’سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا‘

عبدالعزیز 

    علامہ محمد اقبالؒ دنیا کے مسلمانوں میں سے ایک ایسی غیر معمولی اور نابغہ روزگار شخصیت کا نام ہے جنھوں نے قرآن و احادیث میں ڈوب کر حالات حاضرہ کے پیش نظر مسلمانوں کو تعلیم و ہدایت دی ہے۔ ان کے اشعار میں ایک ایک شعر ایک ایک کتاب کے برابر ہے۔ ان کے جس مصرعہ پر اس وقت کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں اس کا دوسرا مصرعہ بھی ملاحظہ فرمائیے  ؎  ’لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا‘۔
    یعنی اگر مسلمان اپنا بھولا ہوا سبق صداقت، عدالت اور شجاعت کا دوبارہ پڑھ لیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو ان کی امامت و قیادت کا دور پھر واپس آسکتا ہے۔ اگر آپ ان میں سے ایک چیز کا الگ الگ معنی و مطلب تلاش کریں تو صاف پتہ چلے گا کہ یہ علامہ اقبالؒ کا بتایا ہوا کوئی سبق نہیں ہے بلکہ اللہ کی کتاب اور رسول اکرمؐ کی احادیث کا سبق ہے، جسے بدقسمتی سے مسلمان نیا نیا سبق پڑھ کر غیر اسلامی زندگی کا طالب ہوگیا ہے اور صرف طالب ہی نہیں ہوا بلکہ عمل پیرا ہوگیا ہے اور نقالی کرنے میں بعض مقامات پر اور بعض ملکوں میں آگے ہوگیا ہے۔ بہت سے لوگ مغرب کی نقالی کی ہدایت اور تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ ببانگ دہل بتاتے ہیں کہ ان کی پیروی کئے بغیر زندگی کا سفر جاری رکھنا بھی مشکل ہوگا۔ پیروی کئے بغیر ہم دوسروں سے کوسوں دور ہوجائیں گے۔ جہاں تک مغرب کے سائنس و ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی بات ہے تو اسلام نہ صرف دوسروں کی حکمت اور دانائی سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے مومن کی گمشدہ متاع کہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے کہ جہاں ملے اسے تم لے لو مگر تم اپنی شناخت اور انفرادیت کو ہر حال میں باقی رکھو۔ اگر ایسا نہ کروگے تو پھر تمہاری شناخت ختم ہوجائے گی اور زندگی بھی بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ مومن کا وجود جسمانی اور معنوی دونوں لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔ محض جسمانی وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ 
    صداقت: حق و صداقت باطل کی ضد ہے۔ صداقت سچائی، راست بازی اور خلوص کا دوسرا نام ہے۔ سچائی جھوٹ کی ضد ہے۔ اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ پر قائم رہتا ہے تو اس کا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا۔ اسی لئے حدیثوں میں آیا ہے کہ مومن میں کچھ خامیاں اورکچھ کوتاہیاں ہوسکتی ہیں مگر وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا ہے۔ جھوٹ انسان کے کردار کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔ وہ جھوٹ کی وجہ سے کسی کام کا نہیں رہتا۔ جھوٹ منافقت کی علامتوں میں سے سب سے بڑی علامت ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے کہ سو بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ وہ ایمان و اخلاق کی دشمن ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جسے حق و صداقت کا سبق پڑھنا ہے اسے سب سے پہلے جھوٹ کو اپنی زندگی سے الگ کر دینا ہوگا۔ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا نہ جائز ہے نہ اس کی اجازت ہے۔ سچا انسان تمام بھلائیوں کی تصدیق کرتا ہے۔ صدق با لحسنیٰ (قرآن) جس نے بھلائی کو سچ مانا یعنی تسلیم کیا، اس کو اپنایا وََاَمَّامَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی (قرآن) جس نے راہ خدا میں اپنا مال دیا یا خرچ کیااللہ کی نافرمانی سے بچا اس سے اللہ کا وعدہ ہے فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی (قرآن) یعنی ہم اس کو آسان راستے کیلئے سہولت دیں گے۔ اس کیلئے ہر مشکل کو آسان کر دیں گے۔ سچائی مشکلات میں آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ جسے اللہ کی مدد چاہئے اور اپنی ہر مشکل کو آسان کرنا ہے تو ہر بھلائی کو گلے لگا لے اور ہر برائی سے توبہ و استغفار کرکے اسے ہمیشہ کیلئے چھوڑ دے۔ 
    عدالت: عدل کے معنی انصاف، راستی، گواہی کے ہیں۔ عدل سے ہی عدالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے: 
    ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے گواہ بنو، اگر چہ تمہارے انصاف اور گواہی کی زد خود تمہاری ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے“ (سورہ نساء، آیت 135)۔
    قرآن مجید میں صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ عدل و انصاف کی روش پر چلو بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ عدل و انصاف کے علمبردار بنو، تم مسلمانوں کا کام صرف انصاف یا عدل کرنا نہیں ہے بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمربستہ ہونا چاہئے کہ ظلم مٹے، اس کی جگہ عدل و راستی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کیلئے جس سہارے کی ضرورت ہے مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم بنو۔ 
    تمہاری گواہی محض خدا کیلئے ہونی چاہئے کسی کی رو رعایت اس میں نہ ہو، کوئی ذاتی مفاد یا خدا کے سوا کسی کی خوشنودی تمہارے پیش نظر نہ ہو۔ سورہ النحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ(اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے)۔
    ”عدل کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو۔ دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ”انصاف“ سے ادا کیا جاتا ہے مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہو۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لئے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ در اصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بیشک افراد معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے، مثلاً حقوقِ شہریت میں۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے، مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات اور اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کئے جائیں“۔     (تفہیم القرآن) 
    عدل مومن یا مومن معاشرہ کا لازمی جز ہے۔ مومن اہل عدل ہوتا ہے اور اس کا معاشرہ مبنی بر عدل و انصاف ہوتا ہے، لہٰذا مومن کا کام ہے کہ وہ خود عدل کے راستے پر گامزن ہو دوسروں کو اس کی تلقین کرے اور اپنے خاندان و معاشرہ کو عدل پر قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ 
    شُجاعت: شجاعت بزدلی کی ضد ہے۔ جو لوگ بزدل ہوتے ہیں ان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ وہ بار بار مرتے ہیں۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بہادر ایک بار مرتا ہے، بزدل بار بار مرتا ہے۔ انگریزوں نے جب ٹیپو سلطان سے عین جنگ کے موقع پر کہا تھا کہ اب تمہاری شکست یقینی ہے اور تمہیں موت سے اب کوئی نہیں بچاسکتا، لہٰذا اپنا ہتھیار ڈال دو تو ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ وہ ہتھیار ہر گز نہیں ڈالیں گے اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ آخری وقت تک لڑیں گے۔ شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے۔ 
    علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو جو صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھنے کیلئے کہا ہے۔ غور کیجئے کہ مسلمان اگر اسے ٹھنڈے دل سے پڑھ لیں اور اسی پر عامل ہوجائیں تو پھر کیا ان کی دنیا بدل نہیں سکتی؟ آج جو اپنی حفاظت اور اپنے لئے عدل کی ضرورت محسوس کرتے ہیں وہ انھیں اپنے سے کہیں زیادہ دوسروں کی حفاظت اور دوسروں کیلئے عدل کی ضرورت محسوس ہونے لگے گی۔ اللہ کا وعدہ ہے جو اللہ کا ہوجاتا ہے اس کے احکام و فرمان پر چلتا ہے۔ اللہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو کسی کی حفاظت کرسکتا ہے۔ اللہ جس طرح خیر الرازقین ہے اسی طرح خیر الحافظین (سب سے بہتر حفاظت کرنے والا) ہے۔

 

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے