اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ مصر کے حالات اور زیادہ دھماکہ خیز ہوسکتے ہیں۔کیوں کہ اخوان المسلمین سے منسلک افراد کی تعداد مصر میں کم نہیں ہے ، جس طرح محمد مرسی کو فتح حاصل ہوئی تھی اور ان کی معزولی کے بعدمصر میں احتجاج کئے گئے تھے ، ان سے صاف طورپر معلوم ہوتا تھا کہ اخوان کے نظریہ سے ہم آہنگ لوگوں کی تعداد اخوان مخالفین کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اخوان کے لوگوں کو چن چن کر پھانسی کے پھندوں پر لٹکایاجائے گا تو وہ اپنے وجود کی بقا کے لئے میدان میں آنے کے لئے مجبور ہوں گے اور پھر حکومت اور اخوانیوں کے درمیان زبردست تصادم برپاہوسکتا ہے ۔
اس فیصلہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مصر کی موجودہ حکومت اور مصر کی انتظامیہ وعدلیہ کے پیچھے مصردشمن طاقتیں ہیں ۔کیوں کہ اتنے بڑے خون خرابہ کی پلاننگ مصر کے باشندے کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ المیہ ہے کہ مصر کے بہت سے لوگ اپنے ملک میں بین الاقوامی سازشوں کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ مصر دشمن بیرونی طاقتیں اگر چہ کئی دہائیوں سے مصر میں سرگرم ہیں اور حسنی مبارک کی پشت پر ان کا ہاتھ ہے لیکن جس دن محمد مرسی کی حکومت بنی تھی ، اس کے بعد تو وہ اور زیادہ سرگرم ہوگئیں اور انہوں نے مصرمیں لمبے خون خرابے کی پلاننگ کرڈالی۔اس کے گواہ وہ حالات ہیں جو گذشتہ ایک دوسال کے درمیان پیش آئے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیرونی طاقتیں اور مصر کے اندر موجود مغرب کے دلدادہ عناصر شروع ہی سے مصرمیں اخوان المسلمین کا تعاقب کرتے رہے ہیں اور ظلم وجبر کی تمام حدوں کو انہوں نے پارکرلیا ہے گزشتہ دنوں جس بے دردی کے ساتھ مصری افواج نے ماردھاڑ کی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فوج نے انسانیت کے تقاضاؤں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور وہ اپنے تمام مخالفین کی آواز کو بزورطاقت دبانے پر اترآئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مصری فوجی نے مظاہرین پر سیدھے گولیاں برسائیں ۔فوج کے یہ حملے صرف میدانوں ، گلی کوچوں اور سڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے والے لوگوں پر ہی نہیں ہوئے بلکہ مسجدوں میں موجود لوگوں پر بھی ہوئے ۔آخر صدائے احتجاج کو دبانے کا یہ کونسا طریقہ ہے؟ اگر عوام مصرمیں جمہوریت کی بحالی کے لئے آواز بلند کررہے ہیں تو کون سااتنا بڑا گناہ کررہے ہیں کہ اس کی پاداش میں انہیں بے دردی سے قتل کردیا جائے۔
اگر مصر کے موجودہ بحران پر غائرانہ نگاہ دوڑا ئی جائے تو فوجی مداخلت کا اہم سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں بعض ایسی طاقتیں سرگرم ہیں جو اخوان المسلمین کو نہ تو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہیں اور نہ ہی مصر میں۔ اخوان المسلمین کو پنپنے نہ دینے اور سزائے موت سنانے کا یہ واقعہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومتی سطح پر اخوان المسلمین کے پروں کو جبراًکترنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسی کوشش کے تحت اخوان المسلمین کے متعدد اہم رہنما ؤں کو تختۂ دار پر لٹکایاجاچکا ہے۔مگر اس کے باوجود اخوان المسلمین نہ صرف زندہ رہی بلکہ بتدریج اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہی اور جس لمحہ حسنی مبارک کا زوال شروع ہوا ،اسی لمحہ اخوان المسلمین کے عروج کا آغاز ہوگیا۔
مصری فوج اور بیرونی طاقتیں مصر میں اخوان المسلمین کو اس لئے برداشت نہیں کررہی ہیں کہ اخوان المسلمین مغرب کی اس سوچ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیک سکتی جس کے سبب اسلامی تہذیب وثقافت خطرے میں پڑرہی ہے۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب غالب رہے اور عریانیت وفحاشیت کا دور دورہ رہے۔ مصر میں حسنی مبارک بھی آزا دفکر کے حامل تھے ،اس لئے وہ اخوان المسلمین کو پسند نہ کرتے تھے ۔ ان کی آزادانہ فکر کے سبب مصرکی معاشرتی وتہذیبی حالت میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ لیکن اخوان المسلمین کے بڑھتے اثرورسوخ کے سبب آزاد فکر کے علمبرداروں کو اپنی تہذیبی ومعاشرتی آزادی خطرے میں پڑتی دکھائی دی ۔
چونکہ مصر کے موجودہ حالات کے پیچھے فکری اسباب ہیں ، اس لئے مستقبل قریب میں موجودہ بحران کی شدت کے خاتمہ کے آثار نظرنہیں آتے۔عالمی برادری بھی اگرچہ اخوان المسلمین کی سوچ سے ہم آہنگ نہیں ہے ،تاہم اسے انسانیت کے ناطے اپنا رول اداکرتے ہوئے مصر کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہونا چاہئے اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ بیرونی طاقتوں کو مصر میں مداخلت سے روکے اور مصری فوج کو خبردار کرے۔اس وقت مصر کے عوام اور حکام کو بھی بہت زیادہ سنجیدگی اختیارکرنے کی ضرورت ہے ،کہیں ایسانہ ہوکہ ان کے الٹے سیدھے اقدامات کی وجہ سے مصرایسے بحران میں پھنس جائے کہ دیر تک اس سے خلاصی نہ مل سکے ۔مصر کے عوام اور حکام کو اس پہلوپر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ مصر کے بگڑتے حالات کی آڑمیں غیرملکی قوتیں کس طرح وہاں سازشیں پھیلارہی ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر مصر کے حالات بگاڑنے میں بیرونی طاقتوں کو اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ دراصل معاملہ یہ ہے کہ مغربی طاقتیں اور اس مقام پر نشانہ لگارہی ہیں جن کا تعلق اسلام سے ہے۔ مثلاً سعودی عرب کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کا شاندار مرکز ہے بلکہ اسلام میں اس کا خاص مقام ہے۔سرزمین حجاز کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بڑی فضیلتیں ہیں کیوں کہ وہاں خانہ کعبہ موجود ہے ۔ جس کی اہمیت وعظمت بہت سی قرآنی آیات اور احادیث سے واضح ہوتی ہے۔ آج وہاں اگرچہ براہ راست امریکہ ، برطانیہ یا کسی دوسرے مغربی ملک وقوم کی حکومت نہیں ہے مگر بالواسطہ اس مقدس زمین کے حکمرانوں پر ان کا کنٹرول ہے۔کون نہیں جانتا کہ سعودی حکام وہی کرتے ہیں جو امریکہ چاہتا ہے۔اگر امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ فلسطین کے حق میں آواز بلند نہ کریں تو سعودی حکام نہ فلسطین کے مظلومین کے لئے آواز بلند کرتی ہے اور نہ کرنے دیتی ہے۔
شام اور فلسطین کو بھی اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے ۔ شام کو اسلام کا مرکز سیاست بتایاگیاہے۔ فتنوں کے وقت شام کو محفوظ جگہ قرار دیا گیا ہے ، جب دجال کا فتنہ دنیا بھر میں زور ماررہا ہوگا تو بیت المقدس اور اس کے مضافات کے علاقے اس سے محفوظ ہوں گے اور اسلام کی آخر جنگ انہی علاقوں میں ہوگی جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی۔ گویا کہ یہ مقامات اسلام کا مرکزسیاست ہے ،جس طرح خانہ سرزمین حجاز اسلام کا مرکزعباد ت ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ عنقریب تم پر شام فتح ہوجائے گاتو تم اس شہر کو اختیار کرلینا جس کانام دمشق ہے، جو شام کے بہترین شہروں میں سے ہے اور وہ ٹھکانا ہوگا مسلمانوں کے لئے جنگوں سے اور اس زمین میں مسلمانوں کی پناہ گاہ وہ جگہ ہوگی جسے غوطہ کہاجاتاہے اور دجال سے بچاؤ کی جگہ بیت المقدس ہوگی‘‘۔اس لئے اسلام دشمن طاقتیں فلسطین اور شام میں گہری سازشیں کرکے اسے کمزور رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اسلام کا یہ شاندار کمزور رہے ۔
جہاں تک مصرکا معاملہ ہے تو مصر کوطورسینا کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے اور اسے اسلام کے دفاع کے لئے منتخب کیا گیا ہے ،بالفاظ دیگر یہ کہاجاسکتا ہے کہ مصرکو اسلام کی چھاؤنی کی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ مغربی قومیں اسلا کے دفاعی مقام کو بھی کمزور بناناچاہتی ہیں تاکہ یہاں سے اسلام کا دفاع نہ ہوسکے۔ یہ نہایت تشویشناک بات ہے کہ اسلام دشمن جماعتیں اور قومیں اسلام کے مقامات کی اہمیت سے واقف ہوکر انہیں تباہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور مسلمان اور ان کی حکومتیں ان مقامات سے ناواقف ہو کر ان کو برباد کرنے میں ان کاساتھ دے رہی ہیں ۔مسلمانوں کی اس حالت پر بس یہی کہاجاسکتا ہے کہ
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
فلسطین ، شام اور کوکمزور کرنے کے پیچھے مغربی طاقتوں کا جہاںیہ مقصدنظرآتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو بھاری نقصان پہنچانا چاہتی ہیں، وہیں وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ اسلام کاوہ مقام جو سیاسی وحربی اعتبار سے مرکزیت رکھتاہے اورمسلمانوں کے لئے فتح اورحربی کامیابی میں معاون ثابت ہوسکتاہے ،وہ مسلمانوں کے لئے غیر منافع بخش بنارہے اور اس کے ذریعہ انہیں اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کاموقع نہ ملے ، اسی طرح سے مصر کے حالات کو بگاڑکر وہ اسلام کے دفاعی مقام کوبھی کمزوررکھنا چاہتی ہیں تاکہ مسلمانانِ عالم اسے اپنے دفاع کے لئے استعمال نہ کرسکیں۔یہ تمام عالم کے مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جن مقامات کو اللہ نے ان کیلئے اپنی قوت کوبڑھانے ،فتحیاب ہونے اور اسلام کے دفاع کے لئے بنایاتھاوہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھارہے ہیں بلکہ صورت حال تو یہ ہے کہ وہ خود اس کو کمزور کرنے کابھی سبب بن رہے ہیں۔
جواب دیں