تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
2019رخصت ہوگیا مگر یہ سال بھارت کے آئین کے تعلق سے ایک خطرناک سال رہا۔ ملک میں پہلی بار ایک ایسا قانون آیا جس کی بنیاد ہی مذہب پر رکھی گئی تھی۔ یہ شہریت ترمیمی قانون تھا۔ پورے سال وزیرداخلہ اس قانون کے ساتھ ساتھ این آرسی پر عوام کو دھمکیاں دیتے رہے اور سال کے اخیر میں اسے لے کر بھی آئے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے عوام سڑکوں پر ہیں اور احتجاج ومظاہروں کے دوران تشدد پھیل جانے کے سبب دودرجن سے زیادہ لوگ اب تک پورے میں جان گنواچکے ہیں مگر حکومت کی کان پر جوں تک نہ رینگی۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا آنے والے سال میں حکومت عوام کی رعایت کرتے ہوئے اس سیاہ قانون میں کچھ ترمیم کرے گی؟حالانکہ ہم نئے سال کا آغاز اس طرح کر رہے ہیں کہ نوجوان، طلبہ، خواتین اور بچے سڑکوں پر ہیں۔ شہریت قانون اور ممکنہ این آرسی کے خلاف دن رات مظاہرے کر رہے ہیں۔ سرد راتوں میں بھی وہ اپنے گرم بستر سے دور ہیں۔میں یہ منظر اب بھی اپنے محلے میں دیکھ رہا ہوں کہ رات کا وقت ہے اور ہزاروں کا ازدہام سڑک پر ہے،جس میں مرواور برقعہ پوش خواتین کے علاوہ ننھے ننھے بچے بھی شامل ہیں۔ ایک چھوٹا سا اسٹیج بنا ہوا ہے جہاں مائک کے ذریعے ایک شخص تقریرکر رہا ہے۔ لوگ غور سے سن رہے ہیں اور بیچ بیچ میں تالیاں پیٹ رہے ہیں، نعرے لگا رہے ہیں۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی ہیں۔ کچھ نوجوان اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ لئے تصویریں کھنچوارہے ہیں جن پر شہریت قانون اور این آرسی کے خلاف نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ شدید سردی ہے اور درجہ حرارت دس سے چھ ڈگری کے درمیان ہے لہٰذا سردی سے بچنے کے لئے الاؤ بھی جلائے گئے ہیں۔ تقریباً پچاس جگہوں پر الاؤ جل رہے ہیں اور اس کے ارد گرد بھی احتجاجی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ منظر دلی کے سریتاوہار۔نوئیڈا روڈ کا ہے۔ 15دسمبر سے اب تک احتجاجی، شاہین باغ کے قریب راستہ بند کئے بیٹھے ہیں جس کے سبب پوری دلی جام جھیلنے پر مجبور ہے۔ یہ سڑک دلی کو اترپردیش سے جوڑتی ہے اور پوری جنوبی دہلی کا ٹرافک اسی راستے سے جمنا پار کرکے اترپردیش سے مربوط ہوتا ہے۔ یہاں دن ہی نہیں رات کو بھی احتجاجی جمے رہتے ہیں۔ مرد ہی نہیں خواتین بھی اپنے بچوں کے ساتھ یہاں کھلے آسمان کے نیچے رات بتاتی ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ اگر وہ رات کو گھر گئیں تو پولس اس راستے کو کھول دے گی اور ان کا دھرنا ختم کرادے گی۔ حالانکہ یہاں سے تقریباپانچ کلومیٹر دور سرائے جولینا میں چند دن قبل سرکاری بسوں میں احتجاج کے دوران آگ لگائی گئی تھی اور پھر زبردست ہنگامہ رہا، اس کے بعد دلی پولس زیادہ محتاط نظر آرہی ہے اور احتجاجیوں کو ہٹانے سے گریز کر رہی ہے۔شہریت بل پاس ہونے کے بعد سے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر میں دہشت کا عالم رہا اور کرفیو جیسے حالات رہے۔ راجدھانی کے دوسرے مسلم علاقوں کی حالت بھی اس سے الگ نہیں تھی مگر اب حالات معمول پر آرہے ہیں۔
جامعہ کے اسٹوڈنٹس پر مظالم کی داستان
ملک وبیرون ملک کی میڈیا نے دکھایا کہ گزشتہ15دسمبرکو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اور طالبات کو پولس نے یونیورسٹی میں گھس کر بری طرح پیٹا۔ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ حالانکہ پولس نے ان اسٹوڈنٹس کو بھی پیٹا جو احتجاج میں شامل نہیں تھے اور یونیوسٹی لائبریری میں مطالعے میں مصروف تھے۔ کسی یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے پولس کو انتظامیہ سے اجازت لینی پڑتی ہے مگر وزیراخلہ امت شاہ کے ماتحت کام کرنے والی دلی پولس نے اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پولس کے بہادر جوان لائبریری میں داخل ہوئے اور اسٹوڈنٹس کو لاٹھی، ڈنڈوں، لاتوں اور گھونسوں سے پیٹنا شروع کردیا۔ ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ پولس نے انھیں بھی پیٹا جو ٹوائلٹ میں تھے۔ یہاں تک کہ استنجا خانے کے دروازے بھی پولس والوں نے بوٹوں سے توڑ دیئے۔ یہاں اب بھی دیواروں پر خون کی چھینٹیں موجود ہیں جو پولس کے ظلم وستم کی داستان زبان حال سے بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس بیچ لائٹ آف کردی گئی اور لڑکیوں کا الزام ہے کہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر پولس والوں نے انھیں ہراساں کیا۔ جامعہ سے کم از کم پچاس طلبہ کو پولس پکڑ کر تھانے لے گئی۔ ان میں سے بعض کی حالت بہت زیادہ خراب تھی مگر انھیں اسپتال لے جانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ انھیں تب چھوڑا گیا جب جامعہ، جے این یواور ڈی یو کے طلبہ اور شہریوں نے پولس ہیڈ کوارٹر کے سامنے دھرنا دیا اور انھیں ملک وبیرون ملک سے حمایت ملنے لگی۔
’میں تو مسلمان بھی نہیں‘
دلی میں ہنگامہ تب شروع ہوا تھا جب شام کو، دہلی کے جامعہ نگر سے متصل سرائے جولینا کے قریب تین ڈی ٹی سی بسوں کو آگ لگا دی گئی مگر اس واقعے میں جامعہ کے کسی طالب علم کے شامل ہونے کا کوئی ثبوت اب تک سامنے نہیں آیاہے۔اس واقعے کے بعد پولیس، یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور طلبہ پر حملہ کیا۔ جھارکھنڈ کے رانچی سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ میڈیا کے سامنے آئی اور اس نے روتے ہوئے بتایا کہ جب یہ سب شروع ہوا تو ہم لائبریری میں تھے۔ ہمیں سپروائزر کا فون آیا کہ کچھ گڑبڑ ہوگیا ہے۔ میں وہاں سے جانے ہی والی تھا جب طلباء کا ایک گروپ جلدی بازی میں اندرآگیا اور 30 منٹ میں لائبریری بھر گئی۔ میں نے کچھ لڑکوں کے سروں سے خون نکلتے دیکھا۔ کچھ پولیس والے اندر آئے اور زور زورسے گالی گلوچ کرنے لگے۔ انھوں نے سب کو باہر جانے کو کہا۔ میں اپنے ہاسٹل کی طرف جانے لگی۔ میں نے دیکھا کہ لڑکے سڑک پر گرے پڑے ہیں۔ وہ بے ہوش تھے۔ طالبہ نے مزید کہا، جب ہم جارہے تھے تو ہمارے ہاتھ اوپر تھے۔ آخر کار میں ہاسٹل پہنچ گئی۔ کچھ دیر بعد کچھ لڑکے دوڑتے ہوئے، ہمارے ہاسٹل آئے اور کہا کہ خواتین پولیس اہلکار یہاں لڑکیوں کو پیٹنے آرہی ہیں۔ میں ان سے بچنے کے لئے کہیں اور چلا گئی۔ کچھ دیر بعد میں ہاسٹل واپس آگئی۔ میں نے دیکھا کہ لڑکوں کے کپڑے خون سے سنے ہیں۔ اس طالبہ نے روتے ہوئے کہا، ہم سوچتے تھے کہ طلباء کے لئے دہلی سب سے محفوظ ہے اور یہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے۔ میں سوچتی تھی کہ ہمارے لئے یونیورسٹی سب سے محفوظ ہے، ہمارے ساتھ کبھی بھی کچھ نہیں ہوگامگر ہم ساری رات روتے رہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اب میں پورے ملک میں کہیں بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہی ہوں۔ میں مسلمان بھی نہیں ہوں، پھر بھی میں پہلے دن سے ہی کھڑی ہوں، میں کیوں لڑ رہی ہوں؟ اگر ہم حق کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں تو ہماری اسٹڈی کا کیا فائدہ ہے؟
جب ایک لڑکی نے انسٹاگرام پر مدد طلب کی
طلباء کا الزام ہے کہ پولیس زبردستی یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور آنسو گیس کے گولے داغے۔ جامعہ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی صفت نے 15 دسمبر کی شام انسٹاگرام پر ویڈیو پوسٹ کرکے مدد طلب کی۔ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو میں صفت نے کہا تھا کہ ہماری مدد کریں۔ ہمیں خطرہ ہے۔ یہ لوگ (پولیس والے) ریڈنگ ہال میں داخل ہوئے ہیں اور شیشے توڑ دیے ہیں اور آنسو گیس چھوڑ رہے ہیں۔ ہم لائٹس بند کرکے یہاں چھپے ہوئے ہیں۔ صفت نے بتایا کہ ان سب کا احتجاج بالکل پرامن تھا۔تشدد پولیس نے کیا۔ اس نے کہا کہ لڑکوں کو نیچے بٹھاکران کو ڈنڈے مارے گئے۔صفت کا کہنا ہے کہ اب یونیورسٹی کیمپس میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کر رہی ہوں۔ بہت سے جامعہ کے طلباء کی طرح، وہ بھی گھر واپس جانے پر مجبور ہیں۔
منہاج نے آنکھ گنوائی
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشدد کے دوران زخمی ایک طالب علم منہاج الدین کی ایک آنکھ چلی گئی ہے جب کہ دوسری آنکھ انفیکشن کا شکار ہے۔ پولس نے اس کی پٹائی کرتے ہوئے اس کی آنکھ کو نشانہ بنایا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ جامعہ کا طالب علم ہے اور جس روز تشدد برپا ہوا، وہ بھی جامعہ میں موجود تھا۔ ریاستی کانگریس کے صدر سبھاش چوپڑا اور سابق وزیر اروندر سنگھ لولی طالب علم کی حالت جاننے اور اس کی خیریت معلوم کرنے کے لئے اس کے گھر پہنچے تودلی وقف بورڈ کے چیئرمین اور اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اعلان کیا کہ وہ منہاج الدین کو وقف بورڈ میں ملازمت دینگے۔
حوصلہ اب بھی قائم ہے
شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر صرف دلی میں ہی ظلم نہیں ہوا۔ اترپردیش، کرناٹک اور آسام جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں،وہاں کئی لوگوں کی جانیں گئیں۔ پولس نے ایک طرف تولوگوں کی پٹائی کی، ان پر مقدمے قائم کئے اور انھیں جیلوں میں بند کیا مگر اس کے باوجود ان کے حوصلے قائم ہیں۔کلکتہ کی سڑکوں سے لے کر دلی کے جنتر منتر تک لگاتار مظاہرے ہورہے ہیں۔ اترپردیش اور بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں پولس مظالم کے باوجود احتجاجیوں پر کنٹرول مشکل ہورہا ہے۔ اب اس قدر مخالفتوں کے باوجود بھی اگر مرکزی سرکار شہریت قانون نافذ کرتی ہے اور این آرسی لانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا۔ حالانکہ جی چاہتا ہے کہ نئے سال میں کچھ مثبت امیدیں باندھیں مگر۔۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
31دسمبر2019
جواب دیں