفیع پورکر صاحب رح ہی کررہے تھے،جس کے لئے ان کے پاس سب سے بڑا ہتیار کوکن کی آواز تھا،انجمن دردمندان تعلیم وترقی آج مختلف شعبوں میں کام کررہی ہے،اس کے مختلف عصری ودینی ادارے ہیں،یقینا اس کے ذمہ داران وکارکنان کی خدمات لائق تحسین ہیں،لیکن انجمن دردمندان تعلیم وترقی کا ایک کارکن،ایک خیرخواہ،ایک مددگار،ہمیشہ لوگوں سے مخفی رہا،اس کانام ہے جناب شفیع پورکر صاحب رح ،جس نے کبھی پذیرائی کے حصول کی کوشش نہیں کی ،اور نہ ان خدمات پرکبھی انھیں کوئی سپاس نامہ دیا گیا، کسی بھی ادارے کے لئے سرکاری اور حکومتی طور پر کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں،کچھ کاروائیاں ہوتی ہیں،کچھ اجازت اور پرمیشن نامہ ہوتے ہیں،کچھ پیچیدگیاں ہوتی ہیں،ان تمام سے انجمن کے صدر جناب مفتی رفیق پورکرمدنی صاحب اور اس کے ذمہ داروں کو ڈاکٹرصاحب کی موجودگی سے بڑی راحت تھی،آپ انجمن کے ہرسرکاری کام کے لئے دوڑ پڑتے ،میلوں سفر کرتے ،علی باغ کے سیکنڑوں چکر کاٹتے،پھر اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرتے،چاہے اسکول کاکام ہو یا کوئی اور کام ہو ہروقت تیار رہتے،اور کام بھی ایسا کرتے کہ آئندہ پریشانی نہ ہو،انجمن کی خدمات کے لئے اجازت بھی ایسی لی کہ انجمن کا دائرہ کار صرف کوکن کی حد تک محدود نہیں بلکہ کوکن سے باہر کسی بھی جگہ انجمن  کے تحت کام کیا جاسکتا ہے،یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انجمن کے ہرچھوٹے بڑے کام میں ان کا حصہ لگا ہے اور یقینا انجمن کا ہرکام ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔

 مسلم مجاہدین آزادی سے متعارف کرانے میں اہم کردار

کسی بھی ملک کی تاریخ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے،جوقوم تاریخ سے ناواقف ہوتی ہے،اپنے اسلاف کے کارناموں سے نابلد ہوتی ہے وہ ہمیشہ مرعوب ہوتی ہے،اس ملک کی آزادی میں بلاشبہ مسلمانوں کا بڑا رول رہا ہے،  مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادنے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا اور اپنے  وطن عزیزکے لئے شہید ہوگئے،لیکن سوئے قسمت مسلمانوں کی قربانی کو بھلایا گیاہے،ایسے موقع پر ڈاکٹر شفیع صاحب رح نے نسل نو کو مسلم مجاہدین ہندسے واقف کرانے کے لئے مجاہدانہ اقدام کیا اور مسلم مجاہدین کو جمع کرکے ان کے مختصر احوال کو جمع فرمایا،مزید برآں کہ آپ نے کوکنی مجاہدین ہند کو بھی نمایاں کیا،اس اقدام کو اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا،ڈاکٹر صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ مسلم مجاہدین ہند کے تعارف کو مع تصویر کتابی شکل دے کر ایک دستاویزکی حیثیت دی جائے اور جناب دلدار پورکر صاحب کے ذریعہ اس کی فکریں بھی کروارہے تھے لیکن قسمت میں یہ کام ان کی زندگی میں نہیں ہوسکا لیکن اس تاریخ ساز کام کے لئے وہ ہمیشہ یاد رکھیں جائے گے،اورامید ہے کہ جلد ہی ان کی یہ خواہش پوری ہوگی۔

 اہل اللہ اور علماء دین سے محبت وعقیدت

  ڈاکٹر شفیع پورکر رح کو اہل اللہ اور علماء ومشائخ سے بڑی عقیدت ومحبت تھی،آپ وقتا فوقتاً اہل اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دینی مجالس میں شرکت فرماتے،فخر کوکن حضرت مولانا سید شوکت نظیر صاحب (امام وخطیب جامع مسجد ممبئ )کی خدمت میں جامع مسجد حاضر ہوتے،کبھی حضرت مولانا سجاد  نعمانی صاحب کی خدمت میں پہنچتے،فخرگجرات حضرت اقدس مفتی احمد خانپوری صاحب سے  بھی بڑی عقیدت رکھتے تھے،جب بھی حضرت کوکن میں تشریف لاتے ڈاکٹر صاحب ملاقات کی ترتیب بناتے،اسی دیگر  مشائخ سے ملاقات کو اپنی سعادت سمجھتے،جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن کے جلسہ میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے،مجلس علمی کوکن  کے کوئزپروگراموں کو بڑی اہمیت دیتے اور حاضری کی کوشش کرتے،یہاں تک کہ سفر حرمین کے موقع پربھی علماء ومشائخ کی مجالس سے استفادہ کرنے سے پیچھے نہیں رہتے،چندسال قبل سفرحج کے موقع پرحضرت مولانا منیر صاحب دامت برکاتہم کی مجلس میں حاضر ہوئے اور اسی مجلس میں توبہ واستغفار کے ساتھ حضرت کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے،اور حضرت سے برابر اصلاحی تعلق باقی رکھا،ایک موقع پر میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ عمرہ کے سفر میں تھا،اگرچہ الگ الگ ٹور سے جانا ہوا تھا،لیکن اکثر فون کرکے خیرخیریت معلوم کرتے،ایک دن مدینہ المنورہ میں ڈاکٹر صاحب نے مغرب بعد فون کرکے کہا کہ آج مدینہ کی ایک بڑی علمی شخصیت فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ضیاء الرحمن صاحب اعظمی رح سے ملاقات کے لئے جانا ہے۔ میرے لئے یہ بہت بڑی سعادت کی بات تھی، کہ مدینہ یونیورسٹی کے استاذ اور شیخ سے ملاقات نصیب ہورہی ہے،میں نے حامی بھری،ایک کارمیں ہم شیخ ضیاء الرحمن اعظمی رح کے پاس پہنچ گئے۔جن کاابھی حال میں انتقال ہواہے،دراصل اس وقت وہ الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل کی تصنیف میں مشغول تھے،عمر بڑی تھی لیکن اس سے زیادہ مطالعہ اور تحقیق کے جذبہ سے معمور نظر آئے،ملاقات کے بعد بہت سارے سوالات کئے گئے،رات کا کھانا بھی انھیں کے دسترخوان پر تناول کیا گیا،اس ملاقات سے ڈاکٹر شفیع ص کی علمی دوستی ۔اہل علم سے محبت،اہل اللہ سے لگاؤ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے-ان کے اہل اللہ سے محبت کا اندازہ اس وقت بھی ہوا جب مہتمم جامعہ حضرت مولانا امان اللہ صاحب کا انتقال ہواتو بہت زیادہ غم زدہ ہوگئے،اللہ والوں سے تعلق اور اپنے شیخ کی تربیت کا اثر تھا کہ آپ صوم وصلاۃ کی پابندی کے ساتھ کلام اللہ کی کثرت سے تلاوت کرتے تھے،مسنون اعمال کے پابندتھے،کبھی رات میں بھی سفر سے واپسی ہوتی تو مسنون سورتوں کی تلاوت اور معمولات مکمل کرتے پھر آرام فرماتے،اتنی کثیر مصروفیات کے باوجود بھی اس طرح کی پابندی ان کی زندگی کا ایک حسین باب ہے۔

مفتی رفیق ص اور اہل خانہ کے لئے ایک سائبان تھے

مفتی رفیق صاحب دامت برکاتہم اپنے اصحاب کے تعاون سے جن خدمات کو انجام دے رہے ہیں،وہ تعجب خیز اور حیرت انگیز ہیں،اتنے بڑے کام میں حالات ایک جیسے نہیں رہتے،گردش لیل ونہار کے ساتھ حالات کی بھی گردش جاری رہتی ہے،مفتی رفیق صاحب تعلیمی زندگی سے لے کر اب تک کن کن حالات سے گذرے اس کاعلم ان سے زیادہ کسی کو نہیں،گرچہ وہ ان حالات کا مقابلہ کرلیتے ہیں،لیکن آخر ان کے سینے میں بھی ہماری طرح دل ہے،بہت سی مرتبہ ان کا دل بھی ٹوٹ جاتا ہوگا اور ٹوٹ جاتا ہے،وہ بھی کبھی افسردہ اور غمگین ہوجاتے ہیں،ان حالات میں اگر انھیں کوئی اپنی آغوش میں لے کر ان کے ٹوٹے ہوئے دل کو سنبھالا دیتا تھا وہ ان کے والد تھے،افسردگی کے بعد نیا حوصلہ اورجذبہ پیداکرنے کا کام والد صاحب ہی کرتے تھے،وہ ایک دوتین جملوں میں  ایسی روح پھونک دیتے کہ بہت سارا غم ہلکا ہوجاتا،خود بھی معاف کرنے کے عادی تھے اپنی اولاد کو بھی وہی درس دیتے،وہ باپ کا رول تو ادا کرتے ساتھ ہی ایک خیر خواں اور مہربان دوست اور ہم سفر کا کردار ادا کرتے،مفتی صاحب سے انھیں بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ علمی اور دینی بنیادوں پر بھی محبت تھی،اسی طرح اپنے دوسرے بیٹوں جناب دلدارپورکر صاحب اور جناب حنیف پورکرصاحب ودیگرپوتوں کے لئے بھی بڑے مہرباں تھے،عزیزم مولوی اسامہ پورکر جب وکالت کے اہلیتی امتحان میں کامیاب ہوئے تو سب سے زیادہ خوش یہی انسان تھے،اسی طرح آپ کے دوسرے پوتے حماد حنیف پورکر،اورپوتی عمیرہ رفیق  پورکرمیڈیکل کے اہلیتی امتحان میں کامیاب ہوئے تو ان کی خوشی دیدنی تھی،آپ کی مہربانیاں صرف مفتی صاحب اور اہل خانہ تک محدود نہیں تھیں بلکہ مفتی صاحب کے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی برابر خبر گیری کرتے رہتے۔تین چار سال قبل مہاڈ کے قریب پل کے ٹوٹنے کا جو اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا اس کی اطلاع جب ڈاکٹر صاحب رح کو ملی تو سب سے پہلے انھوں نے عم محترم مولانا رجب برمارے صاحب کو فون کیا کہ وہ کہاں ہیں،کس قدرسب کی فکر کرنے والے تمام فکروں سے آزاد ہوگئے،اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنا فضل فرمایا ہے کہ انھیں صدقہ جاریہ کے طور پر اولاد کی شکل میں بہترین اولاد اور نائبین عطا فرمائے ہیں۔مجھے امید ہے کہ یہ حقیقی معنی میں حدیث کے مصداق ثابت ہوں گے اور اپنے والد مرحوم کے مشن میں تسلسل برقرار رکھیں گے،اور والدمحترم کی طرح قوم وملت کے لئے مفید سے مفید تر ثابت ہوں گے۔میں اپنی طرف سے استاذ محترم مفتی رفیق پورکرمدنی جناب دلداربھائی۔محترم حنیف بھائی۔عزیزم مولوی اسامہ پورکر۔مولوی سیف اللہ پورکر،جناب امان اللہ پورکر،اور ام اسامہ ودیگر اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔درجات کو بلند فرمائے۔اور آرام وسکون نصیب فرمایے۔

«
»

یومِ آزادی: کیا ہم سچ میں آزاد ہیں ؟

مرحوم مظفر کولا : خادم نونہال ، تاجر خوش خصال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے