سال کا سب سے بڑا فریب

اچھے دنوں کی نوید تو چناؤ قبل سے ہی سنائی جارہی ہے، اب جو خوشخبری خود وزیراعظم نے متھرا کی ریلی میں سنائی ہے، بڑی بھلی لگتی ہے مگر اس کے لئے شرط بہت سخت ہے۔اس کے لئے کسی حادثہ میں مرنا ہوگا تب بال بچوں کو کچھ ملے گا، اگرملا تو۔
ایک وزیرباتدبیر نے فرما یا اچھے دن صرف ان کے نہیں آئے جنہوں نے سابق میں لوٹ کھسوٹ کی تھی۔ اب عوام اپنا جایزہ لے رہے ہیں ۔ جوبیچارے ہرروزٹھگے جاتے رہے، یہ تہمت ان کے سربھی آرہی ہے کیونکہ اچھے دن ان کو بھی نظرنہیں آرہے۔اب ان سے کہا جارہا ہے صرف 12 روپیہ سال یا330روپیہ سال کی بیمہ پالیساں خرید لو۔اس کے بعد اگرناگہانی مرگئے یا معذورہوگئے تو سرکار نقد نذرانہ پیش کریگی تاکہ کچھ غم غلط ہوجائے۔ انسان بچوں کے لئے کیا کچھ جتن نہیں کرتا، سنا ہے ساڑھے تین کروڑ لوگوں نے آنا فانا اس پیش کش کو قبول کرلیا ہے۔زبان حال سے صداآرہی ہے:
تم اور فریب کھاؤ بیان رقیب سے
تم سے تو کم گلہ ہے، زیادہ نصیب سے
برباد دل کا آخری سرمایہ تھا امید
وہ بھی تم نے چھین لیا مجھ غریب سے
فریب کاریوں کے اس موسم بہار میں مودی سرکار کے ایک سال کے ’کارناموں‘ پرروشنی ڈالتے ہوئے ان کے وزیرخاص ارن جیٹلی نے 24 مئی کودعوا کیا:’’ ملک میں اقلیتیں پوری طرح محفوظ ہیں۔‘‘ ہم حیران ہیں کہ وہ کس دنیا میں رہتے ہیں؟ان کے اس دعوے کواس سال کا سب سے بڑا فریب، سب سے سنگین غلط بیانی قرارنہ دیا جائے تو اور کیا نام دیا جائے؟
ان کے اس دعوے کا جواب ان کے ہی سنگھ پریوار کے شورہ پشتوں نے اگلے ہی دن دہلی سے متصل ضلع بلبھ گڑھ (ہریانہ )کے گاؤں اٹالی میں ایک مسجد کو نذرآتش اورمسلمانوں کے تمام گھروں کو تاراج کرکے دیدیا۔حتیٰ کہ گاؤں کے مسلم باشندوں کو جان بچانے کے لئے گھروں سے بھاگ کر تھانے میں پناہ لینی پڑی۔ یہ سب کچھ پولیس اورانتظامیہ کی ناک کے نیچے ہوا۔ ہریانہ میں مودی کے خاص الخاص اور آرایس ایس کے سابق پرچارک موہن لال کھٹّرکیونکہ وزیراعلا ہیں،اس لئے کوئی کیسے بولتا؟
جیٹلی صاحب یہ تو زرا مسلم اورعیسائی اقلیت سے پوچھئے کہ وہ یہاں کس قدر محفوظ ہیں؟ ہمارے نوجوان تو ماتھے پر سجدے کا نشان اورسرپر اسکل کیپ دیکھ کر نشانہ بنا لئے جاتے ہیں؟ ہماری بچیوں کو کلاس سے اس لئے نکالدیا جاتا ہے وہ سرپردوپٹہ ڈال کر آنا چاہتی ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ لڑکوں کو محض اس لئے جیل رسید کردیا جاتا ہے کہ افسران’ حسن کارکردگی‘ کا انعام پاسکیں۔جیٹلی صاحب ابھی زنجیروں میں بندھے ہوئے ان پانچ نوجوانوں کا خون کے دھبے تازہ ہیں جو تلنگانہ پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے ہیں۔اقلیتیں خود کو کس قدر محفوظ پاتی ہیں، اس کا فیصلہ وہی کریگا جس پر گزررہی ہے۔ مودی کے دفاعی وکیل کوشاید یہ سب زخم نظر نہیں آتے۔
مسٹرجیٹلی نے یہ دعوا بھی کیا ہے کہ ’’سرکار نے ایسے اقدامات کئے ہیں کہ ملک میں کہیں بھی فرقہ ورانہ کشیدگی نہ ہو۔‘‘لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ان کی پارٹی کے لیڈرمسلسل مختلف مقامات پر کشیدگی برقراررکھنے اوربھڑکانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تواٹالی کی ہے جہاں مسجد کی توسیع کو روکنے کے لئے تمام آس پاس کے گاؤوں میں زہرپھیلایا گیا۔منصوبہ بند سازش کے تحت کئی گاؤں کے افراد کو جمع کیا گیا۔ 8-8 اور 10-10کی ٹولیاں بناکر، چن چن کر مسلمانوں کے گھروں اوردوکانوں کو لوٹا اورجلایا گیا۔یہ سب کچھ انتظامیہ کی نظروں کے سامنے ہوا کیونکہ مسجد کی توسیع کا کام عدالت سے اجازت مل جانے کے بعد انتظامیہ کے علم میں لاکر کی جارہی تھی اورموقع پر بھی پولیس موجود تھی۔ دوسری مثال کاندھلہ کا واقعہ ہے جس کے بعد بھاجپائیوں نے فرقہ ورانہ منافرت کو بھڑکانے کی زبردست مہم چلائی ۔ اس خطہ میں حالیہ لوک سبھا چناؤ سے قبل جو مسلم مخالف ماحول بنا تھا، وہ ا بھی ختم نہیں ہوا۔سنگھ پریواروالے گھربدرمسلمانوں کی اپنے آبائی گاؤ ں میں واپسی کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
فرقہ ورانہ کشیدگی اورپارٹی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات پر مودی کی خاموشی پر حال ہی میں میں باجپئی کابینہ کے سینئر وزیرارن شوری نے بھی گرفت کی تھی۔ ان کی تنقید کو پارٹی نے یہ کہہ کر چٹکیوں میں اڑادیا کہ وہ موسم بہار کے دوست ہیں۔گویا اب اس خزاں رسید ہ لیڈر کی بات قابل توجہ نہیں۔ لیکن اس کو کیا کہا جائیگا کہ مودی کابینہ کے وزیر رام ولاس پاسوان نے بھی اشتعال انگیز بیانات اور ان پر خاموشی اختیارکئے جانے پروہی بات کہی ہے جو مسٹرشوری نے کہی تھی۔ انہوں نے ایک طویل انٹرویو میں جو 26مئی کو شائع ہوا ہے، کہا ہے:’’ یہ درست ہے کہ بھاجپا اوراس سے جڑی ہوئی ہندوتووا تنظیموں کے لیڈروں کے بیانات سے صحیح سگنل نہیں جارہا ہے۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا:’’نوٹس دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ لیکن مسٹرپاسوان مطمئن ہیں کہ وزیراعظم اس ماحول سے خوش نہیں، جو ان کے برسر اقتدارآنے کے بعد مزید خراب ہوا ہے اور یہ کہ وہ (مودی)خود کسی ایسی ویسی حرکت میں ملوث نہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مسٹرمودی کواقتدار کی کرسی تک پہنچانے کے لئے ان کے سپہ سالاروں نے جو فرقہ ورانہ کشید گی پھیلائی تھی ، کیا اس کو ختم کرنے کی کوئی کوشش ہوئی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس منافرت پھیلانے والوں اورمسلم کش فسادات کے مجرم لیڈروں کو ٹکٹ دئے گئے۔کابینہ میں جگہ دے کر ان کو انعام سے سرفراز کیا گیا۔پھربھی یہ کھوکھلا دعوا کہ اقلیت محفوظ اورمطمئن ہیں۔ یہ کہاں کی منطق ہے؟ مسٹرجیٹلی نے اپنے اسی انٹرویو میں گرجاگھروں پر حالیہ حملوں کو ’’امن اورقانون کا مسئلہ‘‘ قراردیا اوریہ کہ پارٹی لیڈروں کو ہدایت دیدی گئی ہے کہ وہ اشتعال انگیزبیانات نہ دیں۔بہت خوب۔ سنگھ پریوار کے خطاکاروں کو صرف نصیحت اوراقلیت کے کسی فرد پر پولیس کے ایک معمولی کارکن کو شک بھی ہوجائے تو اس کے لئے ناقابل ضمانت جیل؟بقول اقبالؔ : ’’ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘
ایک بات وہ بھی ہے جو مودی کابینہ کی وزیر اقلیتی امور محترمہ نجمہ ہبت اللہ نے کہی ہے۔ انہوں نے مسلم اقلیت کی تشویشات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا وہ تو تقیسم کے وقت سے ہی خود کو غیر محفوظ اور الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ مودی کے راج میں کوئی نئی صورت پیدا نہیں ہوگئی۔‘‘ ہم ان کے اس بیان کو خارج نہیں کرسکتے ۔ واقعی مسلم اقلیت کے ساتھ سابقہ حکومتوں کا رویہ شدید انصافی کا رہا ۔ اس بات کو ڈاکٹر نجمہ صاحبہ سے زیادہ اورکون سمجھ سکتا ہے جو کم وبیش چار دہائیوں تک کانگریس میں رہیں اور اہم باوقار مناصب کا لطف اٹھاتی رہیں۔ انہوں نے کانگریس میں خود کو اس وقت غیرمحفوظ پایا جب ان کی نائب صدر بننے کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ لیکن ان کے اس بیان سے کم ازکم یہ نتیجہ تونکالا ہی جاسکتا ہے کہ مسلم اقلیت (سابق سرکاروں کی طرح )مودی سرکار میں بھی محفوظ نہیں ۔ ان کے اس بیان سے مسٹرجیٹلی کے دعوے کی مزید تردید ہوتی ہے۔
بیشک وزیراعظم نے بیان کی حد تک اقلیتوں کو تحفظ کی یقین دہائی کرائی ہے۔اقلیتوں نے اس کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ کچھ لوگوں کو نوٹس بھی دئے گئے۔ لیکن جیسا کہ مسٹر پاسوان نے کہا، نوٹسوں سے کیا ہوتا ہے؟ حق تو یہ ہے کہ خطاکاروں کو سزا ملے ،ورنہ کم سے کم ضابطہ کی تادیبی کاروائی ہواور محلہ سطح کے کیڈرتک اس کا پیغام جائے۔ مگر اس کے برعکس ان کو اعزاز سے نوازا جارہا ہے۔وزارت اوراعلا کمیٹیوں میں نامزد کیا جارہا ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مودی کابینہ کے دفاعی وکیل کا یہ دعوا کہ مودی سرکار میں اقلیتیں محفوظ ہیں، اس سال کابد ترین فریب اورسنگین ترین غلط بیانی ہے۔ آپ چاہیں تو اس کو دروغ گوئی یا کذب بیانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ہمیں جھوٹے کو بھی جھوٹا کہتے ہوئے اچھا نہیں لگیا۔ خیال ہوتا ہے کہ شاید کل اللہ اس کے دل میں سچائی ڈال دے اور یہ ناحق کا نہیں ،حق کا طرفدار بن جائے۔

«
»

خبر ہونے تک….

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے