سڑکوں پر اترنے کے بجائے قانونی چارہ جوئی اور حکومت سے ڈائلاگ کیا جائے
عبدالغفار صدیقی
ملک کے موجودہ حالات سے ہم سب واقف ہیں۔خاص طور پر مسلمانوں کو لے کر اس وقت جو ایشوز ہیں وہ جگ ظاہر ہیں۔صبح سے شام تک ٹی وی چینلس پر مباحثے ہورہے ہیں۔ان ایشوز کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک قسم ان امور و معاملات کی ہے جس کا براہ راست تعلق امت مسلمہ سے ہے۔اس کا نفع و نقصان سیدھے طور پر مسلمانوں کو ہورہا ہے یا ہوگا۔حالانکہ بھارت کے شہری ہونے کے ناطے مسلمانوں کا نقصان بھی ملک کا ہی نقصان ہے۔دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جو اگرچہ امت مسلمہ کے تعلق سے ہیں لیکن اس کا نقصان ملک اور باشندگان ملک دونوں کو ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے والے کسی بھی فرد کا نقصان دراصل سب کا نقصان ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور کسی ایک کے نقصان پر سب کی آنکھوں میں نمی ہونی چاہئے۔لیکن جب نفرت کی دیواریں آنگن میں کھڑی ہوجاتی ہیں تو پھر ایک دوسرے کے نقصان پر اظہار افسوس کے بجائے خوشیاں منائی جاتی ہیں۔جیسا کہ آج کل بھارت میں ہورہا ہے۔
مسائل تو بہت ہیں جن کا تذکرہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔البتہ بطور مثال میں تین مسئلوں پر اپنی معروضات آپ کے سامنے رکھوں گا۔جس سے آپ باقی مسائل پر بھی اپنے رائے قائم کرسکتے ہیں۔اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث مسئلہ رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کا ہے۔اس مسئلہ کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔اس کا کوئی تعلق برادران وطن سے نہیں ہے۔لیکن اس کے اثرات سب پر پڑے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی مسلمانوں کے دین اور ایمان کا حصہ ہے۔آپ ؐ سے محبت کرنا ایمان کا جز ہے۔کوئی ایک بھی مسلمان خواہ وہ کسی بھی قسم کا مسلمان ہو ایسا نہیں ہے جو اپنے جیتے جی یہ برداشت کرے کہ کوئی اس کے نبی کی شان میں ایسے الفاظ کا استعمال کرے جو گستاخی کے ذیل میں شمار کیے جاتے ہوں۔یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی ذات مسلمانوں کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے،سینکڑوں بار دنیا اس کا تجربہ کرچکی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ گستاخی کرنے والے کو سستی شہرت کے سوا کیا حاصل ہوتا ہے۔وہ کون سے فائدے ہیں جو ملک کو پہنچتے ہیں۔آخر حکومت ان لوگوں کو آئین کے دائرے میں سزا دینے سے کیوں گریز کررہی ہے۔وہ کیوں چاہتی ہے کہ مسلمان سڑکوں پر آکر احتجاج کریں اور پھر پُرامن احتجاج کو شرپسند عناصر تشدد میں بدل ڈالیں۔اس کے بعد یک طرفہ گرفتاریاں ہوں،مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلائے جائیں۔تعجب ہے کہ حکومت دو افراد کی گرفتاری کے بجائے ملک کا امن و سکون تباہ برباد کردینا چاہتی ہے۔غیرملکی دباؤ میں پارٹی نے تو کارروائی کی لیکن حکومت کی سطح پر ایک بیان تک نہیں آیا۔
ملک میں ایک مسئلہ قدیم مساجدکے بارے میں ہے کہ وہ مندر توڑ کر بنائی گئیں تھیں۔اس مسئلہ کا تعلق ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔اس وقت گیان واپی کو لے کر یہ ایشو چرچا میں ہے۔بابری مسجد مقدمہ کے دوران ہی 1991میں پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا کہ جو عبادت گاہیں آزادی کے وقت جس شکل میں تھیں وہ اسی شکل میں رہیں گی۔اگر وہاں نماز ہوتی تھی تو نماز ہوتی رہے گی اگر وہاں مسجد ہوتے ہوئے بھی نماز نہیں ہوتی تھی تو نہیں ہوگی جب کہ مسلمانوں کا مطالبہ ہمیشہ رہا ہے کہ انھیں تمام مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔اس قانون کی موجودگی کے باوجود گیان واپی مسجد معاملے پر مقامی عدالت سے لے کر اعلیٰ عدالت تک میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔کسی عدالت نے یہ نہیں کہا کہ اس مسئلہ پر کوئی سنوائی نہیں ہوسکتی۔اس کے بجائے ملک کی دیگر مساجد پر بھی درخواستیں برائے سماعت قبول کرلی گئیں۔یعنی قانون کے محافظ ادارے کا یہ حال ہے کہ وہ ایک ایسے ایشو پر سماعت کررہا ہے جس کے بارے میں پارلیمنٹ قانون بنا چکی ہے۔اس پر مزید یہ کہ ٹی وی چینلس پر بحثیں شروع کردی جاتی ہیں،وہاں ذمہ داران کو بلا کر ایسے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن کا کوئی تعلق زیر بحث مسئلہ سے نہیں ہوتا،اسی لیے گستاخی رسول جیسے حادثات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے ٹی وی اینکر ہی منصف اور حاکم کا رول ادا کررہا ہے۔پورے ملک کے ماحول کو پراگندہ کیا جاتا ہے۔اس ایشو پر بھی موہن بھاگوت جی کا بیان تو آیاہے جس کا خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن حکومت چلانے والے خاموش ہیں۔
تیسرا مسئلہ جو مذکورہ دونوں مسئلوں کے نتیجے میں پیدا ہوا وہ ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی منافرت ہے۔ایک دوسرے سے اس قدر نفرت ہے کہ اب ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ڈر کا یہ ماحول خدا جانے کس کے حق میں مفید ہے۔برادران وطن مسلم علاقوں میں اور مسلمان غیر مسلم علاقوں میں آنے جانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔آبادیاں ٹرانسفر ہونے لگی ہیں،آٹھ لاکھ لوگ تو ملک چھوڑ چکے ہیں،ظاہر ہے یہ سب لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہل مال لوگ ہیں۔ان کے اس قدم کا ملک کی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔حکومت کی سطح پر کوئی قدم ایسا نہیں اٹھایا جارہا ہے جس سے محسوس ہو کہ وہ اس نفرت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ملک کے دو بڑے مذاہب کے ماننے والوں میں نفرت کا پیدا ہونا اور اس میں ہر روز اضافہ ہونا کسی طرح بھی اور کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟میری رائے میں نفرت کے ماحول کو تو محبت سے ہی بدلا جاسکتا ہے۔رحمۃ اللعٰلمین کی امت ہونے کے ناطے ہمیں کوڑا ڈالنے والوں اور طائف میں پتھر مارنے والوں کے جواب میں وہی رویہ اپنانا چاہئے جو خود نبی اکرم ؐ نے اپنایا تھا۔یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گستاخی کرنے والوں کے پیچھے کون ہیں؟خود ان سے بات کرنے اور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ہوسکتا ہے لاعلمی میں کوئی بات کہہ دی گئی ہو۔ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پہلا راستا قانونی ہے یعنی عدالت میں پیروی کی جائے اور جو فیصلہ ہو تسلیم کیا جائے خواہ وہ بابری مسجد کی طرح آستھا کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔دوسرا راستا ڈائلاگ کا راستا ہے۔میری معلومات کی حد تک ہم قانونی چارہ جوئی تو کررہے ہیں لیکن حکومت سے رابطے کی کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔گزشتہ مہینے تین بڑی کانفرنسیں ہوئیں دو دہلی میں اور ایک دیوبند میں اس میں جو کچھ ہوا وہ ہوا،وہاں بھی کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ حکومت سے بات کی جائے۔اس میں تاخیر مناسب نہیں ہے جس قدر جلدممکن ہوہمیں بات چیت شروع کرنا چاہئے۔مسئلہ ہمارا ہے پہل ہمیں کرنا چاہئے۔بات چیت اور ڈائلاگ کا یہ عمل الیکٹرانک چینلوں پر نہ ہو بلکہ حکومت کے ذمہ داران،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مذہبی افراد کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ہم اسی کے مکلف ہیں۔اس کے علاوہ حکومتی ایوانوں میں اپنی آواز پہنچانے کے لیے وہاں جو نمائندے موجود ہیں ان سے بات کرنا چاہئے۔سڑکوں پر آکر نعرے بازی بالکل آخری مرحلہ ہے،اگر پہلے کے دونوں مرحلے شعور کے ساتھ طے کرلیے جائیں تو سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔موجودہ حکومت آپ کے ووٹوں سے نہ بنی ہے،نہ آپ کی مخالفت سے بگڑے گی اس لیے اس کو سر گنوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اپنا ہی نقصان ہے۔اگر احتجاج کرنا بھی ہے تو پوری تیاری کے ساتھ کیجیے۔قانونی طور پر اجازت لیجیے۔ویڈیو گرافی کیجیے،میڈیا کو اپنے ساتھ رکھیے تاکہ نعرے لگانے والے اور پتھر مارنے والے پہچان لیے جائیں۔
مسائل تو بہت ہیں جن کا تذکرہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔البتہ بطور مثال میں تین مسئلوں پر اپنی معروضات آپ کے سامنے رکھوں گا۔جس سے آپ باقی مسائل پر بھی اپنے رائے قائم کرسکتے ہیں۔اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث مسئلہ رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کا ہے۔اس مسئلہ کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔اس کا کوئی تعلق برادران وطن سے نہیں ہے۔لیکن اس کے اثرات سب پر پڑے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی مسلمانوں کے دین اور ایمان کا حصہ ہے۔آپ ؐ سے محبت کرنا ایمان کا جز ہے۔کوئی ایک بھی مسلمان خواہ وہ کسی بھی قسم کا مسلمان ہو ایسا نہیں ہے جو اپنے جیتے جی یہ برداشت کرے کہ کوئی اس کے نبی کی شان میں ایسے الفاظ کا استعمال کرے جو گستاخی کے ذیل میں شمار کیے جاتے ہوں۔یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی ذات مسلمانوں کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے،سینکڑوں بار دنیا اس کا تجربہ کرچکی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ گستاخی کرنے والے کو سستی شہرت کے سوا کیا حاصل ہوتا ہے۔وہ کون سے فائدے ہیں جو ملک کو پہنچتے ہیں۔آخر حکومت ان لوگوں کو آئین کے دائرے میں سزا دینے سے کیوں گریز کررہی ہے۔وہ کیوں چاہتی ہے کہ مسلمان سڑکوں پر آکر احتجاج کریں اور پھر پُرامن احتجاج کو شرپسند عناصر تشدد میں بدل ڈالیں۔اس کے بعد یک طرفہ گرفتاریاں ہوں،مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلائے جائیں۔تعجب ہے کہ حکومت دو افراد کی گرفتاری کے بجائے ملک کا امن و سکون تباہ برباد کردینا چاہتی ہے۔غیرملکی دباؤ میں پارٹی نے تو کارروائی کی لیکن حکومت کی سطح پر ایک بیان تک نہیں آیا۔
ملک میں ایک مسئلہ قدیم مساجدکے بارے میں ہے کہ وہ مندر توڑ کر بنائی گئیں تھیں۔اس مسئلہ کا تعلق ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔اس وقت گیان واپی کو لے کر یہ ایشو چرچا میں ہے۔بابری مسجد مقدمہ کے دوران ہی 1991میں پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا کہ جو عبادت گاہیں آزادی کے وقت جس شکل میں تھیں وہ اسی شکل میں رہیں گی۔اگر وہاں نماز ہوتی تھی تو نماز ہوتی رہے گی اگر وہاں مسجد ہوتے ہوئے بھی نماز نہیں ہوتی تھی تو نہیں ہوگی جب کہ مسلمانوں کا مطالبہ ہمیشہ رہا ہے کہ انھیں تمام مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔اس قانون کی موجودگی کے باوجود گیان واپی مسجد معاملے پر مقامی عدالت سے لے کر اعلیٰ عدالت تک میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔کسی عدالت نے یہ نہیں کہا کہ اس مسئلہ پر کوئی سنوائی نہیں ہوسکتی۔اس کے بجائے ملک کی دیگر مساجد پر بھی درخواستیں برائے سماعت قبول کرلی گئیں۔یعنی قانون کے محافظ ادارے کا یہ حال ہے کہ وہ ایک ایسے ایشو پر سماعت کررہا ہے جس کے بارے میں پارلیمنٹ قانون بنا چکی ہے۔اس پر مزید یہ کہ ٹی وی چینلس پر بحثیں شروع کردی جاتی ہیں،وہاں ذمہ داران کو بلا کر ایسے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن کا کوئی تعلق زیر بحث مسئلہ سے نہیں ہوتا،اسی لیے گستاخی رسول جیسے حادثات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے ٹی وی اینکر ہی منصف اور حاکم کا رول ادا کررہا ہے۔پورے ملک کے ماحول کو پراگندہ کیا جاتا ہے۔اس ایشو پر بھی موہن بھاگوت جی کا بیان تو آیاہے جس کا خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن حکومت چلانے والے خاموش ہیں۔
تیسرا مسئلہ جو مذکورہ دونوں مسئلوں کے نتیجے میں پیدا ہوا وہ ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی منافرت ہے۔ایک دوسرے سے اس قدر نفرت ہے کہ اب ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ڈر کا یہ ماحول خدا جانے کس کے حق میں مفید ہے۔برادران وطن مسلم علاقوں میں اور مسلمان غیر مسلم علاقوں میں آنے جانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔آبادیاں ٹرانسفر ہونے لگی ہیں،آٹھ لاکھ لوگ تو ملک چھوڑ چکے ہیں،ظاہر ہے یہ سب لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہل مال لوگ ہیں۔ان کے اس قدم کا ملک کی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔حکومت کی سطح پر کوئی قدم ایسا نہیں اٹھایا جارہا ہے جس سے محسوس ہو کہ وہ اس نفرت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ملک کے دو بڑے مذاہب کے ماننے والوں میں نفرت کا پیدا ہونا اور اس میں ہر روز اضافہ ہونا کسی طرح بھی اور کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟میری رائے میں نفرت کے ماحول کو تو محبت سے ہی بدلا جاسکتا ہے۔رحمۃ اللعٰلمین کی امت ہونے کے ناطے ہمیں کوڑا ڈالنے والوں اور طائف میں پتھر مارنے والوں کے جواب میں وہی رویہ اپنانا چاہئے جو خود نبی اکرم ؐ نے اپنایا تھا۔یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ گستاخی کرنے والوں کے پیچھے کون ہیں؟خود ان سے بات کرنے اور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ہوسکتا ہے لاعلمی میں کوئی بات کہہ دی گئی ہو۔ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پہلا راستا قانونی ہے یعنی عدالت میں پیروی کی جائے اور جو فیصلہ ہو تسلیم کیا جائے خواہ وہ بابری مسجد کی طرح آستھا کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو۔دوسرا راستا ڈائلاگ کا راستا ہے۔میری معلومات کی حد تک ہم قانونی چارہ جوئی تو کررہے ہیں لیکن حکومت سے رابطے کی کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔گزشتہ مہینے تین بڑی کانفرنسیں ہوئیں دو دہلی میں اور ایک دیوبند میں اس میں جو کچھ ہوا وہ ہوا،وہاں بھی کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ حکومت سے بات کی جائے۔اس میں تاخیر مناسب نہیں ہے جس قدر جلدممکن ہوہمیں بات چیت شروع کرنا چاہئے۔مسئلہ ہمارا ہے پہل ہمیں کرنا چاہئے۔بات چیت اور ڈائلاگ کا یہ عمل الیکٹرانک چینلوں پر نہ ہو بلکہ حکومت کے ذمہ داران،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مذہبی افراد کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ہم اسی کے مکلف ہیں۔اس کے علاوہ حکومتی ایوانوں میں اپنی آواز پہنچانے کے لیے وہاں جو نمائندے موجود ہیں ان سے بات کرنا چاہئے۔سڑکوں پر آکر نعرے بازی بالکل آخری مرحلہ ہے،اگر پہلے کے دونوں مرحلے شعور کے ساتھ طے کرلیے جائیں تو سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔موجودہ حکومت آپ کے ووٹوں سے نہ بنی ہے،نہ آپ کی مخالفت سے بگڑے گی اس لیے اس کو سر گنوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اپنا ہی نقصان ہے۔اگر احتجاج کرنا بھی ہے تو پوری تیاری کے ساتھ کیجیے۔قانونی طور پر اجازت لیجیے۔ویڈیو گرافی کیجیے،میڈیا کو اپنے ساتھ رکھیے تاکہ نعرے لگانے والے اور پتھر مارنے والے پہچان لیے جائیں۔
مضمون نگارراشدہ ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ کے چیرمین،ماہر تعلیم اور آزاد صحافی ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں