قسیم اظہر
لازم ہے کہ کبھی کبھار ادب اور فلسفوں سے منہ پھیر کر اس جمہوری نظام کے آنکھوں میں بھی آنکھ ڈال لی جائے، جہاں سے زعفرانی مینڈکوں کے میر کارواں نے انسان دوستی کے صاف پانیوں میں نفرت کا زہر گھولنا شروع کیا تھا۔ اور یہ وہی وقت تھا کہ آخری مئی کے دو روز پہلے کی سخت دھوپ میں زمین تیزاب سے نہا گئی تھی اور زمین کی کالی کھیتی پر جب ملگجی شام کے ابر آلود بادلوں نے پھول برسائے تو برقی بجلیوں کے فانوس ایک دم سے چمک اٹھے اور اسی وقت میں نے اسے دیکھا کہ وہ اسٹیج پر کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرچہ ہے۔ وہ ایک آواز نکالتا اور پھر جھولنے لگ جاتا۔
اس کی آواز صاف نہیں تھی۔ اس میں کچھ عجیب سی گھگھیاہٹ تھی۔ بہت زیادہ عجیب، جتنی کووں کی کائیں کائیں میں بھی نہیں ہوتی۔ اور قریب تھا کہ اس آواز کی وجہ سے اس کے حلق کے تینوں شہ رگ پھٹ کر باہر کو آ جاتے۔ مگر افسوس ایسا ہوا نہیں۔ وہ ایک بوڑھا تھا جو اسٹیج پر جھول جھول کر حلف نامہ پڑھتا جا رہا تھا۔ تبھی ایک مردار گدھ آ کر اس کے کندھے پر گر گیا۔ بوڑھا مسکرایا۔
26 /مئی/ 2014 سے لے کر 26 /مئی/ 2021 تک یعنی دو ہزار پانچ سو پچپن دنوں میں، اس بوڑھے نے کیا کیا گل کھلائے۔ سفر کتنے کیے اور پیسے کتنے اڑائے۔ معاشی ترقی میں اضافہ ہوا یا معیشت بھی اسی مردار گدھ کے تالو سے چپک کر رہ گئی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا مختصر خاکہ آپ کے سامنے رکھا جائے۔ اور آپ ہی فیصلہ کریں کہ یہ اقتدار میں اب تک کیوں ہے۔
( 1 ) ۔ چھ سو بیاسی سفر۔ دو سو بیاسی بیرون ملک۔ چارسو ستر اندرون ملک اور اسی میں دو سو دو انتخابی ریلیاں
یعنی ہر تین دن اور سات گھنٹے کے بعد بوڑھا وزیر سیر سپاٹا کرتا رہا۔ بیرون ملک دوستی کا جھوٹا راگ الاپا اور اندرون ملک جملے بازی کرنے سے عاجز نہیں آیا۔ ان انتخابی ریلیوں میں بھی سات ہزار چھ سو اٹھاون کروڑ روپے صرف اشتہار بازی میں خرچ کر دیے گئے۔ یعنی ہر روز تین کروڑ روپے ملک کا وزیر اعظم اپنی شناخت بنانے میں خرچ کرتا رہا۔
( 2 ) ۔ اس درمیان سولہ ہزار تین سو گیارہ کروڑ روپے بینکوں سے قرض لیے گئے۔ یعنی ان سات سالوں میں ہر روز آٹھ سو اکہتر کروڑ روپے رئیس قرض لیتے رہے اور ملک کا وزیر تین سو بارہ کروڑ روپے ہر روز معاف کرتا رہا۔ یہ تو صرف سرکاری بینکوں کا حساب ہے اگر چاروں بینکوں کو ملا کر جوڑنا شروع کیجیے تو اٹھارہ لاکھ چونتیس ہزار چھ سو نوے کروڑ روپے قرض لیے گئے اور آٹھ لاکھ اٹھہتر ہزار کروڑ روپے معاف کر دیے گئے۔
صحافی پرشون واجپئی کے مطابق جب بینکوں کا پی ایم او سامنے نکل کر آیا تو نتیجہ کافی چونکانے والا تھا کہ ٪ 9.5 قرض کی ادائیگی پوری نہیں ہو پائی تھی۔ دیگر ممالک کی فہرست میں بھارت کو دیکھ کر اگر آپ کو خوف محسوس نہیں ہوتا تو شاید آپ اندھے ہوچکے ہیں۔
0.9 ٪۔ امریکہ
1.1 ٪۔ بریٹین
1.2 ٪۔ جرمنی
3.7 ٪۔ ساؤتھ افریقہ
1.8 ٪۔ چین
9.5 ٪۔ انڈیا
مندرجہ بالا میں پانچ لاکھ چوالیس ہزار سات سو بتیس کروڑ۔ یعنی ہر روز دو سو تیرہ کروڑ بیس لاکھ روپے ریزرو بینک آف انڈیا سے خود اس بوڑھے وزیر نے لیا۔
( 3 ) ۔ انیس کمپنیاں فروخت۔ تیس عوامی سیکٹر کمپنیاں نیلام۔ جس سے تین لاکھ انیس ہزار نو سو سترہ کروڑ۔ یعنی ہر روز ڈیڑھ سو کروڑ روپے ہندوستانی خزانے میں جمع ہوئے۔
( 4 ) ۔ آٹھ لاکھ ستاسی ہزار تین سو پینتیس نوکریاں۔ ( مرکزی حکومت) اڑتیس لاکھ اٹھانوے ہزار چار سو نوکریاں۔ (ریاستی حکومت) یعنی کل میزان صرف پینتالیس لاکھ پچاسی ہزار سات سو پینتیس نوکریاں۔
صرف جنوری، فروری، مارچ اور اپریل میں ایک کروڑ انیس لاکھ نوکریاں ختم ہوئیں۔ 2020 اور 2021 میں صرف شہری علاقوں میں اٹھانوے لاکھ اور دیہی علاقوں میں ساٹھ لاکھ نوکریوں کا بحران وجود میں آیا۔ یعنی دو کروڑ انہتر لاکھ نوکریاں یا تو جبرا ختم کردی گئیں یا وبا کی زد میں آ کر ختم ہو گئیں۔
( 5 ) ۔ انڈیا اسپینڈ کے مطابق جنوری 2017 سے جولائی 2018 تک ہجومی تشدد میں چھیانوے مسلمانوں کی موت۔ نوٹ بندی میں صرف پہلے بتیس دنوں میں لائن میں دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے ایک سو چار لوگوں کی موت، سڑک پر چلتے ہوئے مزدوروں میں نو سو اکہتر کی موت، وبا کی زد میں آ کر ستاون ان سرکاری کارکنان کی موت جنہیں گھر میں رہ کر کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، صرف دو مہینے میں چار سو ڈاکٹروں کی موت اور نیویارک ٹائمز کے مطابق وبا کی زد میں آ کر سولہ لاکھ ہندوستانیوں کی موت کو تین لاکھ کے مستور پردے میں زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جاسکتا۔
’آپ کی حکومت کے ان سات سالوں میں ملک کے ساتھ کیا بھلا ہوا؟
’کیا کہا؟ کچھ بھی نہیں۔‘
بوڑھے نے کوے کی طرح کائیں کائیں کرنے کی کوشش کی۔ مردار گدھ کے پر اس کے ہاتھ میں آ کر پھڑ پھڑا نے لگے۔ گدھ کو زندہ ہوتے دیکھ کر بوڑھا پھر مسکرایا۔
’ہم نے اپنی عوام سے شمشان اور قبرستان کا وعدہ کیا تھا۔ اور قسم بھارت ماتا کی، ہم نے آپ کے لیے پورے ملک کو ہی شمشان اور قبرستان میں تبدیل کر دیا۔‘
اسٹیج کا چکا چوند نظارہ ایک بار پھر نظروں کے سامنے تھا۔ بوڑھے کے چہرے پر سفید داڑھی آ گئی تھی۔ اسے زیادہ غور سے دیکھنا بھی منع تھا۔ غور سے دیکھنے والوں میں کچھ کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی تھی اور کچھ کو تو آنکھ سے ہی محروم ہونا پڑا تھا۔ وہاں جتنے تھے غالباً سب اندھے ہوچکے تھے۔
اس کے سامنے گدھ کے علاوہ کچھ پریاں اور کچھ مینڈک تھے۔ پریاں مسکرا رہی تھیں۔ مینڈکوں کا اچھل کود بھی جاری تھا۔ اور بوڑھا شراب نوشی میں جام چھلکا رہا تھا۔
’سات برسوں میں پورے ملک کو قبرستان اور شمشان میں تبدیل کرنے کی خوشی میں ایک خوبصورت جشن کا انعقاد تو ہونا ہی چاہیے۔‘
لوگوں کو خوفزدہ کردینے والی سفید داڑھیوں سے غیر مطابقت آمیز اس کے کالے ہونٹوں پر، خوفزدہ مسکراہٹ کا رقص بھی بہت زیادہ عجیب کے ساتھ خوفناک ہی معلوم ہوتا تھا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں