روس کا نیا جنم ؟

روس کے اس نئے بدلتے ہوئے انداز کا اشارہ شام میں بھی ملا تھا۔ امریکہ شام پر حملہ کرنے کے لئے پر تول رہا تھا لیکن روس نے ایک لکیر کھینچ دی کہ وہ اس کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ امریکہ کا دعوی تھا کہ شام نے خانہ جنگی میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے لہذا انسانی بنیادوں پر دنیا کا فرض ہے کہ وہ شام کے یہ ہتھیار تباہ کرے ۔ روس کے کہنے پر شام نے خود ہی اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی پیشکش کر دی اور امریکہ کے پاس شام پر حملہ کرنے کا جواز باقی نہیں رہا لیکن دنیا جانتی ہے کہ اگر روس نے واضح طور پر شام میں امریکہ کی مزاحمت نہ کی ہوتی تو امریکہ کسی نہ کسی بہانے سے ویسے ہی شام پر حملہ کرتا جیسا اس نے عراق پر کیا تھا۔
روس نے کریمیا کو اپنے اندر مدغم کرنے کے لئے وہی منطق استعمال کی جو امریکہ مختلف ملکوں میں استعمال کرتا آیا ہے۔ امریکہ دوسرے ملکوں میں دراندازی تین اصولوں کی بنا پر کرتا رہا ہے۔ اول کسی علاقے میں دہشت گردوں کا قبضہ ہوچکا ہو۔ دوم انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے اور سوم اپنی سلامتی کی بقا کے لئے۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ وہ ملک دہشت گردی کے مراکز بن چکے ہیں۔ عراق پر مہلک ہتھیار رکھ کر دہشت گردی کا الزام تھا تو افغانستان پر القاعدہ کے عالمی دہشت گردوں کو پناہ دینے کا۔ امریکہ مختلف علاقوں میں ڈرون حملے بھی یہ کہہ کر کرتا ہے کہ اس کی سلامتی کو ان علاقوں سے خطرہ ہے۔
روس کے صدر ولادی میرپوٹن نے بھی یہی منطق دنیا کے سامنے رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرائن پر دائیں بازو کے دہشت گرد انتہا پسندوں نے کودتا کرکے قبضہ کر لیا ہے اور وہاں کے منتخب صدر کو معزول کردیا ہے لہذا یوکرائن میں ویسے ہی مداخلت کی جاسکتی ہے جس طرح عراق اور افغانستان میں کی گئی۔ پھر اس نے کریمیا کو یہ کہہ کر روس کا حصہ بنا لیا کہ وہاں کے عوام کی یہی خواہش تھی یعنی اس نے انسانی حقوق کی منطق استعمال کی۔ تاریخی طور پر کریمیا ہمیشہ روس کا حصہ رہا ہے اسے انیس سو چھپن میں خروشیف نے یوکرائن میں شامل کر دیا تھا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی دراندازیوں کے لئے قانونی جواز پیدا کر لیتی ہیں اور روس نے تقریبا وہی کیا جو امریکہ کرتا رہا ہے۔
روس کئی صدیوں سے دنیا کی بڑی طاقت رہا ہے اور اس کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ روس نے نپولین کو شکست فاش دے کر یورپ کو اس سے نجات دلائی تھی۔ نپولین کو شکست دینے کے ڈیڑھ سوسال بعد روسی فوجوں نے ہی ہٹلر کے تاریخ کے سب سے بڑے حملے کو پسپا کیا تھا۔ اگر روس ہٹلر کو شکست فاش نہ دیتا تو
دوسری جنگ عظیم کے نتائج کچھ مختلف ہوتے۔ روس کی فوجی طاقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا لیکن وہ معاشی طور پر امریکہ اور یورپ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ اس کی معاشی کمزوری ہی اس کے زوال کا سبب بنی۔
روس میں سوشلزم کا تجربہ بالکل نیا اور انوکھا تھا۔ روس نے اس نظام کے تحت شروع میں بہت ترقی کی۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب سرمایہ دارانہ نظام کے معیشت دان کہتے تھے کہ تیسری دنیا کے ممالک کو روس کا ماڈل اپنانا چاہئے۔ روس امریکہ کے ہم پلہ سپر پاور تھا لیکن اس نظام میں کچھ بنیادی سقم تھے جن کی بنا پر روس کا معاشی بحران بڑھتا گیا۔ اسی معاشی بحران کی وجہ سے یورپ کے مختلف علاقے اس کے کنٹرول سے نکلنا شروع ہو گئے۔ یہ روس کے زوال کا زمانہ تھا اور اسی دور میں روسی فوجوں کا افغانستان سے انخلا ہوا پھر ایک ایسی منزل آئی کہ صدر گورباچوف کے زمانے میں روس نے باقی سب علاقوں کو آزاد کر دیا۔ گورباچوف کے بعد صدر بورس یلسن کا زمانہ آیا۔ یلسن یحیی خان کی طرح شراب کا رسیا تھا۔ روسی طاقت میں صدر ولادی میر پوٹن کے زمانے سے بہتری آنی شروع ہوئی۔
آج بھی روس نہ صرف دنیا کی بڑی فوجی طاقت ہے بلکہ وہ معاشی طور پر بھی امیر ملک بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ روس تیل اور سونا پیدا کرنے میں دنیا کے چوٹی کے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ یورپ کا بہت ساعلاقہ اس کی فراہم کردہ گیس کا محتاج ہے۔ روس صنعتی ترقی میں امریکہ یا مغربی یورپ کا ہم پلہ بننے کی منازل طے کر رہا ہے۔ اس کی تاریخ اور اس کے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ جلد یا بدیر روس صنعتی پیداوار میں یورپ کا ہم پلہ ہو گا۔ ظاہر بات ہے کہ یہ روس ایک سرمایہ دار ملک ہو گا لیکن وہ دنیا میں امریکہ کے واحد سپرپاور ہونے کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اس لئے یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ اگلی دو تین دہائیوں میں روس دنیا کی وضع قطع کی تراش خراش میں ایک اہم طاقت ہو گا۔

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے