سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے

ہاں! یقیناً فیض و جالب ابھی زندہ ہیں اور سیاہ قانون کے خلاف ہماری تحریک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

تحریر: وزیر احمد مصباحی 

 

        جی ہاں! آپ سے یہ کس نے کہ دیا کہ شاعری انقلاب برپا نہیں کرتی، وہ اجڑے دیار میں بہار نہیں لا سکتی؟ اور __آپ تو یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ شعری خیالات محض محبوبہ و معشوقہ ہی کی سرو قد جسامت، ہرنیوں جیسی آنکھیں، کالی گھٹاؤں جیسی سیاہ زلفوں کے ارد گرد گھومتی اور انھیں سب فضولیات کے دامن میں بڑھتی و جوان ہوتی رہتی ہے. نہیں!۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہے میرے بھائیوں! یہ ساری باتیں صرف بناوٹی ہے، حقیقت سے اس کا دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے. بلکہ اعلی و ارفع شاعری تو بلند خیالی کی متقاضی ہوا کرتی ہے، ایک جہاں دیدہ نگاہ اور سنجیدہ مزاج طبیعت ہی کی دوش پر انقلاب جنم لیتا ہے. عقابی نگاہ جیسے خوبصورت وصف سے ایک انقلابی شاعری کو متصف ہونا بہت ضروری ہوتا ہے. جی ہاں! یہ کوئی ہوائی فائرنگ نہیں ہے، ورنہ تو آج ہر ایرے غیروں کے اشعار بھی انقلابی کہے جانے کی مستحق ہوتیں. بلند خیالی، زمانے کی ہم آہنگی، حالات کے نشیب و فراز میں بھی الفاظ کے زیر و بم میں غضب کی قوت و تاثیر، لفظوں کی درست نشست و برخاست اور ان سب چیزوں سے بڑھ کر اس میں حاکم وقت کو سامنے رکھ کر کہیں سے بھی خوف و ہراس و اختصاص و چاپلوسی کے عناصر داخل نہ ہونے دینے اور دیوار زنداں و ظلم و ستم کے کوہ گراں کی فکر و پرواہ کیے بغیر حالات کی خاطر خواہ عکاسی کرنا ہی انقلاب کی گہری علامت ہوا کرتی ہے. اور پھر وقت آنے پر اسی نوعیت کے نظم زبان زد خاص و عام ہو جایا کرتے ہیں. پڑھے لکھے لوگ اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور شوق و ذوق سے پڑھتے ہیں. ساتھ ہی مظلوموں کی ہمت و حوصلہ بندھانے میں بھی اس طرح کی نظمیں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
        کچھ اسی نوعیت کے ایک دو نظم فی الوقت حالیہ پاس شدہ سیاہ قانون: این آر سی، سی اے اے، سی اے بی اور این پی آر کے خلاف مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا بڑی شد و مد کے ساتھ خوبصورت لے میں بطورِ احتجاج  گنگنا رہے ہیں. اس میں مشہور انقلابی شاعر فیض احمد فیض (1911_1984)کی انتہائی مقبول ترین نظم "لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے" اور حبیب جالب(1928_1993) کی نظم "ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا" بڑی زور و شور کے ساتھ زبان زد عام و خاص ہیں. بہترین سوز دل کے ساتھ لوگ اس جابرانہ حکومت کے برخلاف بڑھتے ظلم کے تحت گنگنا رہے ہیں. در اصل اگر آپ ان دونوں متذکرہ بالا نظموں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کے وجود میں آنے کا پس منظر بھی معاشرتی انصافیوں کے سر اوپر بڑھتے ظلم و ستم کا طاغوتی پنجہ ہے. حبیب جالب نے اپنی نظم " ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا" اس وقت تحریر کیا تھا جب پاکستان میں ایوب خان نے اپنے دور حکومت میں ایک نیا آئین بنا کر پاکستان کو دو صوبوں (مغربی پاکستان و مشرقی پاکستان) تقسیم کر دیا تھا. جس مشاعرہ میں حبیب جالب نے یہ کلام پہلی مرتبہ پڑھا تھا، اس کی صدارت مغربی پاکستان اسمبلی کے سپیکر کر رہے تھے. سپیکر کی موجودگی میں جب یہ نظم پڑھی گئی تو وہ حکومت وقت کے خوف سے لرزہ براندام ہو گیے اور حبیب جالب کو یہ انقلابی نظم پڑھنے سے منع کر دیا۔ مگر حبیب جالب نے ایسے وقت میں بھی بغیر کسی خوف کے پوری نظم پڑھ کر سامعین کے دلوں کو جیت لیا. اب کیا تھا؛ اس کے بعد سے ہی اس نظم کو ظلم و ستم کے وقت گنگنائے جانے کے حوالے سے نشان امتیاز حاصل ہو گیا.
       اسی طرح فیض کی نظم "لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے" بھی فیض احمد فیض نے اس وقت لکھی جب 1977 میں جنرل ضیاء  الحق نے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت سے بے دخل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور خود 1978 میں ملک کے صدر اعظم بن بیٹھے۔ مگر۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ جب سماج و معاشرے میں ظلم و ستم سر چڑھ کر بولنے لگ جاتے ہیں، ملک، حکومت کی نااہلی کی بنیاد پر دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر طرف معاش و معیشت سست پڑ جانے لگتی ہے تو یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے نازک وقت میں سنجیدہ طبیعتیں اور انقلابی ہستیاں خاموش نہیں بیٹھتی ہیں، بلکہ وہ ایسی حکومتی منشور کے خلاف اس کی نااہلیوں کے سارے تانے بانے عوامی عدالت میں کھول دیتے ہیں تا کہ ساری حقیقتیں دو دو چار کی طرح واشگاف ہو جائیں. ہاں! اس جہت میں شاعرانہ طبیعتیں تو کمال کا انقلاب پیدا کرتی ہیں. آپ جنرل ضیاء  الحق اور ایوب خان کے زمانے ہی کو دیکھ لیں کہ کیسے دو انقلابی ذات یعنی فیض احمد فیض اور حبیب جالب نے اپنے بلند پایہ بامعنی اشعار سے حکومتی کارندوں کے یہاں تخت و تاج چھن جانے کے حوالے سے دہشت پیدا کر دیا. کتابوں میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ حبیب جالب کو کئی ایک دفع حکومت کے خلاف شاعری کرنے پر جیل خانے کی ہوا بھی کھانی پڑی،۔۔۔مگر آپ تو وہ انقلابی دستور رکھتے تھے کہ جس نے کبھی بھی آپ کے پائے ثبات میں توقف کی کوئی بیڑیاں تک نہیں لگنے دی.
        آج جب کہ وطن عزیز میں حکومتی ایجنڈے ہر محاذ پر ناکام ہو چکے ہیں، بی جے پی حکومت اپنے وعدوں پہ وعدے کرنے کی بہترین چال کے سہارے تمام باشندوں کو تھپکیاں دینے کا کام کر رہی ہے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے و ایک سو تیس کروڑ باشندگان وطن کی توجہ مبذول کرانے کے لیے پے در پے سیاہ قانون لا رہے ہیں۔۔۔ پڑھے لکھے افراد اگر آواز اٹھانے کے لیے فیض و جالب کی یہی انقلابی نظم گنگنا رہے ہیں تو ان سنگھیوں کو پیٹ میں بھیانک درد ہونا شروع ہو گیا ہے. اس وقت ملک کی عوام احتجاج کے ہر وہ طریقے اپنا رہے ہیں، جو حکومت کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو جائے اور وہ مذہب و ذات پات کے نام پر باٹنے والا سیاہ قانون واپس لے لے. در اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت برابر نصف ماہ سے ان مظاہروں کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ احتجاجات و مظاہرے ہندو بنام مسلم ہو جائے اور ہماری سیاسی روٹی تیار ہو جائے. آج فیض کی انقلابی نظم کے یہ چند اشعار " جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے، ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے، سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے" کو ہندو مخالف گردان رہے ہیں. ابھی کچھ دنوں قبل ہندوستان کا ایک باوقار تعلیمی ادارہ "آئی آئی ٹی _کانپور" کے چند طلبا نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف فیض کی یہی مذکورہ نظم پڑھی تھی۔۔۔مگر اسے سن کر اسی ادارہ کے ایک پروفیسر نے یہ کہ کر ان پر شکایت درج کر دی کہ یہ ہندو مخالف نظم ہے. اور پھر دیکھتے ہی ذمہ داران ادارہ نے بھی اس کے پیمائش کے لیے ایک تفتیشی کمیٹی کی تشکیل کر ڈالی کہ آیا یہ نظم ہندو مخالف ہے یا نہیں؟ جب کہ یہ بات بخوبی روشن ہے کہ شاعرانہ تخیلات کے نشیب و فراز اور اس میں پنہاں حقیقی معانی و مطالب بہتر طور پر ایک وہی شخص بتا سکتا ہے جو اس فن میں تجربہ کار ہو. شاید یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز ہی کے ایک معروف شاعر منور رانا نے کہا کہ:" ہم آئی آئی ٹی کو شاعری کا فیصلہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے"۔ اسی طرح شہرت یافتہ ہندوستانی تاریخ داں جناب عرفان حبیب نے بھی اس پورے معاملے کو مضحکہ خیز بتاتے ہوئے کہا کہ:" فیض کی نظم میں " انا الحق " مطلب تو" میں خدا ہوں " ہے تو اس سے تو پاکستان کے مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہوا۔لیکن آپ کو اعتراض اس بات پہ ہوا کہ کعبہ سے بت اٹھائے گیے، کیا کعبہ میں جو بت تھے وہ ہندو تھے؟ اس جملے سے ہندوازم کا کیا مطلب ہے؟ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں،سیاست ہر چیز کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ رہی ہے "۔
       میرے بھائیوں! اس پورے معاملات کے تناظر میں ایک درد ناک سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر ایک پروفیسر کی ڈگری رکھنے والا شخص اس طرح کی بیتکی باتیں کر کے خود اپنے اوپر دوسروں کو ہنسنے کا موقع کیوں کر فراہم کر سکتا ہے؟ اس ضمن میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معترضین محض شعر کی ظاہری شکل و صورت یعنی اس کی تشبیہات و استعارات اور اشارات و کنایات پر واقفیت حاصل کیے بغیر سوال قائم کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اشعار پہ تو کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ خود الٹا اس شخص ہی کی اچھی خاصی کھینچائی ہو جاتی ہے… اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہی قوی وجہ یہاں بھی تو نہیں؟ اب جب کہ بی جے پی حکومت کو اپنے اوپر گرہن لگتا ہوا دکھ رہا ہے اور سروں پر بجلیوں کے کڑکنے کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی ہے تو وہ اپنی جان کی امان پانے کے لیے اندھ بھکتوں کے سہارے فیض جیسی بلند ذات پر کیچڑ اچھلوا کر مذہبی منافرت کا گھناؤنا کھیل کھیلنا چاہتی ہے،حالانکہ فیض ایک سیکولر مزاج طبیعت کے مالک تھے اور انھوں نے جنرل ضیاء  الحق کے مذہب کو سامنے رکھ کر اشعار قلمبند کیے تھے کہ تم اللہ کریم سے ڈر کھاؤ! آخر اس قدر ظلم و ستم خلق خدا پر کیوں ڈھا رہے ہو؟ سچ پوچھیں تو اس وقت فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے گراں قدر اشعار نے اہل حکم کو جس جر?ت و ہمت کے ساتھ للکارا ہے وہ اس بات کی روشن نشانی ہے کہ اگر خلوص دل کے ساتھ سماجی و معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف قلم کو حرکت دیا جائے تو اس سے نکلنے والی روشنائی اپنے اندر برسوں تک انقلاب لانے کی طاقت رکھتی ہے. کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ اس وقت فیض و جالب بھی اس سیاہ قانون کے خلاف ہمارے ساتھ ساتھ ہیں، اپنے اشعار کے ذریعے ہماری ہمت و حوصلہ بندھانے کا کام کر رہے ہیں، وہ بھی روحانی طور پر ہماری اس تحریک کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور بہت جلد ہی وہ ایک زبردست انقلاب لا کر حسین سحر سے ہماری ملاقات کروانے والے ہیں؟۔۔۔اگرچہ یہ اندھ بھکت آر ایس ایس کی چڈی پہن کر آسمان ہی سر پر کیوں نہ اٹھا لیں؟ میرا ایقان یہ کہتا ہے کہ ضرور فیض و جالب اپنے شعری تخیلات اور انقلابی نظم کے سانچے میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے. بس ہمیں اور آپ کو سمجھنے اور انھیں پڑھنے کی ضرورت ہے. اگر ہم ان جیسی عظیم ہستیوں کو نہیں پڑھیں گے تو شاید نقصان ہمارا ہی ہوگا. اس موقع پر میں حیدر رضا مصباحی کا یہ پیراگراف ضرور ذکر کرنا چاہوں گا، جس میں انھوں نے آر ایس ایسی و اندھ بھکتی نظریات کے حوالے سے بڑی اچھی بات کہی اور زبردست بیانیہ پیش کیا ہے. آپ لکھتے ہیں:" بات یہ ہے کہ جو سماج" رنکیا کے پاپا " والے منوج تیواری اور" دلوں کے شوٹر ہے میرا سکوٹر " والی ڈھنچک پوجا جیسے لوگوں تک کو اسٹار (Star) بنا دیتا ہو، اس سے فیض و جالب جیسے عظیم شاعر کے کلام سمجھنے کی امید پالنا، اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے"۔
 (مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 
 06جنوری2020

 

«
»

شاہین باغ مظاہرہ : پُر دم اگر تو،تو نہیں خطرہ افتاد

آر ایس ایس غلام نہیں بنا سکتی، اگر تحریک کا مقصد آئین کا تحفظ ہو..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے