سابق جج کاٹجو اور گائے؟

شری راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ نے یہ کہتے وقت کہ وہ گائے کے قتل پر اتفاق رائے کی کوشش کریں گے معلوم نہیں کیا سوچا ہے؟ اتفاق رائے کا مطلب اگر سب کا متفق ہونا ہے تو ان میں سے چند مسلمانوں کو چھوڑکر باقی سب اتفاق نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کیرالہ، تری پورہ، ناگالینڈ، میزورم جیسی ریاستوں کے لوگ بھی ان سے اتفاق نہیں کریں گے۔ مہاراشٹر میں اگر ایمانداری سے سروے کرایا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں گائے کا گوشت مسلمان کتنے تھے جو کھاتے تھے اور غیرمسلموں میں کون کون اور کتنے لوگ کھاتے تھے؟ اس کے متعلق معتبر بیان ان کا ہوگا جو گوشت فروخت کرتے تھے۔

احمقانہ بیان اور بے سرپیر کی دلیلیں تو جانے کتنی دی جاچکی ہیں اور دی جاتی رہیں گی لیکن سنجیدگی سے یہ کوئی کیوں نہیں بتاتا کہ گائے جانور ہے کہ نہیں اور اس میں اور دوسرے جانوروں میں اس کے علاوہ کیا فرق ہے کہ اسے زیادہ تر ہندو پالتے ہیں؟ لیکن ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ پالنے والے کی ساری محبت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ دودھ دیتی رہتی ہے پھر جس دن دودھ دینا بند کردیتی ہے اور اس کی امید بھی ختم ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے پیٹ سے ایک اور گائے کو جنم دے گی تو اسے مارکر نکال دیا جاتا ہے۔ پھر وہ جو کھاتی ہے وہ ہم بھی دیکھتے ہیں اور ہمارے ہندو دوست بھی دیکھتے ہیں۔
ہماری پرورش ایک قصبہ میں ہوئی جہاں گھر گھر مسلمان بھینس پالتے تھے اور ہندو گائے ہمارا نانہال اور ہماری والدہ کا نانہال بہت بڑے اور خوشحال گاؤں میں تھے۔ ان دونوں مواضعات میں اتفاق سے ہندوؤں کے مکانات نہیں تھے۔ لیکن ہم نے وہاں بھینسیں بھی دیکھیں اور گائے بھی اور ان کا طریقہ بھی یہی دیکھا کہ یادودھ دینا بند کیا یا دودھ میں کمی ہوگئی تو انہیں مویشی بازار لے جاکر فروخت کردیا۔ اور دوسری لے آئے۔
گائے کے لئے جان لینے اور اس کی حفاظت کے لئے قانون بنانے والوں میں ہمیں ایک بھی ہندو دوست ایسا نہیں ملا جس کے گھر گائے پلی ہو اور وہ اس کا دودھ خود اور بچوں کو نہ پلاتا ہو یا فروخت نہ کرتا ہو؟ کیا یہ بھی گائے سے محبت ہے کہ ملک میں لاکھوں ہندو صرف اس لئے گائے پالتے ہیں کہ وہ اس کے دودھ کی تجارت کرتے ہیں؟ اگر اس کے دودھ کی تجارت غلط نہیں ہے تو جب وہ ناکارہ یا بوڑھی ہوجائے تو اس کے گوشت اور اس کی کھال کی تجارت کیوں جرم ہوگئی؟
مسٹر کاٹجو کہتے ہیں کہ میں کھاتا ہوں لیکن اپنے بیوی بچوں کے جذبات کی وجہ سے ہر دن نہیں کھاتا۔ اُن کے کہنے کے مطابق دنیا میںیادہ تر لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ آج کا حال تو نہیں معلوم لیکن کئی برس پہلے ہم جھارکھنڈ گئے تھے وہاں ایک دیہات میں ایک ضرورت سے جانا ہوا اور ہر دن ہمیں گائے کے گوشت اور مرغ کے گوشت کھانے کے لئے دیا گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ روس کی شرکت میں جب فولاد کا ایک بہت بڑا کارخانہ قائم ہوا تھا اس وقت ان کے لئے گائے کے گوشت کی اجازت دی گئی تھی اس وقت سے اب تک ہمارے علاقہ کے ہر گاؤں میں گائے کا گوشت مل جاتا ہے۔
پورے ملک کی پولیس وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ماتحت ہے۔ وہ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اس کے بعد ہم کیسے مان لیں کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ اترپردیش میں روزانہ ہزاروں گائیں ذبح ہوتی ہیں اور ان کا گوشت اور کھال کا کاروبار ہوتا ہے اور یہ سب پولیس کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ ایک مسلم اکثریتی قصبہ میں ہم گئے ہوئے تھے چند دن کے بعد عیدقرباں تھی ہم نے دو دوستوں کو بلوایا تو معلوم ہوا کہ کوتوالی میں امن کمیٹی کی میٹنگ ہے اس میں گئے ہوئے ہیں آپ کا پیغام پہونچا دیا ہے۔ دو گھنٹہ کے بعد وہ آگئے تو یوں ہی ہم نے معلوم کیا کہ امن کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ انہوں نے بتایا کہ ہر سال عید سے چند دن پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں کو بلاکر یہ ڈرامہ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ بھینس اور بکروں کی قربانی کریں گائے کی نہیں اور ہر مسلمان جھوٹا وعدہ کرلیتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آر ایس ایس کے دو چار لڑکے گرماگرم تقریر کررہے تھے کہ ایک ہفتہ سے مسلمان گائیں خرید کر لارہے ہیں اور تھانوں کے سامنے سے گذار کر لے جاتے ہیں لیکن پولیس تماشہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ وہ جب زیادہ جذبات میں آئے تو کوتوال نے ڈانٹ کر چپ کرا دیا اور معلوم کیا کہ میں کسی مسلمان کو گائے خریدنے کے الزام میں کس قانون کے تحت بند کرادوں؟ انہوں نے کہا کہ عید کے بعد خریدیں۔ اس نے پھر ڈانٹ دیا کہ میں کیا تمہیں کچھ خریدنے سے روک سکتا ہوں کہ آج نہیں ایک ہفتہ کے بعد خریدنا؟ پھر اس نے دھمکی دی کہ اب اگر ٹیں ٹیں کی تو افواہیں پھیلانے کے جرم میں تم دونوں کو بند کردوں گا۔ پھر اس کے بعد دھوم سے مسلمانوں نے گائے کی قربانی کی اور ہر پولیس والے کو اس کا حصہ دے دیا گیا۔
جو لوگ اسے ہندوؤں کی ماتا کے رشتہ سے جوڑ رہے ہیں ان سے ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ عیدقرباں سے پہلے دودھ سے بھاگی ہوئی گایوں کو جو فروخت کرتے ہیں کیا وہ ہندو نہیں ہیں؟ جو پولیس والے انہیں ذبح ہونے دیتے ہیں اور اپنا پورا حق لے لیتے ہیں کیا وہ ہندو نہیں ہیں؟ جو کٹی ہوئی گایوں کی کھالیں خریدکر کاروبار کرتے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں؟ پھر راج ناتھ سنگھ اتفاق رائے کس سے کریں گے؟ بات اگر جانور کی ہے تو خنزیر کیا جانور نہیں ہے؟ کلام پاک میں صرف ایک جانور کا نام لے کر اسے حرام قرار دیا گیا ہے اور وہ خنزیر ہے۔ اس کے علاوہ مردہ جانور یا وہ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کئے گئے ہوں جنہیں بَلی کہا جاتا ہے۔ ہندو کو اسی لئے سؤور سے محبت ہے وہ پالتا بھی ہے اور اس کا گوشت کھاتا بھی ہے کہ مسلمان کو اس سے نفرت ہے۔ رہی بات اتفاق رائے کی تو وزیر داخلہ اس کی کوشش نہ کریں اس لئے کہ بکرے کا اور بھینس کا گوشت جتنا مہنگا ہوگا اتنی ہی گائیں کٹیں گی اور جتنی کٹیں گی پولیس کو اتنی ہی رقم ملے گی اور پولیس رقم کے لئے اگر وہ موٹی ہو تو ہر سڑک پر گائے کٹوا سکتی ہے۔ اس لئے کہ انگریز اسے اختیار دے گئے ہیں اور ہندوستان کی غلام حکومتوں نے اس سے اختیارات واپس اس لئے نہیں لئے کہ جس کے قبضہ میں پولیس ہو وہ راجہ مہاراجہ ہوتا ہے۔

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے