اور اب بھی،جب کہ دنیا بھر کے ہر خطے اور ہر گوشے کے مسلمانوں کے سامنے مصائب و آلام کا بلا خیز سیلاب منہ پھاڑے کھڑا ہے اور دشمن طاقتیں اہلِ اسلام کے دلوں سے روحِ محمدیؐ کو نکال دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں،مسلمانوں کوفرد کی سطح پر بھی اور امت کی سطح پر بھی اصل کامیابی و کامرانی اسی مقدس شخصیت کی حیات مبارکہ میں تلاش کرنی چاہیے۔
بنیادی طورپر ہمارے نبیؐ کی زندگی کے دو ادوار ہیں،ایک مکی دور ہے اور دوسرا مدنی دور ہے،دونوں مراحلِ حیات کی کچھ خصوصیتیں ہیں اور دونوں ہی میں مسلمانوں کے لیے بے پناہ اسباق و نصائح اورعبرتیں پوشیدہ ہیں،جب تک آپؐ اور آپؐ کے اصحابؓ مکے میں رہے ،تب تک ان کی قوتِ ایمانی آزمایش کی بھٹی میں تپائی جاتی رہی،طرح طرح کی مصیبتوں اور ایذا رسانیوں سے گزارے جاتے رہے،پھر جب آپؐ نے اور آپؐ کے متبعین نے حکم خداوندی سے مدینہ کی جانب ہجرت کی،تو اسلام اور مسلمانوں کی ایک نئی تاریخ کا دور شروع ہوا،جو کامیابی و بامرادی کا دور تھا اور اسلام اور اہلِ اسلام کے پھیلنے اور پھولنے کا دور تھا۔
مکے کی زندگی میں ،جب کہ آپؐ کو ظاہری طورپر کسی قسم کی طاقت و قوت حاصل نہیں تھی،مسلمان وہاں کے کفر زدہ ماحول میں کمزور و ناتواں تھے اور حق پر ہونے کے باوجودبظاہر دب کر زندگی گزاررہے تھے، ایسے میں نبی پاکؐ نے پہلا کام جو کیا،وہ یہ تھا کہ آپؐ نے مسلمانوں کی تربیتِ ذات پرتوجہ مرکوز کی اور آپؐ نے اپنے اصحاب کی ایسی مثالی تربیت فرمائی کہ ان میں کا ایک ایک فرد اپنی گوناگوں خوبیوں اور اوصاف و امتیازات کی وجہ سے ایک ہزار انسانوں کے برابر ہوگیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی صحبت اور فیض بخشی اور آپ کی تعلیم و تربیت نے ان کے دلوں کو محبتِ خدا و رسولؐ سے لبریز کردیا تھا،توکل علی اللہ اور نصرتِ خداوندی پر اعتماد و ایقان ان کے رگ و ریشے میں پیوست ہوگیا تھا،وہ نہ صرف ایک اللہ کی عبادت و اطاعت میں شب و روز مصروف رہتے تھے؛بلکہ زندگی کے تمام تر نشیب و فراز میں ان کا ملجا و ماویٰ وہی ذاتِ واحد ویکتا ہوتی تھی،آپ ؐنے اپنی تربیت سے ایسے مسلمانوں کو تیار کیا تھا،جو وجودِ باری تعالیٰ کے قائل و عبادت گزار،اس کی الوہیت و ربوبیت کا اعتقاد کامل رکھنے والے،اس کے اسماے حسنیٰ اورصفات فاضلہ پر ایمان رکھنے والے،ہر بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا معاملہ اسی مالکِ کل کے سپرد کرنے والے اور اِس عقیدے سے سرشار تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی بھی اپنے مومن بندے کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا،یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قدم پر کامیابیوں سے ہم کنار ہوئے ،اللہ کی خاص نصرت و عنایت ان کے شاملِ حال رہی ،وہ تعداد میں کم یعنی سیکڑوں اور ہزاروں میں تھے ،مگر بسا اوقات لاکھوں پر بھاری پڑے،آج گو کہ مسلمانوں کی تعداد اربوں میں ہے،مگر ان میں نہ ایمان کی وہ پختگی ہے،نہ عقیدے کی مضبوطی ،نہ توکل و اعتماد علی اللہ کی صفت اور ناہی ان کے شب و روز کے اعمال ربانی ہدایات و ارشادات اور احکام کے مطابق گزرتے ہیں،نتیجہ ظاہر ہے کہ قرنِ اول کے مسلمان قلتِ تعداد کے باوجود اکثریتوں پر فاتح و غالب تھے اور ہم کثیر تعداد میں ہونے کے باوصف شکست خوردہ اور ہزیمتوں سے دو چار ہیں،ظاہر ہے کہ ایک ایسا شخص، جو صرف ڈاکٹروں جیسا لباس پہن لے اوراس کے اندر اس کے علاوہ ڈاکٹروں والی کوئی بات نہ ہو اور ایک ایسا شخص،جس نے باقاعدہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی ہے،سالہا سال اس فن کو حاصل کرنے میں بتائے ہیں،دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟
آپؐ نے دلوں میں ایمان کی جوت جگائی:
آج ہم میں کا ہر شخص اپنے مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،چاہے اس کے اعمال و اخلاق اور اعتقادات میں کتنے ہی جھول کیوں نہ ہوں، حالاں کہ اصل ایمان تو وہ تھا ،جسے آپ ؐ نے اپنے اصحاب کے قلوب میں پیدا فرمایا اور پروان چڑھایاتھا،ایمانِ کامل بغیر جد وجہد کے حاصل نہیں ہوتا،روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک جاہلِ مطلق رات کو سوئے اور صبح دم جب بیدار ہوتو وہ ایک ماہر ڈاکٹر بن گیا ہو،ایسا بھی کبھی دیکھا اور سنا نہیں گیا کہ ایک قلاش و فاقہ مست انسان آن کی آن میں بہت بڑی تجارتی فرم اورکمپنی کا مالک بن گیا ہو،ہمیں اسباب کی دنیا میں جتنے بھی اعلیٰ علمی،سائنسی ،اقتصادی و سیاسی مراتب و مناصب کے حامل لوگ نظر آتے ہیں اور ہم جتنی بڑی بڑی اور مشہورتجارتی و صنعتی کمپنیاں اور صنعتی ادارے دیکھتے ہیں،ان کے پیچھے بے شمار عقلوں اور لاتعداد تجربات کارفرماہوتے ہیں، بالکل اسی طرح میرا ماننا یہ ہے کہ آپؐ نے اپنے اصحاب کے دلوں میں ایسا ایمان پیدا فرمادیاتھا،جو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط تھا،ایسا ایمان ،جوفضائلِ اخلاق کی بنیاد،عزائمِ امور اور پختہ ترین ارادوں کا سرچشمہ اور سخت سے سخت مصیبت میں بھی صبر و شکیبائی کی تلقین کرنے والا تھا،ظاہر ہے کہ ایسے مومن کا دعویٰ اس کے ایمان کے سلسلے میں بالکل اسی طرح سچ ہے،جس طرح ایک ماہرِ فن ڈاکٹر کاکسی مرض کے سلسلے میں یا اپنے فن کے سلسلے میں دعویٰ کرنا علمِ طب کی دنیا میں مستند و معتبر اور سچ سمجھاجاتا ہے۔
ایمانِ حقیقی اور ایمانِ کامل کی میزان میں لفظِ مومن کی اہمیت ووقعت وہی ہے، جو اہمیت علم و تحقیق کی دنیا میں ڈاکٹر یا عالم ،فاضل اور محقق کے لفظ کی ہے کہ ایک شخص پہلے ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے،پھر ثانوی،پھرمتوسطات اور پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی اسے کسی بھی فن کی اعلیٰ ڈگری مل پاتی ہے،آپؐ نے بھی قرنِ اول کے مسلمانوں کی ایسی ہی بتدریج تربیت فرمائی تھی اور ان کے اندر اسی طرح رفتہ رفتہ ایمان کے درجات بڑھتے گئے اور ان کے دلوں کی ایمانی و عرفانی کیفیت نکھرتی اور سنورتی گئی،یہاں تک کہ ان کا ایمان ایک دن اپنے کمال و تمام کو پہنچ گیا،آپؐ نے اپنے فیضِ صحبت سے مومنوں کی ایسی جماعت تیار کی،جس کی امانت داری و دیانت داری کے سامنے سونے کا ٹکڑا اور مٹی کا ڈھیلا برابر تھا؛چنانچہ وہ اپنے دین کے عوض دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شی کو بھی حقیر و بے کار خیال کرتے تھے،قرآن ، رسول،کعبہ اور خدا کی جھوٹی قسمیں کھاکر اور اپنے دین اور اس کی حقیقی روح سے دست بردار ہوکردنیا کی کسی بھی چیز کو حاصل کرنا ان کے لیے انتہائی ناممکن بات تھی،حالاں کہ اس کے برخلاف آج حقیقت بدل چکی ہے اور ایک مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والا شخص بھی دنیا کی معمولی اور فانی دولت کے عوض اپنے ایمان کا بھاؤ تاؤ کرنے لیے تیار رہتا ہے،آپؐ نے جس مومن کی تربیت فرمائی تھی،اس کا حال یہ تھا کہ سخت مصیبتوں اور دنیا کی جانب سے پیش کی جانے والی اعلیٰ سے اعلیٰ آسایشوں کے باوجود بھی سرِ عام یہ کہدیتا تھا کہ:
’’بخدا اے میرے چچا!اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں،تو بھی میں اپنے دین و ایمان کا سودا نہیں کر سکتا،یا تو اللہ تعالیٰ اسے غالب کرے گا یا اس کے مخالفین کو ہلاک و برباد کرے گا‘‘(سیرت ابن ہشام،جلداول،ص:۱۴۰)
یہی وجہ تھی کہ ہمیں مکی زندگی میں کئی ایسے صحابۂ کرامؓ نظرآتے ہیں،جو گرچہ ظاہری اعتبار سے نہایت ہی کمزور و ناتواں اور بے یار و مددگار ہوتے ہیں اور ان کا کوئی سہارا نہیں ہوتا،مگر ان کا ایمان انتہائی مضبوط ہوتا ہے،ان کا عقیدہ پہاڑوں کی مانندمستحکم،ان کا عزم و ارادہ فولادی،ان کی نیتیں برف کی سلوں کی طرح شفاف،ان کا تواضع زمین کی مانند ہوتااور ان کے باطن کی نورانیت خورشیدِ جہاں تاب کوبھی شرماتی ہے،صحابۂ کرام اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنا خالق، مالک اور مربی مانتے تھے،اسے کامل اور یکتاسمجھتے تھے،اس کے اسماے حسنیٰ اور صفات کمالیہ پردل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتے تھے،جب کہ محمدعربیﷺ کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ آپؐ سردارِ خلائق ہیں،محبوبِ رب العالمین ہیں،معصوم و برگزیدہ ہیں اورپھر خدا و رسول کے ہرہرحکم کو دل و جان سے مانتے اور اس پر عمل کرتے تھے،چاہے اس راہ میں انھیں کیسی ہی سخت مصیبت کیوں نہ جھیلنی پڑے۔
ہماری حالت شرمناک ہے:
آج جہاں عام مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ ربیع الاول کے مہینے کی آمدپرعید میلادالنبی کے انعقاد،جلسے جلوس اوربیہودہ قسم کی ہنگامہ آرائیو ں کوہی محبتِ نبیؐ کی دلیل سمجھ کراس قسم کی خرافات میں پڑجاتے ہیں،وہیں بعض دانش ور قسم کے مسلمان ایسے ہیں،جوبہت سی احادیث اور آپؐ کی جانب سے امت کو دیے گئے بہت سے احکام کے تعلق سے یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ یہ حکم ہمارے لیے یا اِس زمانے کے لیے نہیں ہے،گویا آپؐ کی بعثت ایک خاص زمانے اور اُسی زمانے کے لوگوں کے لیے ہوئی تھی اور بس! (نعوذباللہ) حالاں کہ ایک صحابۂ کرامؓ تھے،جو گزشتہ تمام انبیاے کرام کی بعثت و دعوت اور ان کی صداقت و حقانیت پر اسی طرح یقین رکھتے تھے،جس طرح اپنے نبیؐ کی بعثت و دعوت پر،حالاں کہ نبی پاکؐ کی بعثت و آمد کے بعد گزشتہ تمام نبیوں کے ادیان و مذاہب منسوخ ہوچکے تھے۔جب تک کہ ہمارے دل و زبان دونوں نبی ؐ سے محبت کے حوالے سے مخلص نہ ہوں،جب تک ہم نبی پاکؐ کی دی گئی تمام تر تعلیمات پرسرِ تسلیم نہ خم کریں، اس وقت تک ہمارا محبتِ نبیﷺ کا دعویٰ بھی جھوٹاہے اور اس ناحیے سے انجام دیے جانے والے ہمارے تمام تر اعمال و افعال ’رسمِ دنیا‘اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں!
جواب دیں