ادارہ ’’ادب اسلامی ریاض‘‘ نے صحافت کے موضوع پر سمینار کا اہتمام کیا۔ ’’تنظیم ہم ہندوستانی ریاض‘‘ کے زیر اہتمام تہنیتی تقریب کا موضوع بھی ’’اصول و آدابِ صحافت اور اخلاقی اقدار‘‘ تھا۔ جبکہ جدہ میں ٹوئن سٹیز ویلفیر سوسائٹی اور گلوبل پیس اینڈ ویلفیر کمیٹی نے اگرچہ برصغیر کی روایتی اسلامی طرز تعلیم پر مذاکرہ کا اہتمام کیا تاہم یہاں بھی اردو صحافت ہی موضوع بحث رہی۔ خاکسار نے اپنی کم علمی، محدود معلومات کے باوجود ارباب علم و دانش کے درمیان اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقاریر کی رسائی محدود سامعین تک ہوتی ہے جبکہ اخبار میں یہی خیالات شائع ہوجائیں تو نہ صرف اسے دستاویزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے بلکہ اس کی رسائی آج کے دور میں انٹرنیٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں ممکن ہے اور پھر پرنٹ میڈیا سے استفادہ نسل درنسل ممکن ہے۔ خاکسار نے بلاتامل، بلاجھجک اپنے 34سالہ صحافتی تجربہ کے باوجود اپنی محدود صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ آپ کی نذر ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس سے آپ اتفاق کریں۔ جہاں اختلاف کی گنجائش ہے‘ اس سے آگاہ کریں تو یہ احسان ہوگا۔ انشاء اللہ اس بات کی کوشش کروں گا کہ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے کر اس کی اصلاح کرسکوں۔
صحافت مقدس ترین پیشہ ہے‘ ان کے لئے جو اس کے مفہوم سے آشنا ہیں۔ ایک عام صحافی اور ایک مسلم صحافی میں فرق ہوتا ہے۔ مسلمان رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کی ذمہ داری نبھاتا ہے اور امن، محبت، اتحاد اور یکجہتی کے پیغام کو عام کرتا ہے۔ برائی، ظلم کے خلاف اپنے قلم سے جہاد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ تیز ہوتا ہے‘ صاحب سمجھ تلوار کو کمزوروں کی حفاظت کے لئے، حق کی بقاء کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی طاقت کے غیر ضروری مظاہرہ کے لئے اس کا استعمال کبھی نہیں کرتے۔ قلم کی عظمت قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ اس عظمت کا پاس و لحاظ، اس کا تحفظ صاحب قلم کی ذمہ داری اور اس کا فریضہ ہے۔ تلوار کا زخم مندمل ہوسکتا ہے‘ پلاسٹک سرجری سے اس کے نشان چھپایا جاسکتا ہے مگر قلم سے لگا ہوا زخم صدیوں تک مندمل نہیں ہوتا‘ ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔ اگر کسی کے قلم سے کسی کی کردار کشی ہوتی ہے تو جب تک تحریر دنیا میں رہے گی‘ اس وقت تک کردار کشی کا سلسلہ جاری رہے گا بلکہ اس گناہ کا عذاب بھی اتنا ہی ملتا رہے گا۔
صحافت سے چاہے کسی بھی حیثیت سے وابستگی کے لئے یہ ضروری ہے کہ سچے اور مکمل مسلمان ہو‘ خوف خدا ہو‘ جوابدہی اور محاسبہ کا ایقان ہو اور وہ قرآن کریم اور تعلیمات نبوی ا کے اِن اصولوں کو اپنے لئے رہنمایانہ خطوط بنائے۔ قرآن کریم کی اس آیت کو وہ صحافت کی بنیاد تصور کرے کہ ’’جب کبھی کوئی فاسق تمہارے پاس جھوٹی خبر پہنچائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو ورنہ کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے‘‘۔ آج اگر ہم غور کریں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جو انتشار اور خلفشار ہے وہ بلاتحقیق خبروں کی اشاعت یا نشریات کی وجہ سے۔ بلاتحقیق خبر، افواہ بھی ہوتی ہے، الزام اور تہمت بھی۔ اس سے صحافی اور صحافتی ادارے کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے اور یہ کبھی معاشرے کی نظر سے اور کبھی خود اپنے نظر سے گرجاتے ہیں۔
قرآن کریم ہی میں تلقین کی گئی ہے کہ ’’جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔ حق کو باطل کا رنگ چڑھاکر نہ پیش کرو‘‘۔ آج ہم حق کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور اپنی مفادات، اپنا اَنا کے لئے حق کو باطل اور باطل کو حق کا رنگ چڑھاکر پیش کررہ ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے بیشتر صحافتی ادارے اور صحافی حضرات عوامی اعتماد سے محروم ہوتے جارہے ہیں اور بے اعتباری بڑھتی جارہی ہے۔ اگر اس حدیث شریف کو صحافی اور صحافتی ادارے اپنا اصول بنالیں کہ ’’دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالو اللہ تمہارے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا‘‘ تو آپسی انتشار، اختلافات، نفرت و دشمنی کی دیواریں گرجائیں گی‘ آپسی اتحاد و اتفاق، اخوت و بھائی چارگی کے جذبے پروان چڑھیں گے۔ اور امت مسلمہ ایک بار پھر ناقابل تسخیر بن جائے گی۔ صحافتی اداروں کے مالکین جن میں سے بیشتر مدیران ہوتے ہیں‘ وہ خوشامد پسندوں، ان کے منہ پر تعریف کرنے والوں کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ اور آپ ا کے فرمان کو یاد کریں تو وہ اور بھی بہتر انداز سے اپنے ادارے چلاسکتے ہیں۔ آپ ا نے سامنے تعریف کرنے والے کے منہ میں خاک فرمایا تھا۔ بیشتر صحافتی اداروں کے مالکین بنیادی طور پر اچھے انسان ہوتے ہیں۔ وہ انسانیت کے جذبے سے بھی سرشار رہتے ہیں۔ مگر بعض طاغوتی طاقتیں انہیں ان کے فرض اور ذمہ داریوں سے دور رکھنے کیلئے سرگرم عمل ہوجاتی ہیں۔ اور اکثر و بیشتر یہ حضرات جو فطرتاً سادہ لوح ہوتے ہیں غیر محسوس طریقہ سے مکار، عیار، خوشامد پسند عناصر کی سازشوں کے شکار ہوجاتے ہیں‘ غیر محسوس طریقہ سے اپنی تعریف کے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ جو واقعی اِن حضرات کے ہمدرد ہوتے ہیں‘ وہ اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ انجام کیا ہوگا‘ وہ خوشامد پسند حلقے سے انہیں آزاد کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ صحافتی اداروں کے ذمہ دار صحیح معنوں میں قوم کے معمار، ذمہ دار اور اثاثہ ہیں۔ جب وہ کسی بھی قسم کے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں تو اپنے اصل راستے یا مشن سے بھٹک جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں جو ادارے قوم کی رہنمائی کے ضامن ہوسکتے ہیں‘ وہ اپنے فرض کو مکمل طور پر ادا نہیں کرپاتے ہیں۔
ایک سچا مسلمان صحافی ہمیشہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی کے ہر حصہ میں مشعل راہ بناتا ہے۔ آپ ا کا اپنے مخالفین کے ساتھ حسن سلوک اور اپنے دشمنوں کے لئے دعائے خیر رہتی دنیا تک کیلئے دلوں کو مسخر کرنے کا بہترین نسخہ۔ صحافتی ادارے اور صحافی اس وقت تک اپنے فرائض کو دیانتداری کے ساتھ انجام نہیں دے سکتے تاوقتیکہ وہ اپنے مخالفین اور دشمنوں کے لئے بھی کشادہ ذہنیت کے ساتھ قلم استعمال نہ کریں۔ جب ہم اپنا دل بڑا کریں گے تو دشمن اور مخالفین صرف شرمندہ ہوں گے اور کچھ عجب نہیں کہ وہ مستقبل میں ہمارے بہتر ساتھی بن جائیں۔
صحافتی اقدار کا جب بھی ذکر آتا ہے تو سوچنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر اقدار کسے کہتے ہیں۔ بقول ایک شاعر کہ ’’کتابوں میں چھپتے تھے چاہت کے قصے، حقیقت کی دنیا میں چاہت نہیں ہے‘‘۔ اقدار قول اور فعل میں یکسانیت کا نام ہے۔ اسے ہم اقدار کی پامالی کہیں گے کہ اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے انتشار پھیلانے والی خبریں اور مضامین کی اشاعت ایک ہی اخبار یا جریدے یا رسائل میں تفسیر قرآن، احادیث، صحابہ کرامؓ اور بزرگان دینؒ کے اقوال، ان کی سیرت پر مضامین اور انہی اخبارات اور جرائد کے دوسرے صفحات پر فلمی اداکاروں کے معاشقے‘ اسکینڈلس اور مخرب اخلاق مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے قارئین کو جو صدفیصد مسلمان ہیں‘ انہیں خیر کی طرف بلارہے ہیں یا گمراہی کے راستے پر لے جارہے ہیں۔ کیا یہ ہمارے صحافتی اداروں کے اخلاقی گراوٹ کی انتہا نہیں ہے کہ روپئے کی خاطر ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسے اشتہارات بھی شائع کردیتے ہیں جس سے ایک طرف آپ کا ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے تو دوسری طرف آپ کے اخلاق اور کردار کے متاثر ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ عاملوں، عطائی حکیموں بلکہ بعض اردو اخبارات میں عیاشی کے لئے بھی اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں۔ جسے ہر عمر کے مرد و خواتین، بچے اور نوجوان پڑھتے ہیں۔ اگر یہ اشتہارات شائع نہ بھی کئے جائیں تو کوئی ادارہ بند نہیں ہوسکتا۔اگر اللہ پر توکل ہے‘ اس کے رزاق ہونے کا ایمان ہے تو گمراہ کرنے والے مضامین اور اشتہارات سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔سرکولیشن کے نام پر ہم جس طرح سے سمجھوتہ کررہے ہیں ہوسکتا ہے کہ جتنے لوگ مخرب اخلاق مضامین اور اشتہارات کی وجہ سے ہمارے اخبار خرید رہے ہوں اس سے کہیں زیادہ آپ کے اخبارات سے دوری اختیار کررہے ہوں۔ ہم وہ انگریزی اخبارات اپنے گھر میں طلب نہیں کرتے جن میں عریاں یا نیم عریاں تصاویر شائع ہوتی ہیں تو پھر واہیات مضامین اور اشتہارات کے حامی اردو اخبارات کو کیسے برداشت کرپائیں گے۔اخبارات قارئین خرید کر پڑھتے ہیں قارئین کی پسند اورناپسند کا انہیں لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی اخبار یا جریدہ آپ کے معیار ذوق پر نہیں اترتا تو قاری کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اخبار کے مالکین کو اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ اگر وہ اصلاح کرے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے اخبار سے متعلق پسند کا اختیار ہے۔
صحافی یقیناًاللہ کا محبوب بندہ ہے اگر وہ اپنی ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ نبھائے۔ جو اپنے آپ کو کاتب تقدیر سمجھنے لگے اسے اپنے پیش رو ان صحافیوں کا انجام بھی یاد رکھنا ضروری ہے جنہوں نے اپنے قلم سے ظلم ڈھایا‘ غلط طریقہ سے دولت کمائی‘ مگر جب ان کا آخری وقت آیا تو ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مر گئے اور لوگوں نے ان کی موت مٹی چندوں سے کی۔
جواب دیں