قسط ۲
از۔محمدقمرانجم فیضی
قارئین کرام! یوپی میں تو جرائم کا سیلاب بڑھتاہی جارہاہے صحافیوں کا قتل اور ان پر ظلم وتشدد کا سلسلہ دراز ہوتا ہی جا رہاہے جب کہ یوپی کے وزیر اعلی حکومت کی تعریف کرتے تھکتے نہیں ہیں،اور کہتے ہیں کہ جرائم کا میٹر زیرو ہے مگر اسکے برعکس جرائم اس سے دو گنی اسپیڈ سے بھاگنے لگتا ہےقتل وغارت گری، عصمت دری، ماب لنچنگ جیسے بہت سارے سنگین جرائم اب مزید بڑھ چکے ہیں۔
بہت ہی قابل مذمت بات یہ ہے کہ تین ماہ میں تین صحافیوں کی جان جا چکی ہے۔ 19جون 2020 کو اُناؤ ضلع کے رہنےوالے شُبھ منی ترپاٹھی کا قتل، 20 جولائی کو غازی آباد کے وکرم جوشی کا قتل، 24 اگست کو بلیا ضلع کے رتن سنگھ کا قتل۔11صحافیوں پر خبر لکھنےکی وجہ سے ایف آئی آر درج کی گئی ہے
صحافیوں کے تحفظ اور آزادی کے حوالہ سے یوپی حکومت کا رویہ قابل مذمت ہے، واضح رہے کہ اتر پردیش کے بلیاضلع میں پیر کی شام ایک نجی چینل کے صحافی رتن سنگھ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس نے بدمعاشوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ فرار ہوگئے۔ واقعے کے بعد پہنچے ایس پی دیویندر ناتھ سمیت متعدد اہلکار رات بھر تفتیش میں مصروف رہے۔ اس معاملے میں اب تک 6 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے صحافی کے اہل خانہ کے حق میں 10 لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صحافی رتن سنگھ گاؤں میں کسی سے ملاقات کرنے کے بعد پیر کی شام اپنے گھر واپس جا رہے تھے، تبھی کچھ لوگوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ مقامی لوگوں کے مطابق رتن اپنی جان بچانے کے لئے گاؤں کے پردھان کے گھر میں داخل ہوگئے لیکن حملہ آوروں نے پیچھا نہیں چھوڑا اور ایک ایک کرکے تین گولیاں ان پر چلائیں۔ رتن نے زخموں کی تاب نہ لاکر موقع پر ہی دم توڑ دیا۔اور صحافی شبھ منی ترپاٹھی(اناؤ) کو بھی اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ اناؤ سے شکلا گنج کی طرف جارہے تھے اس قتل سے پورے شہر میں تہلکہ مچ گیاتھا، جب شبھ منی ترپاٹھی کے بھائی رشبھ منی ترپاٹھی کی جانب سے دی گئی تحریر کی بنیاد پر پولیس نے زمین مافیا دویا اوستھی، اسکاشوہر کنہیا اوستھی، دیور رادھویندر اوستھی، سمیت دس لوگوں کےخلاف مقدمہ درج کیاتھا۔حالانکہ دس دن گزر جانے کے بعد بھی ملزمان کو گرفتار کرنے کے لئے تشیکیل دی گئی چار ٹیمییوں میں سے کسی کو کامیابی نہیں ملی، حالانکہ شبھ منی ترپاٹھی کانپور سے شائع ہونے والا ہندی اخبار 'کنپومیل' میں کام کرتاتھا،
ایک اور صحافی وکرم جوشی غازی آباد کوبھی خوب زدوکوب کیا گیا، اطلاع کے مطابق سوموار رات جب وکرم جوشی پر حملہ ہوا تو اس وقت انکے ساتھ ان کی دونوں بیٹیاں بھی بائک پر سوار تھیں، بڑی بیٹی کے مطابق ،پاپا بائک چلا رہے تھے اسی دوران جب بائک سڑک پر آئی تو ان کو کچھ لوگوں نے گھیر لیااور بائک گرا دی، جب پاپا نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ پاپا کو مارنے لگے ،اس دوران ایک حملہ آور نے پاپا کو کار کے پاس لے جا کر گولی ماردی اور اسکے بعد حملہ آور فرار ہوگئے،
جب کہ وکرم جوشی کے بھائی انیکیت جوشی نے بتایا کہ تین دن پہلے حملہ آوروں نے ان کی بھانجی پر بھدہ کمینٹ کیا تھا اور بھانجی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کی تھی جس کو لے کر مارپیٹ بھی ہوئی تھی
اور بھانجی کے ساتھ ہوئے چھیڑچھاڑ کی رپورٹ وجئےنگر تھانے میں درج بھی کروائی تھی جس کے بعد مجرم لگاتار دھمکیاں دے رہے تھے، ایف آئی آر ہونے کےتین دن بعد بھی پولیس کی طرف سے کوئی کاروائی نہ کی گئی اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وکرم جوشی کو گھیر کر گولی مارکر قتل کردیا گیا، اسکے علاوہ قانون شہریت ترمیم کے مظاہرے کے دوران بھی ایک خاص کمیونٹی کے رپورٹرس جو کہ رپورٹنگ یا کَور کررہے تھے ان کو مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایاگیا،اور ان پر بھی تشدد کیاگیا، لکھنؤ میں دی ہندو کے صحافی عمر راشد کو پولیس اٹھا لے گئ دوگھنٹے تک ان کے ساتھ فرقہ وارانہ تبصرے کئے گئے،
کمیٹی اگینسٹ اسالٹ ان جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق شہریت ترمیمی قانون احتجاج کَور کرتے ہوئے14 صحافی تشدد کا شکار ہوئے مزید صحافی اپنی جان جوکھم میں ڈال کر نیوز لے پاتے تھے، صحافی شاہین عبداللہ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تشدد کے وقت پریس کارڈ دکھانے کے بعدبھی پولیس نے مارا، بی بی سی کی صحافی بشری شیخ نے پریس کارڈ دکھایا تب بھی ان کوپولیس کی طرف سے بھدی بھدی گالیاں دی گئیں، اور ان کا موبائل فون بھی چھین لیاگیا، پَل پَل نیوزکے صحافی شارق عدیل یوسف کو لاٹھیوں سے مار کر زخمی کیاگیا اور پریس کارڈ بھی لےلیا اتنے میں بھی تشدد کرنےسےجی نہیں بھرا تو موبائل فون بھی توڑ دیاگیا۔
قارئین کرام! اپنے مطالعے کے مطابق میں پورے وثوق سے کہہ رہاہوں کہ گذشتہ پانچ سالوں میں 200 سو سے زائد صحافیوں پر سنگین حملے اور ظلم وتشدد ہوئے ہیں 'گینگ وے ودمرڈر نام' کی اسٹڈی کے مطابق 2014ء سے لے کر 2019ء تک 40 صحافیوں کا قتل کیاگیا، اور اس قتل کی وجہ خاص ان کی صحافت رہی،سال 2010ء سے لے کر اب تک 30 سے زیادہ صحافیوں کے موت کےمعاملے میں صرف تین افراد کوہی مجرم ٹھہرایا گیاہے، 2014ء میں صحافی جےڈے، 2012ء میں صحافی راجیش مشرا، 2014ء میں صحافی ترون آچاریہ کے قتل کے معاملے ہیں، مطالعے کے مطابق ان قتل اور حملوں کے مجرموں میں، سرکاری ایجنسیاں، سیکورٹی فورس، سیاسی رہنما، مذہبی گرو، اسٹوڈینت یونین کے رہنما، کرائم گینگ سے جڑے لوگ اور مقامی مافیا شامل ہیں ،اس اسٹڈی میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ 2014ء سے اب تک ہندوستان میں صحافیوں پر تشدد اور حملے کے معاملے میں ایک بھی ملزم کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا، مطالعے کے نتائج کے مطابق صحافیوں کا قتل اور ان پر حملے کے مجرمان پولیس کی خستہ حال جانچ کی وجہ سے بچ جاتے ہیں ،عام طور پر پولیس صحافیوں کے قتل کے لئے صحافی، ان کی فیملی اور ساتھیوں کے الزام کو جھٹلا دیتی ہےیہ بھی پتہ چلا ہے کہ فیلڈرپورٹنگ کرنےوالی خاتون صحافیوں پر بھی حملے بڑھے ہیں، اس میں سبری مالا مندر میں عورتوں کے داخلے کو کور کرنے والی خواتین صحافیوں پر حملے شامل ہیں، اس مطالعے کے مطابق اس دوران 19 خاتون صحافیوں پر حملے کئے گئے، اپنے مطالعے کے مطابق میں یہ پورے وثوق سے کہہ رہاہوں کہ میڈیا کے اندر بڑھ رہا پولرائزیشن بھی تشویش کی وجہ ہےجب کہ ہمارے پیارے وطن عزیز کی رعنائی اور اس کا حسن وجمال اس کے جمہوری ہونے میں ہےاسکی بقا وسالمیت کے لئے اس کے مضبوط عمودوں(پلرس) کی بقا وسالمیت کی فکر ضروری ہے جو کہ زمام اقتدار سنبھالنے والوں کامنصبی فریضہ ہے قتل وتشدد کی یہ اعداد وشمار یقینا انتہائی اندوہناک و تشویشناک ہے دنیا بھر میں ملک کو بدنام کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ اگر صحافت صاحب اقتدار کے سُر میں سُر ملائے تو اس کاوقار مجروح ہوگا اور صحافت جو کہ خدمت خلق، اظہار حق اور مظالم کی سر کوبی سے تعبیر ہے عوامی اعتماد کے قیمتی اثاثے سے محروم ہو جائے گی،
بھائی عبدالغنی نامہ نگار روزنامہ انقلاب بہار کہتے ہیں کہ صحافت کے لئےنامساعد وناموافق حالات کا سامنا تو اس کا لازمہ ہے اہل صحافت کو عـز وارادہ کا کوہ گراں ہونا ہوگا جرأت وجسارت اور شجاعت و بسالت کے غیر متزلزل جذبہ سے لیس ہوناہوگا اور مجرمانہ کردار کےہر فرد کو جوابدہ ہونا ہوگا خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، جسمیں یہ اوصاف نہ ہوں وہ اس گلی میں آئے کیوں بہرکیف نامساعد حالات کے باوجود صحافی ہمیشہ تلوار کی دھار پر چلتے ہیں اب تو وہ شعلہ بداماں' پابہ جولاں اور صلیب دار ہوکر خارزار ہوکر رزم گاہ میں سر دھڑ کی بازی لگانے پر آمادہ ہیں بقول شخصے[ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں …سر ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں] اتنے نازک حالات کے باوجود میڈیا کے سامنے ایک بڑا چیلنج اور مسئلہ یہ ہے کہ صحافت میں تیزی کے ساتھ غیر ضروری رجحانات پیدا ہورہا ہے جو کسی مہذب اور ترقی پسند سماج کے لئے ہر گز موزوں نہیں میڈیا غیر ضروری رجحانات سنسنی' ٹی آرپی اور بگ بریکنگ کے بجائے عوامی مسائل بنیادی سہولیات ہیلپھ' ایجوکیشن اور ترقیاتی منصوبوں و پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرے چونکہ میڈیا کو عوام سے کھویا ہوا اعتبار و یقین تبھی مل سکتا ہے جبکہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے کے بجائے لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھیں گے اور عوام کی امیدوں پر کھرا اتریں گے صحافیوں کو سماجی ترقی' سیکولرازم کے فروغ کے لئے غیر جانب دار ہو اور ذمہ داری اور جوابدہی کے ساتھ فرائض اداکرنے کی ضرورت ہے
نیزحکومت کو چاہئے کہ صحافیوں کی تحفظات کو یقینی بنائے اور ان پر ہورہے ظلم وتشدد کی روک تھام کےلئے کوئی ٹھوس اور مضبوط لائحہ عمل تلاش کرکے صحافت کے لئے تَن مَن دَھن لگاکر رپورٹنگ کرنےوالے صحافیوں پر ہورہے مظالم کو بندکرے۔
مضمون نگار۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگرکے صحافی ہیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں