صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

حادثہ کے تین برس کے بعد 19ملزموں نے خود سپردگی کی جبکہ ملزم عام شہری، غنڈے یا بد معاش نہیں بلکہ سب کے سب سرکارکی ذلیل ترین، انتہائی متعصب ، اور مسلم دشمن ایجنسی بدنام پی اے سی کے سپاہی اور کمانڈر تھے۔ اور سب کے سب 41ویں بٹالین کے تھے۔ 
اب معاملہ کو اس پہلو سے دیکھئے کہ وزیر اعظم 1986 میں بابری مسجد کا وہ سرکاری تالا کھلواتے ہیں جسے ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ اندر سے مہاسبھائی اوپر سے کانگریسی پنڈت پنت نے راتوں رات مورتیاں رکھوا کر ڈلوایا تھا۔ اس کے کھلوانے کا مشورہ دینے والا وہ ارن نہرو تھا جو اسوقت راجیو گاندھی پر چھایا ہوا تھا۔ اس تالے کے کھلنے اور مسجد کے اندر اذان اور نماز کے بجائے پوجا پاٹ کی عام اجازت دینے کے خلاف پورے ملک کے مسلمان تڑپ اٹھے تھے اورجگہ جگہ احتجاج ہو رہا تھا اس لئے کہ ہر ہندو لیڈر نے یقین دلایا تھا کہ مسلمان برابر کے شہری ہیں اور دستور میں لکھا تھا کہ جو عبادت گاہ آزادی کے وقت جس کی اور جس کے قبضہ میں تھی وہ اسی طرح رہے گی ۔ اسی فریب کا نتیجہ تھا کہ مسلمان اپنا حق مانگنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ارن نہرو کا بنایا ہوا اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ ارن نہرو کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑ ااور میرٹھ کے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں بیٹھ کر اپنے وزیر داخلہ دکچھت کے ساتھ ڈی ایم اور ایس پی کو للکار رہا تھا کہ میرٹھ کے مسلمانوں کو سبق سکھادو۔
ہاشم پورہ اور ملیانہ میں جو کچھ ہوا وہ سب ویر بہادر نہیں بزدل نے کرایا جسے راجیو گاندھی کے اس وقت کے گارجین ارن نہرو کی حمایت حاصل تھی۔ یہ بیان کسی مسلمان یا میرٹھ کے شہری کا نہیں ہے بلکہ پولیس کا ہے کہ 600مسلمانوں میں سے 50کڑیل جوانوں کو پی اے سی ٹرک میں بھر کر لے گئی اور ندی کے کنارے کھڑا کر کے ان پر چاندماری کر دی۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ جوانوں کو لانے والے 41ویں بٹالین کے تھے۔ اس کے بعد 3برس تک ان کا گرفتار نہ ہونا اور کسی طرح کی ان کو سزا نہ دینا پھر جب انہوں نے خود سپردگی کر دی تو چنددن کے بعد سب کو ضمانت پر چھوڑ دینا۔ اتر پردیش کی حکومت کا اپنی طرف سے وکیل نہ دینا۔ اور جب پورا ملک نہیں پوری دنیاچیخ رہی تھی اس وقت میرٹھ سے صرف 150کلومیٹر دور دہلی میں وزیر اعظم کی کرسی پر راجیو گاندھی کا بیٹھے رہنا اور جب پی اے سی کی گولیوں سے بچ جانے والے ایک معمولی زخمی مسلمان کو محسنہ قدوائی میرٹھ کی ممبر پارلیمنٹ کے ساتھ لے جا کر راجیو گاندجی سے ملانا اور رو رو کر ساری کہانی سنانا۔ اس کے بعد بھی راجیو کا خود میرٹھ نہ آنا بلکہ سیاست کے بد ترین اور بد نام چہرے بوٹا سنگھ کو میرٹھ بھیجنا ہی ثابت کر چکا تھا کہ 28نہیں 128برس گزر جانے کے بعد بھی مسلمان کو انصاف نہیں ملے گا۔
میرٹھ کے معاملہ پر قانونی لڑائی لڑتے لڑتے مولانا یامین صاحب اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ ہم نے 1990سے2000تک پورے دس برس روز نامہ اندنوں میں سیکڑوں بار دل کے پھپھولے پھوڑے ایک مرد مومن کانپور کے اقبال صاحب برسوں صرف میرٹھ کے مسلمانوں کو انصاف دلاتے دلاتے اللہ جانے کہاں چلے گئے ۔ ملک کی وہ عدلیہ جسے مسلمان ہر مہینے یا ہر ہفتے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اس نے بھی وہی کردار ادا کیا جو ویر بہادر راجیو گاندھی اور دوسرے لیڈر کرتے رہے۔ نہ جانے کتنی بار عدالتوں کی طرف سے کہا گیا کہ اب ہر دن پیشی ہو گی اور جلد سے جلد مقدمہ کا فیصلہ کر دیا جائیگا۔ لیکن وہی عدالتیں جو ایک ایسے سپاہی کے کہنے پر جس کی بوٹی ، بوٹی حرام کے پیسوں سے بنی ہے مسلمان کو بند کرکے دس پندرہ اور اٹھارہ برس تک اس کی ضمانت منظور نہیں کری تو انہی عدالتوں نے 15کروڑ مسلمانوں کے رونے اور فریاد کرنے کے باوجود 3سال کے بعد خود سپردگی کرنے والے ان درندہ صفت قاتلوں کو ضمانت دید ی۔ اگر وہ سب 25برس جیل میں ہی رہتے اور اس کے بعد انہیں بری کر دیا جاتا تو کسی مسلمان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
میرٹھ کے 2 4 شہید مسلمان جو ان قابل ر شک صحت کے مالک تھے میرٹھ کی 42جوان بلکہ 1987میں راجیو گاندھی کی ہی ہم عمر لڑکیاں پندرہ منٹ کے اندر بیوہ ہو گئیں اور ان کے معصوم بچوں کے سر سے اٹھ کر ویر بہادر کے اشارہ پر اور راجیو کی خاموش حمایت کی بدولت باپوں کے دست شفقت منوں مٹی کے اندر سلا دئے گئے ہیں۔ یہ بات 2007کی ہے کہ وہ مسٹر باجپئی جو آجتک چینل میں نیوز اڈیٹر ہیں وہ میرٹھ گئے تھے اور انہوں نے ان شہید جوانوں کے ہر گھر کی حالت دکھلائی تھی کہ گھر کے اکیلے کمانے والوں کے گھر والوں پر اب کیا گذر رہی ہے ؟ ان میں ایک گھر آج بھی آنکھوں میں گھوم رہا ہے جہاں ایک بہت معمولی کپڑوں میں ایک بیوہ خاتون تھیں اور اس کی ایک 20سالہ بیٹی جو اسی دن پیدا ہوئی تھی جس دن اس گھر کا کمانے والا 41وین بٹالین کے کسی نطفۂ حرام کی گولی سے شہید ہو گیا تھا۔ مسٹر باجپئی اس سے گفتگو کر کے اپنے ناظرین کو بتا رہے تھے کہ یہ معصوم لڑکی یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ وہ باپ کی برسی منائے یا اپنی سالگرہ؟
ہمارا اور ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ پاک پروردگار کسی بے گناہ کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیتا ۔ اور یہ تو حدیث ہے کہ بہت سے خستہ حال اور پریشان حال اللہ کے بندے ایسے ہیں جو اللہ کی قسم کھا کے کچھ مانگیں تو ان کی فریاد آسمان والا ضرور سنتا ہے ۔ کوئی ویر بہادر کے بیٹے فتح بہادر کو بتا دے کہ تمہارے باپ جیسی موت مرے کہ انکے ہزاروں کروڑروپئے کا تم سب کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کہاں تھے؟ اور کوئی راہل گاندھی کو بتا دے کہ تمہارے پتا راجیو صاحب کی جو ایسی درد ناک موت ہوئی کہ صرف ایک جوتا گوا ہ تھا کہ میں راجیو کا جوتا ہوں، یہ میرٹھ کی مظلوم بیواؤں او ر انکے یتیم بچوں کی فریاد کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ جس نے مسز سونیا کو دکھا دیا اور آپ دونوں بھائی بہنوں کو بتا دیا کہ بیوگی اور یتیمی کیا ہوتی ہے؟ 
خبر ہے کہ بعض درد مند مسلمان اور ملّی خادم سوچ رہے ہیں کہ مقدمہ کو اوپر کی عدالتوں میں لے جائیں۔ ہم جو اپنے قلم کی حد تک 25برس سے اپنے بھائیوں کے قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب کسے آزمانا ہے۔؟ اتر پردیش کی 5 مختلف حکومتوں کا برتاؤ دیکھ لیا راجیو گاندھی ، پھر دوزخی نرسمہاراؤ جس کے جسم کی ہڈیا ں سنا ہے کتے لے گئے تھے وہ پھر اٹل بہاری باجپئی اور دس سال سے پردہ کے پیچھے بیوی سونیا اور غازی آباد سے لیکر دہلی کی عدالتوں کے جج ہم نے سب کو دیکھ لیا کہ وہ سبرا منیم سوامی اور پروین توگڑیا وغیرہ وغیرہ جیسے ہی ہیں ۔ ان میں سے ہر کوئی ہند و کے قاتل ہندو کو تو سز ا دے سکتا ہے مسلمانوں کے قاتل ہندوؤں کو گالی بھی نہیں دے سکتا۔ ممبئی میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل بھاگل پور ، جمشید پورکلکتہ راوڑ کیلا، مراد آباد غرض کہ ملک کے کسی بھی شہر کے کسی بھی ہندو کو آج تک کیا مسلمان کے قتل کے الزام میں سزا ملی ہے۔؟ اگر ملی ہوتو آگے جائیے نہیں تو صرف پروردگار کی عدالت سے انصاف مانگئے 28برس میں تین تو مر گئے۔اب جو 16باقی رہ گئے ہیں سپریم کورٹ جانے تک وہ بھی نار جہنم بننے کے لئے چلے جائینگے پھر کس کو پھانسی دلائے گا اور یوں بھی ہندوستان میں ہندو کو پھانسی نہیں ہوتی۔

«
»

sfdsdfsd

توہینِ رسالت کا معاملہ..مغرب کا دہرارویہ اوراسلامی دنیا کی بے حسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے