صلیب اورمذہب مسیحیت

اوپراوردائیں بائیں والے تختوں پر سراوربازواور نیچے والے طویل تختے پر دھڑکو کیلوں سے ٹھونک کرانسان کو ماردیاجاتاتھا۔صلیب کے اس نشان کومذہب مسیحیت کی پہچان کے طور پر بھی جاناجاتاہے کہ پوری دنیامیں جمع(+)کانشان اس مذہب کے پیروکاروں کے لیے مذہبی تشخص کاحامل ہے۔اہل مذہب اپنے سینے پر بھی صلیب کانشان بناکر اپنے مذہبی جذبات کااظہارکرتے ہیں،صلیب کانشان بنانے کے لیے ہاتھ کی انگلیاں اکٹھی کر کے پہلے بائیں کندھے پر،پھردائیں کندھے پر،پھرماتھے پراور آخرمیں پیٹ پرلگائی جاتی ہیں اور اس دوران کچھ مقدس کلمات بھی زبان سے اداکیے جاتے ہیں۔صلیب کے اس نشان کی اہمیت کااس سے بھی اندازہ کیاجاسکتاہے ہ مسیحی عبادت خانوں کے باہر صلیب کابہت بڑانشان اور عمارت کے اندر بھی جابجایہ نشان کثرت سے نظرآتاہے،مذہب سے محبت کرنے والے لوگ اس نشان کوخوشبودارلکڑی،قیمتی دھا توں اوردیگرپرکشش طریقوں سے چھوٹی یابڑی پیمائش میں بناکر چابیوں کے چھلے،نمائشی وآرائشی گوندے اور لباس پر لگانے والے سجاوٹی بھلے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔دیگرمذاہب کے اہل و علم و دانش اور اہل قلم حضرات بھی مسیحیوں کواہل صلیب کہ کر پکارنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے کیونکہ یہ نشان اس مذہب کی عالمی وتاریخی شناخت بن چکاہے۔
’’صلیب‘‘دراصل مذہب مسیحیت کاایک عقیدہ ہے جس کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دے دی گئی تھی۔یہ عقیدہ ایک اورعقیدے کاایک جزوہے جس کا نام ’’عقیدہ کفارہ‘‘ہے۔مذہب مسیحیت کے مطابق جنت میں حضرت آدم سے گناہ ہوگیاتھا(نعوذباﷲ من ذالک)جس کے باعث آج تک حضرت آدم کی نسل سے ہرجنم لینے والا پیدائشی طور پر گنہ گارہے۔اﷲ تعالی نے پوری انسانیت کو اس گناہ سے پاک کرنے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنے بیٹے(نعوذباﷲ من ذالک) کے طورپرپیدافرمایااورانہیں کل بنی آدم کے گناہوں کے کفارے کے طور پرپھانسی کی سزادے کر ماردیا۔گویاحضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب (حقیقی صلیب)پر چڑھ کراپنی جان قربان کر دی اور پورے انسانوں کے گناہوں کاکفارہ اداکر دیا۔خلاصہ یہ کہ گناہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا،سزاحضرت عیسی علیہ السلام کو ملی اور گناہوں سے خلاصی کل انسانوں کو میسرآ گئی،گویایہ قاضی کائنات اﷲتعالی کا عدل و انصاف ہے۔جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کل انبیاء علیھم السلام گناہوں سے پاک ہیں اور معصومیت کے درجے پر فائزہیں البتہ ان سے خطا ونسیان سرزدہوسکتے ہیں جس کی ایک مثال حضرت آدم علیہ السلام کی خطاہے۔جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام جس طرح معجزے کے نتیجے میں بن باپ کے پیداہوئے اسی طرح معجزے کے نتیجے میں ہی بن موت کے آسمان پر اٹھالیے گئے اوران کی جگہ ایک اور شخص کو حضرت عیسی سمجھ کر صلیب پر لٹکادیاگیاتھا۔
مذہب مسیحیت کے مطابق ’’حقیقی صلیب‘‘326ء کو ایک خاتون کے ہاتھوں دریافت ہوئی۔اس حقیقی صلیب کو دریافت کرنے والی خاتون کانام’’سینٹ ہلیناآگسٹا(250-330ء)‘‘تھاجوکہ سب سے پہلے صاحب ایمان رومن بادشاہ ’’قسطنطین اعظم‘‘کی والدہ محترمہ تھیں۔اس صاحب ایمان بادشاہ نے اپنی والدہ کو مکمل اختیارات اور خزانے میں غیرمحدوددسترس کے ساتھ اس بات پر مامورکیاکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی باقیات کو دریافت کیاجائے۔اس بزرگ خاتون نے عالم پیری میں یروشلم کاسفرکیااورارادہ کیاکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش اور’’حقیقی 
صلیب‘‘کی جگہوں پر عبادت گاہیں تعمیر کریں گی۔’’سینٹ ہلینا‘‘نے عبادت گاہ کے لیے جس جگہ کاانتخاب کیاتو اس کی کھدائی کے دوران تین صلیبیں دریافت ہوئیں جن کے بارے میں خیال کیاگیاکہ ان میں سے ایک ’حقیقی صلیب ‘‘ہے۔لیکن مادرملکہ نے اس دعوی کو بغیر کسی ثبوت کے ماننے سے انکار کردیا۔تب شہر سے ایک ایسی خاتون کو لایاگیاجو قریب المرگ تھی ،خاتون نے پہلے ایک صلیب کو ہاتھ لگاانہیں کچھ نہیں ہوا،پھردوسری صلیب کو ہاتھ لگایاانہیں کچھ نہیں ہوالیکن جب تیسری صلیب کو چھواتواس پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی جسے کرامت کہاگیااوراس تیسری صلیب کو ملکہ نے ’’حقیقی صلیب ‘‘مان لیا۔جس لکڑی سے یہ تین صلیبیں بنائی گئیں ان کے بارے میں مذہب مسیحی میں یہ روایات موجود ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے جنت کے جس درخت کے تین دانے اپنے منہ میں رکھے تھے ان دانوں کو بعد میں حضرت آدم علیہ السلام کی قبرپر بویاگیاجوصدیوں کے بعد حضرت سلیمان کے زمانے میں تناور درخت بن گئے۔ملکہ صباجس پل س گزرکرحضرت سلیمان علیہ السلام سے ملنے آئیں تھیں وہ پل انہیں درختوں کی لکڑی سے بنایاگیاتھا۔چودہ صدیوں کے بعد اس پل کی لکڑیوں سے یہ تین صلیبیں بنائی گئیں جن میں سے ایک حقیقی صلیب تھی۔حقیقی صلیب کی دریافت کے یہ تمام واقعات تیرہویں صدی کے دوران’’سنہری روایات‘‘نامی کتاب میں اٹلی کے ایک مذہبی کہانی نویس’’جکوباسJacobus‘‘(1230-1298)نے تحریرکی ہیں۔
ان روایات کی تاریخی اسنادکاکوئی ذکرنہیں اور نہ ہی کسی روایت و درایت کے ان اصولوں کاذکرہے جن پرپرکھ کران روایات کو قبول یارد کیاگیا۔صدیوں زمین میں دبے رہنے کے باوجود وہ لکڑیاں کیسے بچ گئیں اورپھرچوتھی صدی اوراس سے پہلے پیش آنے والے واقعات تیرہویں صدی تک کیسے پردہ اخفامیں رہے اور پھرایک شخص پر کیسے آشکارہوگئے،وغیرہ؟؟یہ تاریخ کے سوالات ہیں جن کا ہنوزکوئی جواب میسرنہیں۔اس پرمستزادیہ کہ اکثرمسیحی فرقے بھی ان روایات سے سرمواتفاق نہیں کرتے۔بہرحال روایات کے مطابق مادرملکہ’’سینٹ ہلینا‘‘نے جائے پیدائش مسیح علیہ السلام پر ایک عبادت گاہ تعمیر کرائی اورتعمیر کے نوسالوں کے بعد14ستمبر335ء کوایک خاص جگہ پر اس ’’حقیقی صلیب‘‘کو نصب کیاگیاتاکہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر عبادات اداکی جاسکیں اور دعائیں مانگی جا سکیں۔614ء میں ایرانیوں کے حملے میں اس ’’حقیقی صلیب‘‘کواکھیڑدیاگیالیکن بازنطینی بادشاہ ہرکولیس سے یہ واقعہ منسوب کیاجاتاہے کہ اس نے چندسالوں بعدایرانیوں سے اس’’ حقیقی صلیب ‘‘کو چھین کرپھراصلی جگہ پر نصب کرادیا۔کیاآتش پرست ایرانیوں نے اس صلیب کو اتنے سالوں تک زندہ سلامت رہنے دیا؟؟اورپھرکیاوہ وہی صلیب تھی جسے ایرانیوں نے وہاں سے اکھیڑڈالاتھا؟؟۔14ستمبر کو مقدس یوم صلیب منانے کے لیے مسیحی عبادت گاہوں میں علی الصبح تقریبات شروع ہو جاتی ہیں،اگر یہ دن اتوار کو آئے توان تقریبات میں دوچنداضافہ ہوجاتاہے۔اس دن روزہ رکھاجاتاہے اور گوشت وغیرہ کھاناممنوع ہوتاہے۔اس دن ہر عبادت گاہ میں ایک صلیب پھولوں اور پتوں سے سجاکرلائی جاتی ہے،پادری اسے اپنے سرپررکھ کرلاتاہے اور ایک میزپر صلیب کو لٹادیاجاتاہے جہاں مقدس کتب بھی دھری ہوتی ہیں۔موم بتی جلاکرصلییب پر رکھی جاتی ہے اور پھر بہت سے نغمے اور دعائیں مانگی جاتی ہیں۔بعض عبادت گاہوں میں ان تمام رسومات کے بعد ایک مختصرساجلوس بھی نکالاجاتاہے جس کی قیادت وہاں کاسب بڑاپادری کرتاہے اواس نے اپنے سر پرصلیب کو اٹھارکھاہوتاہے۔مجموعی طورپراگرچہ کل مسیحی دنیااس تہوارکومناتی ہے لیکن منانے کے طریقے مختلف علاقوں میں مختلف بھی ہوتے ہیں۔
ان تمام روایات ایک بات تو ضرورثابت ہوتی ہے کہ کم از کم حضرت عیسی نے اس تہوارکونہیں منایااور ان کے صدیوں بعد سے اس تہوارکاآغازہوا،تب یہ آسمانی ہدایت کاتہوارتوقطعاََبھی نہیں ہے۔اس سمیت بہت سے ایسے امورمذہب مسیحیت میں پائے جاتے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب تو ہیں لیکن ثابت نہیں ہیں۔خودعہدنامہ جدیدمیں پولوس کے چودہ خطوط بہت بعد میں اس مقدس آسمانی صحیفے میں داخل کیے گئے حالانکہ ’’پولوس‘‘نامی انسان کے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے خطوط خداوندکاکلام کیسے ہو سکتاہے؟؟۔عہدنامہ جدیدجس زبان میں نازل ہواتھاوہ زبان متروک ہوچکی،اس عہدنامے کے مرتب کرنے والوں کی تحریرکوبعدمیں کس کس نے کس طرح نقل و ترجمہ کیااوراس میں کس حدتک صحت کاخیال رکھاگیا؟؟کچھ نہیں معلوم۔گزشتہ کتب میں جو سقم رہ گئے تھے ان کو اﷲ تعالی نے آخری کتاب میں دورکردیا،قرآن مجیداپنی اصل شکل میں اور اصل زبان میں موجود ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت اور ان پر نازل ہونے والی کتاب کی تصدیق کرتاہے تب غیرمصدقہ اورعدم تواترکی شکارتعلیمات کی بجائے قابل اعتماداور مستندتعلیمات کو ہی اپنے ایمان و یقین کی بنیادکیوں نہ بنایاجائے،اورحضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے عام انسانوں کی پیروی کرنے کی بجائے اس نبیﷺکی پیروی کیوں نہ کی جائے جوخود حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے ہیں۔

«
»

مہاراشٹر کے بعد کیا بہار کی باری ہے؟

یہودی مافیا کا نیا حربہ۰۰۰ فلسطین کی نئی نسل کو منشیات کی لت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے