ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔‘
انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں جو وعدہ کیا تھا اُسے پورا کیا۔ ہم اور ہمارے ہمدرد انہیں ان کے وعدے کی تکمیل سے باز نہیں رکھ سکے اس لئے کہ ہر اعتبار سے ان کے مقابلہ میں ہم کمزور تھے۔ انہوں نے قانون منظور کروالیا۔ اور اب پریشان ہے کیوں کہ انہیں امید نہیں تھی کہ اس کی اتنی شدت سے مخالفت کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ شدت کب تک برقرار رہے گی۔ دفعہ 370 کی برخواستگی، طلاق ثلاثہ، رام مندر اور اب شہریت ترمیمی بل کی منظوری اگلا قدم NRC۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل سے کتنے فیصد ہندو خوش ہوئے ہوں گے اس سے بحث نہیں ہے۔ بعض معاملات میں مذہبی جذبات غالب آجاتے ہیں اور اس کا سیاسی جماعتیں استحصال کرتی ہیں۔ سنگھ پریوار اور اس کے قبیلے کی جماعتوں نے ایسا ہی کیا۔ مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ کسی شئے کی اہمیت اسی وقت تک رہتی ہے جب تک وہ حاصل نہیں ہوتی۔ جب آپ کے ہاتھ آجاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔ بی جے پی یا این ڈی اے نے جس طرح سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کے استحصال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا‘ اس میں رام مندر سب سے اہم مسئلہ تھا۔ انہیں کامیابی اس لئے ملی کہ ہزاروں دیوتاؤں کو ماننے والے ایک مندر کے لئے ایک ہوگئے۔ ایک اللہ کو ماننے والے جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں‘ سب کی رہنمائی کے لئے ایک ہی آسمانی کتاب قرآن مجید ہے وہ اللہ کے گھر کے لئے ایک نہ ہوسکے۔ بلکہ اپنے اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے لئے کئی خانوں میں بٹ گئے۔ اللہ رب العزت ان کی مدد کیوں کرے گا؟ پھر بھی یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد سنگھ پریوار کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال دیں۔ مہاراشٹرا میں اقتدار کی کرسی کے لئے ہی سہی‘ ایک نظریہ، ایک نصب العین مسلم دشمنی میں متحد بی جے پی اور شیوسینا میں وقتی طور پر ہی سہی پھوٹ تو پڑی۔ دنیا کے فیصلے اپنی جگہ آسمانی فیصلے اپنی جگہ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب زمین کے فرعون خدائی کے دعوے کرنے لگتے ہیں تو جو اصل قہار اور جبار ہے وہ اپنے طاقت کی ہلکی سی جھلک دکھاتا ہے۔ 6/دسمبر1992ء کو بابری مسجد شہید ہوئی۔ ہم غم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ مہینوں بعد وہ علاقہ جہاں کارسیوکوں نے مسجد کی شہادت کا منصوبہ بندی کرنے کیلئے بہت بڑا کیمپ منعقد کیا تھا۔ وہاں کے لوگ مسلمانوں کی اخلاقی شکست کا جشن مناکر شراب کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ زمین کی ہلکی سی ایک جنبش نے انہیں یا تو نگل لیا یا تہس نہس کردیا۔ اُس وقت وہاں کی غیر مسلم خواتین نے اُن لوگوں کو کوسا جو بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار تھے۔ ان خواتین کا یہ شدید احساس تھا کہ جو زلزلہ آیا جس سے اس کی مانگیں سونی ہوئیں گودیں اُجڑ گئیں گھر تباہ ہوئے وہ دراصل بابری مسجد کے شہید کئے جانے پر ”بھگوان“ کا ”شراپ“ تھا۔ اگر ہمارے غیر مسلم برادران اور این ڈی اے کے قائدین اور کارکن ہوش و حواس میں رہ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ محاسبہ کریں اور حالات کا جائزہ لیں گے تو انہیں انداز ہوگا کہ گذشتہ ساڑھے پانچ چھ سال کے دوران وہ عناصر جو ہماری بربادی کے عزائم کے ساتھ اقتدار حاصل کرتے ہوئے ہندوتوا نظریہ کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ بظاہر انہیں کامیابی مل رہی ہے مگر ہر قدم پر وہ ٹھوکر بھی کھارہے ہیں‘ ہر محاذ پر انہیں سبکی بھی ہورہی ہے بلکہ حالیہ عرصہ کے دوران تو اس بات کے بھی آثار پیدا ہوگئے ہیں کہ اعلیٰ قیادت کے لئے آپس میں بڑے پیمانہ پر گروہ بندی ہوجائے گی۔
بی جے پی نے ابھی تک جو کچھ کیا وہ عملی طور پر ایک ہی طبقہ کے خلاف کیا۔ کشمیر کے خصوصی موقف کو برخاست کیا گیا اس سے آنے والے برسوں میں کشمیریت ختم کردی جائے گی۔ اردو وہاں کی پہلی سرکاری زبان ہے‘ ہندی اس کی جگہ لے لے گی۔ کشمیری عوام ہوسکتا ہے کہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لیں گے مگر آنے والی نسلیں اور مورخین شاید بی جے پی حکومت کا ذکر فخر سے نہیں کریں گے۔ ابھی تک کشمیر کا جو موقف تھا‘ اس سے فیضیاب وہاں کے عوام بلالحاظ مذہب و قوم ہورہے تھے۔ مگر حکومت نے جو کیا اس میں گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پس گیا۔
طلاق ثلاثہ قانون بننے کے بعد طلاق کے و اقعات میں کمی نہیں آئی۔ یہ ضروری ہے کہ پولیس میں شکایت کم درج ہونے لگی۔ قومی شہریت بل اور اس کے بعد NRC سے بھی عوام کے طبقہ کو وقتی طور پر خوش تو کیا جاسکتا ہے مگر جن مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ سب کیا جارہا ہے‘ وہ اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔ اور عوام تو عوام ہیں۔ کب تک بہلائے جاتے رہیں گے۔ بیروزگاری، مہنگائی کے خاتمہ کے ہم اہل نہیں ہیں۔ اور جب عوام سوال کرنے لگیں گے تو حکومت رام مندر، CAB اور NRC سے انہیں مزید نہیں بہلاسکتی۔یہ اچھی بات ہے کہ مظلوم غیر مسلم غیر ملکیوں کو انسانی بنیادوں پر شہریت دی جارہی ہے۔
اگر دوسرے ممالک میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے تو کیا ان کی مدد کرنا انسانیت کے خلاف ہے۔ چین کے ایغوری مسلمان اور میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم سے کون واقف نہیں ہے۔ میانمار کی قومی لیڈر آنگ سانگ سوچی کا آج کیا حال ہوگیا ہے۔ نوبل انعام چھین لیا گیا اور آج بین الاقوامی عدالتی انصاف میں جو بے عزتی اس کی ہورہی ہے آنے والے برسوں میں ہر اُس لیڈر کو اِس مرحلے سے گزرنا ہے جس نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کئے۔ غیر مسلم باشندوں کو ضرور ہندوستانی شہریت دیجئے مگر اس کے لئے مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم کیا جانا‘ یا انہیں خوفزدہ کرنا کس حد تک جائز ہے۔پھر یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ ہم اپنے ملک میں دلتوں کو آج تک انصاف نہیں دے سکے۔ عیسائیوں پر بھی سنگھ پریوار اور ان کے قبیلے کے ارکان نے جو مظالم ڈھائے بھلا غیر ملکی شہریوں کے ساتھ ہم کیسے انصاف کرسکیں گے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘ مسلمان عادی ہیں ہر قسم کے مظالم سہنے اور مکمل تباہ ہوکر دوبارہ نئی ہمت، نئے جذبے کے ساتھ اپنے پیروں پر آپ کھڑا ہونے کے۔ یہی وجہ ہے کہ 1947سے لے کر آج تک ہزاروں مسلم کش فسادات ہوئے‘ جہاں جہاں مسلم آبادی معاشی طور پر مرفع حال رہی وہاں فسادات کے ذریعہ معیشت کو تباہ کرکے انہیں محتاج بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ کسی ایک ملک کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر اس ملک کی کہانی ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ایسے ہر ملک میں اسلام دشمن طاقتوں نے جب جب اقتدار ملا تب تب مسلمانوں کو کچلنے کی کوشش کی ان سے ان کی مذہبی شناخت چھیننے کی کوشش کی گئی۔ کچھ برس تو وہ کامیاب رہے امگر نہ تو اسلام مٹایا جاسکا نہ ہی مسلمانوں کو بلکہ جس کسی نے یہ کوشش کی نہ تو اس کا اقتدار رہا‘ نہ ہی اس کی مملکت سالم رہی‘ سویت یونین اس کی مثال ہے جہاں 70برس تک مسلمانوں پر مظالم ڈھائے گئے۔ مساجد بند کردی گئی تھیں۔ قرآن پر پابندی عائد کی گئی تھیں۔ ان 70برسوں میں مسلمانوں نے خاموشی کے ساتھ چپکے چپکے اپنے مذہب کی تبدیل بھی کی۔ اپنی دو تین نسلوں کو قرآن اور اسلام کی تعلیم بھی دی۔ نمازیں بھی پڑھیں اور پھر 80کے دہے میں اسلام کو مٹانے کی کوشش کرنے والوں کے مجسمہ چوراہوں پر گھسیٹے گئے ان پر جوتوں کی بارش ہوئی اور 6نئی اسلامی مملکتیں وجود میں آئیں۔
ہندوستان میں انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ 30کروڑ مسلمانوں کے ساتھ اگر کسی قسم کے مظالم اور ناانصافی کی کوئی منصوبہ بندی ہے تو ا نشاء اللہ یہ ناکام ہوگی کیوں کہ اب مسلمان کسی حد تک خواب غفلت سے جاگنے لگا ہے۔ اگر وہ پوری طرح آنکھیں کھول کر اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لیں اور یہ فیصلہ کرلیں کہ پورے عزت و وقار کے ساتھ اپنے حقوق کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو اسے دوسروں کی طرح ایک ہونا ہوگا۔ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوگا۔ ایک دوسرے کو ہر اعتبار سے مستحکم کرنا ہوگا۔اختلافات اپنی جگہ پر مگر جو ضمیر فروش اپنے مفادات کیلئے اقتدار کے ایوانوں کی دہلیز پر حاضری دے کر ملت کا سودا کرتے ہیں انہیں سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جب جب ہم ایک ہوئے ہمارے مخالفین نے یا تو ہماری صفوں میں منافقوں کو داخل کرکے ہم میں انتشار پیدا کیا یا پھر ہماری صفوں کے لالچی، مفادپرستوں کو خریدکر انہیں ہمارے خلاف استعمال کیا۔ایسے ملت اور قوم کے غداروں کو کیا سزا دی جانی چاہئے اس کا فیصلہ ہمارے علمائے کرام کریں۔ایوان پارلیمنٹ میں یقینا اپوزیشن قائدین نے اپنے ضمیر کی آواز بلند کی جس کے لئے ہم ان کے شکر گذار ہیں‘ راجیہ سبھا میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ شہریت ترمیمی بل سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا انہیں فکر کرنے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ امید ہے کہ ان کے یہ الفاظ ٹالنے کے لئے نہیں ہوں گے۔ارباب اقتدار کو ان کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو‘ یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں ہندوستانی مسلمانوں کو نہ تو پناہ ملے گی نہ ہی وہ دوسرے ملک جانا چاہیں گے۔ وہ اِسی سرزمین پر رہیں گے اور اِسی میں دفن ہوں گے۔ البتہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک اگر ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں اور یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ اس لئے کہ یہ دنیا کی ایک عظیم جمہوریت ہے‘ جس کا اب تک ایک سیکولر کردر اور یہاں پر 25تا 30کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے جو کسی بھی مسلم ملک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں پر اگر کسی قسم کا ظلم ہوتا ہے تو مذہب کی بنیاد پر نہ سہی‘ انسانیت کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر احتجاج ہوسکتا ہے اور ہندوستان کی آج جو ساکھ ہے وہ متاثر ہوگی۔ارباب اقتدار کو ملک کے اندر بھی دیکھنا ہے اور ملک کے باہر بھی جھانک لینا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں