آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

نظام حکومت اور حکام کے کام کاج میں ابھی بھی بے پناہ بدعنوانی ہے۔ سال اوّل میں جہاں کمیشن میں صرف 7000 عرضیاں حاصل ہوئی وہیں آٹھویں سال میں اس کی تعداد بڑھ کر 40000 ہوگئی اور اس کی سماعت میں اوسطً ایک سال سے زائد کا وقت لگ رہا ہے جو کمیشن کی تشکیل کے مقصد پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اطلاعات فراہم نہ کرنے پرلوگ کمیشن میں عرضی داخل کرتے ہیں ۔جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایسا اس لیے نہیں کہ عوام میں بیداری پیدا ہو رہی ہے بلکہ کمیشن کی جانب سے متعلقہ بدعنوان افسران کے ساتھ نرم رویہ اپنایا جا رہاہے اور انہیں یہ قوی احساس ہے کہ اگر ہم حق اطلاعات کے تحت مطلوبہ معلومات نہ بھی فراہم کریں تو بھی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے ، ہمارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ کمیشن کی طرف سے ایک درخواست گزار کو دو سال کی جدوجہد کے بعد اطلاع دینے کا حکم جاری ہوگالیکن ان احکامات کا پابند نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔کمیشن مجرم حکام کا غیر مناسب دفاع کرکے جمہوریت کے اس اورزار کی دھارکو کند کرتا جا رہا ہے ۔ یہ صرف کمیشن میں کام کر رہے ریٹائرڈ افسران پر احسان کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ کچھ کمشنروں کی زیادہ فعال اور خوش فہمی میں مبتلا ہوکر فیصلہ دینے سے ہندوستانیوں کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ اگر کچھ معاملات کو چھوڑدیا جائے توزیادہ ترمعاملات میں کمیشن نے معلومات فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں لیکن بیشترمعاملے،قانون و انصاف کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے ۔ 
کمیشن قیام سے لے کر اب تک 1000 سے بھی کم معاملات میں جرمانہ لگایا ہے اور اس کا بھی تقریبا 40 فیصد حصہ وصولی ہونا باقی ہے۔ ملک کی نوکر شاہی ذمہ داری اور شفافیت سے کام نہیں کر رہی تھی اورجس اہم مقصد کو ذہن میں رکھ کر ایکٹ بنایا گیا وہ فوت ہوتا نظر آتا ہے ۔ کمیشن میں انہیں سبکدوش نوکرشاہوں کو مقرر کر دیا گیا ہے جو زمانے سے چلی آ رہی غیر ذمہ داری ، ہٹ دھرمی اور غیر شفاف نظام کا
حصہ رہے ہیں۔ ان سے کچھ بہتری کی امید کرنا دن میں خواب دیکھنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ سبکدوشی کے بعد دوبارہ مقرر یہ نوکر شاہ اپنی برادری کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کر سکے ہیں جن کا ثبوت اعداد و شمارہیں ۔ کمیشن میں اب تک تقریبا 20 کمشنر مقرر ہو چکے ہیں جس میں سے صرف ایک کا تعلق غیر نوکرشاہ سے رہاہے ۔ نمایاں حقیقت یہ ہے کہ مرکزی کمیشن کی طرف سے جرمانہ لگانے کے کل 1000 مقدمات میں سے آدھے سے زیادہ تو اکیلے اس غیر نوکر شاہ کمشنر کے ہیں یعنی باقی 19 کمشنروں نے مل کر اپنی مدت میں صرف 300 مقدمات میں جرمانہ لگایا ہے جو کہ فی کمشنر 15 معاملے آتے ہیں ۔ مذکورہ اعداد و شمار سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ کمیشن میں اوسطً ایک کمشنر نے ایک سال میں صرف تین معاملات میں جرمانہ لگایا ہے اوربدعنوان افسران کا دفاع کر کے جمہوریت کے اس موثر آلے کو بھی بے کار ثابت کر دیا ہے ۔
ایکٹ کی دفعہ ( 5 )19 اور ( 1 )20 کے تحت بروقت معلومات نہیں دینے کا جوازپیدا کرنے کی ذمہ داری انفارمیشن افسر پر ہے اورایسا نہ کرنے کی صورت میں انفارمیشن افسر پر قانون کے مطابق جرمانہ لگایا جانا چاہئے ۔ ایکٹ میں کمشنروں کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے ۔
سماجی نظام میں توازن بنائے رکھنے کے لئے قانون میں سزا کی تجویز رکھی گئی ہے لیکن اکثر کمیشن کے فیصلوں میں نہ ہی معلومات فراہم ی جاتی ہے اور نہ ہی جرمانہ لگایا جاتا ہے ۔جس سے حق اطلات افسر کو یہ پیغام جاتا ہے کہ کمیشن محض رسمی سرکاری ادارہ ہے۔ کمیشن کو کم از کم 10 فیصد معاملات میں جرمانہ لگانا چاہئے تھا۔ کمیشن نے کئی محکموں کے خلاف گرچہ معاملات حل کئے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک ان میں سے ایک بھی معاملے میں جرمانہ نہیں لگایا گیا ہے جوکمیشن کی غیر جانبداری پر بڑا سوالیہ نشان ہے ؟ کمیشن نے وزارت داخلہ اور محکمہ انصاف کے خلاف کئی ہزار معاملے حل کیے ہیں جہاں اطلاعات حاصل کرنے والے کو غیر مناسب طور پر معلومات کے لئے منع کیا گیا لیکن کمیشن نے ان محکموں کے افسران پر کسی معاملے میں مشکل سے ہی کوئی جرمانہ لگایا ہو ۔ کورٹ ، پولیس وغیرہ ایسے ہی دیگر مضبوط محکمہ ہیں جن پرخود کمیشن نے جرمانہ لگانے سے پرہیز کر کے غیر ذمہ دارای کا ثبوت دیا ہے اور اپنا اعتماد اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ایک معاملے میں تو کمیشن عدالت کی طرف سے سماعت میں وقت مانگنے پر عدالت کی بجائے خود اپنے خزانے سے معاوضہ دیا ہے ۔ کمیشن کی طرف سے جرمانہ لگائے جانے کے معاملات کاتجزیہ کرنے پراندازہ ہوتا ہے کہ صرف مقامی ادارے ، محکمۂ تعلیم ، بجلی ، پانی ، نقل و حمل ، تعمیر محکمہ جیسے کمزور پبلک اتھارٹی ہی جرمانہ ادا کرنے کے لئے مجبور کئے گئے ہیں ۔کمیشن کو یہ چاہئے کہ حق اطلاعات کے تحت ہر اس فیصلہ میں یا تو دفعہ ( 5 )19 اور ( 1 ) 20 کے تحت مجرم افسر کی طرف سے قائم جواز کو اپنے فیصلے میں ثابت سمجھے ورنہ مجرم افسر پر جرمانہ ضرور لگائے ۔
تاکہ ایکٹ کارگر ثابت ہو سکے اور یہ ایک کاغذی کارروائی نہ رہ جائے ۔
ریاستی کمیشن کی حالت بھی تقریباً ایسی ہی ہے ۔کیونکہ وہاں پر بھی کسی نہ کسی سبکدوش نوکر شاہ کوبٹھا دیا گیا ہے اور مجرم حکام کا بھرپور دفاع کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کا یہ جواز ہو سکتا ہے کہ سبکدوش لوگوں کو مقرر کرنے پر انہیں آدھی تنخواہ ( نصف حصہ تو وہ پنشن کے طور پر پہلے سے ہی حاصل کر رہے ہوتے ہیں ) دینا پڑتا ہے اس لئے یہ سستا ہے لیکن اس سستے پن کی عوام کو اصل میں کتنی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن پہلویہ ہے کہ کئی بار تو پولیس محکمہ کے افسران کو کمشنر مقرر کر دیا جاتا ہے جن کی پوری زندگی میں اصل حقوق کی تو کیا انسانی حقوق کے تحفظ کا کوئی ماحول نہیں رہا ہے اور انھیں یہ بخوبی علم ہے کہ عوام کو ان پر کتنا اعتماد ہے۔ملک کے عوام کو معلومات کی آزادی کے لئے ابھی میلوں کا سفر اور کافی جدوجہد کرنا باقی ہے کیونکہ ایکٹ ابھی تک تو ایک کوری رسم ہے اورعوام کوبہلانے کا ایک ذریعہ ہی ثابت ہو رہاہے۔مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو پالیسی بنانی چاہئے کہ کسی بھی کمیشن یا بورڈ میں 20 فیصد سے زیادہ سبکدوش نوکرشاہ مقرر نہیں کی جائیں ۔ تبھی ملک کی عوام اپنے حقوق کو حاصل کر سکتی ہے، حقیقی جمہوریت کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ جمہوریت میں نوکر شاہوں کی تقرری صرف مشاورت کے لئے ہی مناسب ہے ۔ حکومت میں بھی کسی بھی سطح کے سیکرٹری کو ایک منظم فیصلہ لینے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ وزیر کے صرف مشیر ہیں۔ اسی اصول کا یہاں بھی عمل کیا جانا چاہئے کیونکہ جنہوں نے اپنی پوری نوکری میں صرف مشورہ دیا ہواور فیصلہ کرنے میں ناتجربہ کار ہوں انہیں فیصلہ کرنے کاحق آخر کیونکر دیا جائے ؟

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے