جی ہاں! صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا احترام فرض عین ہے

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا جب بھی ذکر آتا ہے‘ اہل ایمان کے دل محبت میں جھوم جاتے ہیں۔ تصور میں بھی وہ رشک کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے وہ نیک بندے ہیں جنہیں ان کی حیات میں اللہ کے راضی ہونے کی بشارت ملی۔ جنہیں شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی دیدار کی دولت نصیب ہوئی۔ آپ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی خدمت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں جن پر سایہ فگن رہیں‘
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ وقفہ وقفہ سے اسلام دشمن طاقتیں صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرتی رہی ہیں۔ بعض کے مقام اور مرتبہ کی آڑ میں دوسرے صحابہ کرام کی عظمت اور ان کے تقدس کو پامال کرنے کی ناپاک و مذموم کوشش کی جاتی رہی۔ یہ وہ طاقتیں ہیں جو یقیناًاللہ کے معتوب اور مقہور ہیں کیوں کہ جن پر اللہ کا فضل اور کرم ہے وہ تو صحابہ کرام سے عقیدت اور محبت کرتی ہیں۔ کیوں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے بارے میں فرمایا ’’میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی اقتدار کروگے اس سے راہ پاؤگے‘‘۔
مولانا سید احمداللہ بختیاری استاد حدیث دارالعلوم حیدرآباد نے اپنے ایک مقالہ ’’قرآن اور صحابہ رضی اللہ عنہم ‘‘ میں صحابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحابی وہ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اسی ایمانی حالت پر انتقال ہوا ہو اور اگرچہ مرتد ہوکر دوبارہ ایمان لایا ہو‘ یہ ملاقات عام ہے مجلس شریف میں بیٹھنا نصیب ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ معیت نصیب ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی سے جاکر ملنا بھی ثابت ہو اگرچہ گفتگو نہ ہوئی ہو۔ اس تعریف سے مرتد اور اہل نفاق نکل جائیں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے جو قربانیاں دیں جو تکالیف برداشت کیں‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا عبدالناصر صاحب نائب مہتمم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن و حدیث و اجماع کی روشنی میں زیر عنوان اپنے سیر حاصل مقالہ میں لکھا ہے کہ اللہ رب العزت نے تمام بنی نوع انسان کی ہدایت‘ صلاح و فلاح کے لئے جامع اصول حیات اور مکمل نظام زندگی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا اور اس کی صیانت و حفاظت‘ ترویج و اشاعت کی ذمہ داری پوری امت کے کندھوں پر ڈالی۔اور اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کا مکلف سب سے پہلے اُس برگزیدہ جماعت کو بنایا جو تقویٰ و طہارت، خلوص للہیت، زہد و قناعت، توکل و انابت، جود و سخا، نثار و قربانی، امانت داری، وفاشعاری، ہمدردی، خیر خواہی، عفت وپاکدامنی، دیانت داری و جانبازی جیسے جملہ اوصاف حسنہ و عالیہ سے آراستہ و مزین ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کی جماعت اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کی تحت منتخب فرمائی۔ اللہ جل شانہ نے رسالت و نبوت کے لئے بندوں کے قلوب پر نظر انتخاب ڈالی تو ان میں سے سب سے بہتر قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا چنانچہ آپ کو اپنا پیغمبر بناکر بھیجا، جب دوبارہ بندوں کے قلوب پر نظر ڈالی اور قلب محمدی کے بعد اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلوب کو سب سے بہتر و افضل پایا تو ان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت، دین کی نصرت و حمایت کے لئے منتخب فرمایا۔ 
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں جو آدمی کسی کو اسوہ اور نمونہ بنانا چاہے تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں اور جانثاروں کو نمونہ بنائیں کیوں کہ ان کے قلوب میں بے پناہ طہارت و پاکیزگی، قلوب میں گیرائی و گہرائی، ان کی زندگیوں میں سادگی و بے تکلفی، ان کی سیرت، ان کے اخلاق و اعادت میں اعتدال، اور ان کے احوال میں حسن و جمال پایا جاتا ہے۔ اللہ نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت اور دین کی نصرت و حمایت کے لئے ان کو چنا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یقیناًبعض کو بعض پر افضلیت ہے مگر اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افعال و اقوال کے زیر عنوان اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ صحابیت کا ثبوت چار طریقوں سے ہوسکتا ہے‘ (۱)تواتر کے ذریعہ جیسے حضرات خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ وغیرہ جو تواتر سے کمتر درجہ شہرت کے ذریعہ جیسے حضرت ضمام ثعلبہ اور عکاشہ بن محصن (۳)کوئی معروف صحابی کسی شخص کے بارے میں صحابی ہونے کی اطلاع دیں جیسا کہ حضرت ابوسیٰ اشعری نے حممۃ بن ابوحممہ الدوسی کی بابت صحابی ہونے کی خبر دی۔ (۴)کوئی ایسا شخص جس کا عادل و معتبر ہونا معلوم ہو اور زمانی اعتبار سے ان کا صحابی ہونا ممکن بھی ہو‘ ا گر صحابی ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کرلیا جائے۔ اس سلسلہ میں علماء کا خیال ہے کہ 110ہجری کے بعد اگر کوئی شخص صحابیت کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ غیر معتبر ہے۔ کیوں کہ خود پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 10ہجری میں فرمایا تھا ’’آج کوئی متفنس نہیں کہ سو سال گذرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہے‘‘۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا پوری انسانیت پر عظیم احسان ہے ۔ قرآن مجیدکی تدوین میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کلیدی رول رہا ہے۔ مولانا اسعد اعظمی استاد دارالعلوم حیدرآباد کے ایک مضمون کے مطابق قرآن کریم کی تدوین تین ادوار میں ہوئی۔ دورِ رسالت، دور صدیقی اور دور عثمانی میں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کی خدمت اس طرح کی کہ وہ خود قرآن کی تفسیر بن گئے۔ احادیث شریفہ بھی اگر ہم تک پہنچے ہیں تو یہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا احسان عظیم ہے جنہوں نے ان احادیث شریفہ کو اکٹھا کیا‘ بعض نے انہیں جانور کی کھالوں پر، مٹی کی ٹھیکریوں پر لکھ دیا۔ بعض سینہ بہ سینہ منتقل کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے قرآن کی تفسیر بیان کیا اور خود تفسیر بھی بنے۔ احادیث کی تشریح بھی کی اور انہوں نے احادیث کو عام کیا۔ ان میں نہ صرف احادیث کو جمع کرنے کا شوق تھا بلکہ اسے حافظہ میں یا تحریر میں محفوظ رکھنے کا جذبہ بھی۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کے الفاظ میں صحابہ کرام حدیث کے زندہ نسخے تھے۔ آپ کے ساتھ سفر میں ساتھ رہنے والے، غزوات میں شریک ہونے والے‘ مختلف موقعوں پر آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے ہر لفظ قیمتی موتی تھا جسے وہ سنبھال کر رکھتے تھے۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ ان سے 5374 احادیث روایت نقل کی گئی ہیں۔ اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے 2210 حادیث نقل کی گئی ہیں۔ایسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و صحابیات رضی اللہ عنہن کی تعداد بھی قابل لحاظ ہیں جن سے ایک ایک حدیث مروی ہے۔
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عدل و انصاف کے پیکر تھے۔ قناعت، توکل ان کا شیوہ تھا۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور جانثاری اتنی تھی اسے کسی بھی پیمانے پر جانچا نہیں جاسکتا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ انہوں نے اسوۂ حبیب خدا کو اپنا لیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا کو عدل سکھایا‘ جیل خانہ دیاتو قیدیو ں کی اصلاح ان کے حقوق اور مفادات کا طریقہ بھی بتایا۔ حکمرانی کی تو وہ لوگ بھی ا ن کے طریقہ حکمرانی کو اختیار کرنے کے لئے مجبور ہوگئے یا اس کی تلقین کرتے رہے جیسے گاندھی جی اور پنڈت نہرو نے انداز حکمرانی کیلئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مثال دی۔ حق کیلئے امام حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنی جاں نچھاور کرتے ہوئے رہتی دنیا تک کیلئے یہ پیغام دیا کہ حق کیلئے سرجھکانے کے مقابلے میں سر کٹادینا چاہئے۔ اپنے امیر کی اطاعت کوئی سیدنا خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ سے سیکھے جنہیں بھری محفل میں امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ معزول کردیا تو اپنے امیر کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا اور اُف تک نہ کیا۔ہر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ ہمیں ایک نئی روشنی دیتی ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم سے نئی نسل کو واقف کروانا ہماری ذمہ داری ہے۔ دینی مدارس میں تو یہ تعلیم دی جاتی ہے مگر عصری تعلیمی اداروں میں شاید ہی صحابہ کرام سے متعلق تعلیم دی جاتی ہو۔ یہ ذمہ داری تعلیمی اداروں سے زیادہ والدین کی ہے اور جہاں والدین بھی سیرت صحابہ و صحابیات سے واقف نہیں ہیں‘ تو یہ مساجد کے منبروں سے بھی ممکن ہے۔اگر صحابہ کرام اور صحابیات عظام رضی اللہ عنہم اجمعین کی حالات زندگی ان کی قربانیوں سے واقف ہوجائیں تو تمام مسائل کا خاتمہ ہوجائے۔ قناعت کفایت، اطاعت، وفاشعاری اور دنیا و آخرت کی فلاح کیسے ہو‘ سمجھ میں آجائے گا اور یہ دنیا بھی جنت بن سکتی ہے۔ 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام فرض عین ہے۔ جو احترام نہیں کرتے وہ ملعون ہیں‘ ان کی مذمت بھی کی جانی چاہئے اور سماجی بائیکاٹ بھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت اور ان کے مقام و مرتبہ سے نئی نسل کو واقف کروانے کیلئے جو افراد اور تنظیمیں جدوجہد کررہی ہیں‘ وہ قابل ستائش ہیں۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:07فروری2019(ادارہ فکروخبر)
 

«
»

اسلام میں جانوروں کے حقوق

افسوس! عصر حاضر میں نوجوانوں کو قرآن کریم پڑھنے کے لیے بھی فرصت نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے