عارف عزیز(بھوپال)
امن و سلامتی اور سماجی استحکام انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے، یوں تو غذا، لباس اور مکان بھی انسانوں کے لئے اہمیت رکھتے ہیں لیکن معاشرہ کو سماجی استحکام اور امن و سلامتی کی اِن سے بھی زیادہ ضرورت پیش آتی ہے، خاص طور پر ہندوستان جیسے مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں اور مختلف زبانیں بولنے والوں کے لئے جن کا اپنا الگ الگ کلچر ہے وہاں کے باشندوں میں جیو اور جینے دو کا جذبہ کمزور ہوگا تو خطرہ ہے کہ انسانوں کی زندگی دشوار ہوجائے۔ ہم زمانہ قدیم سے دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں فکرونظر، رسم و رواج اور مذہب و دھرم کے مختلف دھارے بہہ رہے ہیں، جس میں ہندوازم ایک گہرے سمندر کی طرح موجیں مارتا رہا ہے اور اِس سرزمین کے حسن نیز کلاسیکی فکروفلسفہ کی روشنی میں دوسری قوموں، فرقوں اور قبیلوں کو اپناتا رہا ہے، ہندو ازم کے اِسی مزاج کو ہم وسیع القلبی اور انسان دوستی سے تعبیر کرسکتے ہیں، یہاں اسلام کی آمد عہدِوسطیٰ میں ہوئی جو امن و سلامتی، عدل و انصاف اور اخوت و بھائی چارہ لیکر آیا اور دونوں کے اشتراک نے انسان دوستی اور محبت کے پیغام کو مزید مؤثر بنادیا، اِس سے نہ صرف تمدنی سطح پر بلکہ فکروفلسفہ کی بنیاد پر بھی دلکش آمیزش ہوئی، جس نے ملک کو بنانے، سنوارنے اور اپنی پہچان قائم کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا، دراوڑ ہوں یا آریا، ترک ہوں یا مغل سب نے مل کر اُس مزاج کی تشکیل کی جسے ہم مشترکہ تہذیب اور متحدہ قومیت کے نام سے پکارتے ہیں اور اِس میں مذہبی تعلیمات کا بہت بڑا دخل ہے۔
مہاتما گاندھی نے اپنی کتاب ”تلاش حق“ میں بہت تفصیل سے اُن عوامل کا ذکر کیا ہے جو اُن کی شخصیت کو بنانے اور ذہن و فکر کو جلا بخشنے کا باعث بنے۔ اِس ضمن میں گاندھی جی نے بعض گجراتی اشعار کا خاص طور پر حوالہ دیا، جن سے وہ متاثر ہوئے اور اُن کو پڑھ کر اُنہوں نے جانا کہ اخلاق، کردار، انسانیت کیا ہے اور اُن سے آراستہ ایک انسان کن خوبیوں کا مالک ہوتا ہے۔ اِن اشعار کا ترجمہ یہ ہے:
”جو تجھے پانی پلائے، اُسے تو اچھا کھانا کھلا، جو تجھ سے ہنس کر بات کرے، اُس کے آگے سر جھکادے، جو تانبے کا پیسہ دے، تو اُسے روپیہ دیدے، جو تیری جان بچائے، اُس کے لئے اپنا سر حاضر کردے، سخی داتا وہ ہیں جو ایک کے بدلے دس دیتے ہیں، نیکی کا دم بھرتے ہیں، اُن کا سب سے یکساں سلوک ہوتا ہے، پاپ کے بدلے پُن کرتے ہیں“۔
اِن اشعار اور اُن میں دی گئی اخلاق کی تعلیم سے گاندھی جی اِس درجہ متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے ساری زندگی اِس کو اپنے عقیدہ کا جُزو بنالیا، خاص طور پر اِن اشعار میں برائی کے بدلہ نیکی کی جو تلقین کی گئی ہے وہ اُن کے لئے ایک روشن ہدایت بن گئی اور وہ اپنی زندگی میں اِس کے مطابق عمل کرنے لگے، جس سے اُنہیں ایک طرح کی آسودگی اور مسرت کا احساس ہوا اور اِسی احساس کو عملی شکل دے کر وہ گاندھی سے مہاتما گاندھی بن گئے اُن کے فلسفہئ ستیہ اور اہنسا کی تشکیل و تعمیر میں مذکورہ اشعار نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
فارسی کے مشہور شاعر مولانا جلال الدین رومیؔ نے بھی اپنی نادرِ روزگار کتاب ”مثنوی“ میں بڑا دلچسپ اور نہایت سبق آموز واقعہ لکھا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”ایک شخص دن کی روشنی میں چراغ جلائے بازار میں گشت کررہا تھا، اُسے دیکھ کر کسی نے تعجب کے ساتھ سوال کیا کہ آخر دن کی روشنی میں اُسے چراغ کی ضرورت کیوں پیش آئی تو اُس آدمی نے برملا جواب دیا کہ مجھے انسان کی تلاش ہے، میں اِس بازار میں اُسے ڈھونڈنے نکلا ہو، سوال کرنے والے نے تعجب کے ساتھ پھر کہا کہ انسانوں سے تو یہ پورا بازار بھرا ہوا ہے، تمہیں کوئی انسان کیوں نظر نہیں آتا، اُس سمجھ دار انسان نے کہا کہ ”اِس بازار میں کوئی مرد نہیں ہے صرف صورت مرد کی سی ہے۔ یہ سب روٹی، حرص و لالچ اور مختلف نفسانی خواہشات کے مارے ہوئے ہیں۔ اے مخاطب! اِس بازار میں تو جن انسانوں کو دیکھتا ہے یہ سب خصائل انسانیت اور آدمیت کے خلاف ہیں۔ یہ آدمی نہیں ہیں صرف آدمیت کے غلاف میں نظر آرہے ہیں۔ آدمی کے لئے صفاتِ آدمیت ضروری ہیں۔ اگر عود جو خوشبودار لکڑی ہے اِس میں خوشبو عود کی نہ ہوتوپھر اِس میں اور عام ایندھن کی لکڑی میں کیا فرق ہے؟۔ خوب اچھی طرح جان لوکہ آدمیت اور انسانیت گوشت اور چربی، اور کھال کا نام نہیں ہے۔ آدمیت اُن صفات اور اخلاق و اعمال کا نام ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور اُس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی ہوتی ہے“۔ مولانا رومیؔ کی طرح شیخ سعدی نے بھی اپنی مشہور زمانہ کتاب ”گلستاں“ میں مختلف عنوان سے انسان کو انسانیت، امن اور بھائی چارہ کا پیغام دیا ہے۔ ایک جگہ اُنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ یہ بلیغ اور طاقتور تصور دنیا کو دیا کہ تمام انسان ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں۔کیونکہ اُن کی پیدائش کی اصل ایک ہے۔ یعنی سب کے سب پانی کے قطرے اور حضرت آدم و حضرت حوا سے پیدا ہوئے ہیں۔ تجربہ ہے کہ جب جسم کا کوئی عضو کسی طرح کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو دیگر تمام اعضاء اُس کی تکلیف سے بے چین ہوجاتے ہیں، کیونکہ اصل اور روح سب کی ایک ہے۔ اِسی طرح انسان کی اصل ایک ہونے کی وجہ سے ایک انسان کی تکلیف دوسرے انسان کے لئے اضطراب کا باعث بننا چاہئے۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کی دکھ اور تکلیف سے بے نیاز ہے تو اُس کا نام آدمی نہیں ہونا چاہئے“۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ خانہئ کعبہ میں کھڑے ہوکر انسانی عزت، انسانی بھائی چارہ اور انسانی مساوات کااعلانِ عام کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ”خداوندا! میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں“۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام سے فرمایا”جنت میں رحم دل انسان داخل ہوگا“۔صحابہ اکرامؓ نے عرض کیا ”حضورؐ ہم سب رحم دل ہیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں“۔ رحم دل وہ ہے جو تمام مخلوق پر رحم کرے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ زمین پر بسنے والوں سے محبت وشفقت کا معاملہ کرو۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تم پر مہربان ہوجائے گا۔ اپنے بندوں پر خدا کی یہی مہربانی ہے کہ ایک حدیث قدسی میں خدا نے انسان کے کھانے پینے اور دوا علاج وغیرہ کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتیں قرار دے کر اُن کی تکمیل پر دوسرے انسانوں کو انوکھے اور نرالے انداز میں اُبھارا ہے۔ ایک روایت میں مسلمان یا معیاری انسان کی یہ تعریف کی گئی کہ اُس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزِ قیامت نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ کی تمام عبادتیں خطرے میں پڑجائیں گی، اگر کسی نے دنیا میں کسی انسان پر ظلم ڈھایا اور اُس کے حقوق کو غصب کرلیا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مذہب کی تبلیغ کی آزادی دیتے ہوئے دوسروں کے مذہبی جذبات کی رعایت اور مذہبی پیشواؤں کے احترام کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن ہی میں ایک جگہ فتنہ و فساد برپا کرنے کو، جس سے انسان کا امن و امان غارت ہوجائے اور سکون و اطمینان چھن جائے قتل سے زیادہ سنگین جرم قرار دیا ہے۔ اگر کسی نے کسی انسان کو ظالمانہ طور پر قتل کیا ہے تو گویا پوری انسانیت کو قتل کردیا۔ اِس سے باز رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے تمام انسانوں کی زندگی کو عزیز رکھا۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے اِن سات انسانی حقوق کی رعایت ہر ایک کو کرنی چاہئے:
(۱) آدمیت اور انسانیت کا احترام (۲) انسانی جان کی حفاظت (۳) انسانی مال کی حفاظت (۴) انسانی عزت و آبرو کی حفاظت (۵) مذہب اور رائے کی آزادی کا تحفظ (۶) ضروریات زندگی کا انتظام اور کفالت (۷) خواتین کے ناموس کا تحفظ۔ یہ وہ حقوق ہیں جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانی برادری کو عطا کئے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے اسلام کے اس تصورِ انسانی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے ؎
آدمیت، احترامِ آدمی
باخبر شواز مقامِ آدمی
(یعنی آدمیت، آدمی کے احترام کا نام ہے۔ اس مقام آدمی سے باخبر رہو)
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسان کے بلند بالا مقام کی طرف جو اشارہ کیا گیا، اُس کی روح تقریباً تمام مذاہب میں جلوہ گر ہے۔ کیوں کہ کوئی مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا اور ہر ایک میں احترامِ انسانیت کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام میں تو یہ تعلیم سب سے واضح شکل میں ملتی ہے۔
آج کی چیختی، کراہتی اور مختلف تعصبات سے بھری دنیا میں اِس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ انسان خواہ اُس کا تعلق کسی مذہب و مسلک سے ہو، رنگ و نسل کے اعتبار سے کیسا ہی ہو، کوئی زبان بولنے والا ہو، کہیں کا رہنے والا ہو، تہذیب و تمدن کے اعتبار سے جیسا کچھ بھی اختلاف ہو، کسی جماعت، پارٹی اور کسی منصب و عہدہ سے وابستہ ہو وہ سب سے پہلے اپنے ”انسان“ ہونے کو جانے اور پہچانے، اِس کی حقیقت اور حیثیت پر نظر رکھے۔ وہ یہ سمجھے کہ کسی انسان کی تکلیف میری تکلیف ہے، کسی انسان کا قتل میرا قتل ہے، کسی انسان کا گھر جل رہا ہے اور دوکان تباہ ہورہی تو وہ میرا ہی گھر اور میری ہی دوکان ہے۔ کسی عورت کا سہاگ لُٹ رہا ہے اور کوئی بچہ یتیم ہورہا ہے تو یہ حادثہ میرے اپنے گھر کا ہے، خنجر کسی پر چل رہا ہو اور تڑپ یہ رہا ہو اور اس کی شخصیت میں اِس شعر کی حقیقت گھل مل گئی ہو ؎
تمام عمر اِسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو
جواب دیں