ادیب اور شاعر جیسے علّامہ اقبال، محمد علی جوہر، ربیندرناتھ ٹیگو اور قاضی نظرالاسلام مضامین، نظموں، تقاریروں کی معرفت لوگوں میں سیاسی شعور پیدا کر رہے تھے۔ سروجنی نائڈو، بیگم رقیہ بھارتیہ خواتین کے حقوق نسواں کی حامی تھیں اور قومی سیاست سے جڑی رہیں۔بھارت کے پسماندہ طبقہ کی ترجمانی بابا صاحب بھیم راؤ امبیدکر نے کی۔
’سیوم سیوک سنگھ‘ نے’گُر منتر‘بہت وِدوانوں سے لیا تو ضرورلیکن ان کا ’ایک سوتری کاریہ کرم‘ مسلم دشمنی، اور شدھی کرن ہی رہا۔ان کی آزادی کی جد جہد یہی تھی اسی لیے شاید ان کے یہاں کوئی بھی ’مجاہد آزادی‘ نہیں ہے۔ایک صاحب اپنے طالب علمی کے زمانے میں پکڑے بھی گئے لیکن معافی مانگ کر چھوٹ لیے تھے اس طرح سے وہ ’اندھوں میں کانے راجہ‘ بنتے بنتے رہ گئے ۔۹۲؍سال پہلے ایک خبر شائع ہوئی تھی جسے آپ بھی پڑھیں۔
’پرتاپ‘ ۲۵؍مارچ ۱۹۲۳ء ’میں ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کے حق میں ہوں، سوائے چند لاکھ خالص مسلمانوں کے باقی تمام شدھ کیے جا سکتے ہیں‘
شنکر آچاریہ کے جانشین سوامی بھاسکر تیرتھ جی کی رائے
’’میں ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کے پورے طور پر حق میں ہوں، جتنے ہندو مسلمان ہو گئے ہیں وہ سب پھر سے ہندو بنا لیے جائیں، سچا ہندو مسلم اتحاد اسی میں ہے۔ میرا یقین واثق ہے کہ سات کروڑ مسلمانوں میں کچھ لاکھ مسلمان ہی ایسے ہیں جن کے بزرگ افغانستان یا بلوچستان سے آئے تھے باقی جملہ مسلمان ہندوؤں سے بنائے ہوئے ہیں۔ میں سوامی شردھا نند جی کو اس عظیم الشان کام کے لیے بدھائی دیتا ہوں‘‘۔
گھر واپسی کا الاپ کوئی نیا نہیں ہے۔ان مٹھی بھر فرقہ پرستوں کی پیدائش ہی مسلم دشمنی اور ملک میں انتشار پیدا کرنے کے لیے ہوئی ہے ، اُدھر ہندو مسلم ،ملک کی آزادی کی جنگ شانہ بشانہ لڑ رہے تھے اور فرقہ پرست لوگ فرقہ پرستی کی آگ جلائے انتظار میں بیٹھے تھے کہ آزادی حاصل ہو تو ہم کچھ گُل کھلائیں۔اُس وقت ان کے پاس نہ لاٹھی تھی،نہ تلوار تھی اور نہ ترشول تھا وہ اس لیے کہ انگریزوں کے ڈنڈوں سے ڈر لگتا تھا یہ توجانبازوں کی ضد تھی کہ آزادی لے کے رہیں گے اور اسی جذبہ کے تحت عدم تشدد کی پابندی کرتے ہوئے پولیس کی لاٹھیا ں اور جیل کی روٹیاں کھا رہے تھے۔اب جب آزادی حاصل ہوئے ساٹھ سال ہو گئے ہیں، ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر دنیا کے ممالک میں اپنا ایک مقام بنا چکا ہے لیکن فرقہ پرست لوگ اسے پیچھے ڈھکیلنے میں لگے ہوئے ہیں۔اب جب امن کی بنسی بجنی چاہئے تب ان کی لاٹھیاں نہ صرف بڑی ہو گئی ہیں بلکہ تلوار اور ترشول کا اضافہ بھی ہو گیا ہے اور کئی ’سینائیں‘ ،’سنگھ‘ و’ دَل‘ بن گئے ہیں۔
جنگِ آزادی سے بھگے ہوئے لوگ، اب بہادر بن گئے ہیں اُن کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ان کی جگہ پرمندرجہ ذیل مسلم خواتین نے جنگ آزادی میں اپنے شوہروں کا قدم قدم پر ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ آزادی کی جنگ بذات خود شامل رہیں۔ذیل میں کچھ مسلم خواتین کے کارہاے نمایا دیے جا رہے ہیں انھیں پڑھیں اور ’چُلُّو بھر پانی‘ تلاش کر لیں۔
بیگم حضرت محل:
بیگم حضرت محل اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ کی بیگم تھیں۔انگریزوں نے جب نواب کو جلا وطن کر کے کلکتہ بھیجا تو بیگم حضرت محل نے صوبہ کی کمان پہلی جنگ آزادی کے فوجیوں کے تعاون سے خود سنبھال لی۔اور انھوں نے سر ہینری لارنس کا کا محاصرہ ریزیڈنسی میں کیا اور اسے قتل کر دیا۔اس طرح لکھنؤ میں بیگم کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس کے بعد جنرل ہیولاک انگریزی فوج کی مدد کے لیے آیالیکن وہ بھی اپنے مشن میں ناکام رہا۔کچھ وقفہ کے بعد سر کیمپ بل آیا اور خونی جنگ کے بعد لکھنؤ پھر انگریزوں کے قبضہ میں پہنچ گیا۔اس سے پہلے کہ بیگم گرفتار ہوتیں اپنے وفاداروں کے ساتھ ضلع بہرائچ کے بونڈی کے راجا کے یہاں کچھ دن قیام کر کے نیپال کی طرف چلی گئیں اور اپنی آخری سانس تک وہیں رہیں۔اس طرح سے نیپال ہمارا محسن ہے۔
بی امّاں(عابدی بیگم):
یہ محترمہ ،شوکت علی اور محمد علی جنھوں نے آزادی کی جد جہد میں اہم کردار ادا کیا تھاکی ماں تھیں۔دسمبر ۱۹۲۱ء کو دونوں بھائی کو انگریز سپاہیوں کے ذریعہ گرفتار کیے جانے کی خبر ان کو ملی تو وہ قطعاً پریشان نہیں ہوئیں ، صبر اور استقلال ان کا برقرار رہا۔اور جب یہ افواہ پھیلی کہ دونوں بھائی عام معافی کے تحت جیل سے چھوڑ دیے جائیں گے تو انھوں نے بڑے اعتمادکے ساتھ کہا ’’وہ اسلام کے فرزند ہیں اس لیے وہ انگریزوں سے معافی مانگنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتے ، اور اگر انھوں نے ایسا کیا تو میرے بوڑھے ہاتھ ان کا گلا گھونٹنے کے لیے کافی ہیں‘‘۔
گاندھی جی نے کہا کہ گر چہ وہ ایک بزرگ خاتون تھیں لیکن ان کاحوصلہ جواں تھا۔وہ ملک کو غیر ملکی طاقت سے آزاد دیکھنے کے لیے آرزومند تھیں۔وہ اپنے استعمال کے لیے کپڑے خد بنتی تھیں اور دوسرے لوگوں کو کھادی پہننے کی تلقین کرتی تھیں۔وہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے بہت کوشاں رہیں اور اسے وہ ایمان کا ایک حصہ سمجھتی تھیں۔
زبیدہ داؤدی:
یہ محترمہ، مولانا شفیع داؤدی کی بیگم تھیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں شامل ہو کر آزادی کی جنگ میں عملی طور پر حصہ لیا۔انھوں نے اپنے شوہر اور دوسرے رشتہ داروں سے انگریزی کپڑے اکٹھا کیے اور کانگریس دفتر میں اس کی ہولی جلائی۔دروازے دروازے جاکر انگریزی کپڑے اکٹھا کرنے والے لوگوں کی یہ رہنما تھیں۔وہ آزادی کی جد جہد میں حصہ لینے کے لیے، خواتین کو متاثر کرنے کے لیے تمام عوامی اجتماعت منظم اجلاسوں میں شرکت کرتی تھیں۔جب طالب علم ادم اعتماد کی ہمایت میں سرکاری اسکول اور کالجوں کو چھوڑا اس وقت مولانا شفیع داؤدی نے ان کے لیے اسکول اور کالج کا انتظام کیا تو ان کی بیگم زبیدہ داؤدی نے ان کے کھانے اور مختلف سہولت کی دیکھ بھال میں لگ گئیں۔
عزیزُن:
ان کی پیدائش لکھنؤ میں ۱۸۳۲ء میں ہوئی تھی۔ سارنگی محل میں امراؤ جان کے ساتھ رہتی تھیں۔۴؍جون۱۸۵۷ء کو جب نانا صاحب نے ہندو و مسلمانوں سے انگریزوں کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دینے کے لیے کہا تومسماۃ عزیزن نے بھی گھر چھوڑ دیا اور آزدی کی تحریک میں شامل ہو گئیں اور انھوں نے خواتین کی ایک بٹالین کو منظم کیا۔وہ جنگ کے فن میں ماہر تھیں اور دوسری خواتین کو اسلحہ کے استعمال کرنے کی تعلیم دی۔ وہ پکڑی گئیں اور جنرل ہیلاک کے سامنے پیش کی گئیں۔ان سے کہا گیاکہ اگر تم اپنا گناہ قبول کر لو تو تمہیں معاف کر دیا جائیگا۔انھوں نے تجویز کو مسترد کر دیا اورشہادت کو ترجیح دی۔
امجدی بیگم(زوجہ مولانا محمد علی جوہر):
ان کا تعلق رام پور کے ایک معروف خاندان سے تھا۔وہ مولانا کی فلسفیانہ اور سیاسی اصولوں کی پیروکار تھیں اور مولانا کے ہر سفر ،عوامی جلسہ اور دیگر سرگرمیوں میں ساتھ رہتی تھیں۔انھوں نے ’ستیہ گرہ ‘ اور ’خلافت فنڈ‘ کے لیے روپیہ جمع کیا اور گاندھی جی کے سفری اخراجات ان کے ہی ذمہ تھا۔
سعادت بانو کشلو:
ڈاکٹرسیف الدین کشلوایک ہندوستانی مجاہد آزادی تھے، بیرسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ کانگریس کے مسلم قومی رہنما تھے۔وہ پنجاب کے پہلے کانگریس کے صدربنائے گئے تھے اس کے بعد ۱۹۲۴ء میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی جنرل سیکریٹری بنائے گئے ۔محترمہ سعادت بانو کشلو انھیں کی بیگم تھیں۔ان کو اردو اور فارسی میں مہارت حاصل تھی اور مجاہدوں کی ہمت افزائی کے لیے حب الوطنی کی نظمیں اور گیت تیار کیے گئے تھے۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان عورت کو تحریری طور پراپنی آرأکا اظہار کرنا بڑا مشکل تھا۔۱۹۲۰ء میں جب کشلو صاحب گرفتار ہوئے تو ان کے بیگم سعادت بانو نے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ ملک کی خدمت میں انھیں جیل کی سلاخیں ملیں۔وہ ’سِوِل نافرمانی ‘ کی تحریک میں سرگرم رہیں۔انھوں نے ’سوراج آشرم‘ میں بھی خدمت انجام دی جسے ڈاکٹر کشلو نے قائم کیا تھا اس وہ چےئر پرسن بھی تھیں۔
زلیخا بیگم(مولانا ابوالکلام آزاد کی بیگم):
بڑی ہمت والی خاتون تھیں۔معاشی پریشانیاں انھیں بہت اُٹھانی پڑی۔ مولانا جنگ آزادی کی جد جہد میں مصروف رہتے تھے لیکن بیگم نے ان کو کبھی پریشان نہیں کیا۔۱۹۴۲ء میں جب مولانا کو ایک سال کی سزا ہوئی تو بیگم نے مہاتما گاندھی کو خط لکھا کہ ’’میرے شوہر کومحض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے۔اگر ملک وقوم سے محبت کے نتیجہ میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائگا، یہ ان کی اہلیت کے لیے بہت کم ہے۔آج سے میں بنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی۔کیا خد اعتمادی اور بہادری تھی۔حالانکہ اُس وقت وہ صحت مند نہیں تھیں پھر بھی انھوں نے شوہر کی سزایابی کی خبربہت ہمت سے سُنی اور یہ طے کیا کہ آزادی کی تحریک میں وہ عملی طور سے شامل ہوں گی۔
نشاط النساء بیگم موہانی(مولانا حسرت موہانی کی بیگم):
مضبوط عزم والی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی کی تحریک کی فعال ممبر تھیں۔۱۳؍اپریل۱۹۱۶ء کو مولانا حسرتؔ موہانی جب دوسری بار حراست میں لیے گئے تو یہ با ضابطہ سیاست میں آگئیں۔وہ مولانا کی ’افسر تعلقات عامہ(PRO) ‘ بن گئیں اور انگریزی عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی کرنے لگیں۔وہ نہ صرف وفا شعار بیوی تھیں بلکہ ایک محب وطن خاتون بھی تھیں۔وہ اپنے خاوندکے ہمراہ ہر جلسہ میں حصہ لیتی تھیں۔اگرچہ وہ مالی طور پر کمزور تھیں پھر بھی وہ دوسروں سے مالی مدد کے لیے تیار نہیں تھیں مولانا جیل میں چکی پیسا کرتے تھے اور یہ گھر میں لوگوں کا آٹا پیسنے کے لیے چکّی چلاتی تھیں۔دھیرے دھیرے کتابوں اور رسالوں کی دکان کھولی اور اس کی بکری سے خانگی اخراجات پورے ہونے لگے۔ ۱۹۲۱ء میں بیگم خورشید خواجہ زوجہ خواجہ عبدالحمید کے ہمراہ’ کانگریس سبجکٹ کمیٹی‘ کی نمائندگی کی۔نشاط النساء بیگم نے سودیشی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور علی گڑھ میں خلافت تحریک کو قائم کرنے میں مدد کی۔
بیگم خورشید(بیگم عبدالمجید خواجہ)
یہ محترمہ نواب حمید اللہ سربلند جنگ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں اور اردو کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کے خاندان سے تھیں۔وہ ایک سماجی اور سیاسی کارکُن تھیں اور خواتین کی تعلیم کے سلسلہ میں بہت ہی کوشاں رہتی تھیں۔وہ نہرو خاندان سے بہت قریب تھیں خاص طور سے محترمہ سروجنی نائڈو کی صاحبزادی پدمجا نائڈو، حیدر آباد میں ان کی ہم جماعت تھیں۔ اسی طرح سے جواہر لعل کی بہن وجئے لکشمی پنڈت سے دوستانہ تعلقات تھے ۔ گاندھی جی کی تحریک’ عدم تعاون ‘ سے متاثرہوئیں اور اس میں شامل ہوئیں۔اتنا ہی نہیں اپنے ملبوسات کی ہولی جلا کر کھادی پہننا شروع کر دیا اور قیمتی گہنوں کو تحریک آزادی کے حوالے کر دیا۔ان کے شوہر کو گرفتار کرنے کے لیے جب درجنوں پولیس والوں نے ان کا گھر گھیرا تو وہ بالکل نہیں گھبرائیں اور ان کے ساتھ جیل گئیں۔۷؍جولائی ۱۹۸۱ء کوستّاسی سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔۱۹۳۰ء میں بیگم خورشید خواجہ نے الہٰ آباد میں’حمیدیہ گرلس اسکول‘کی نیو ڈالی تھی جو اب ’حمیدیہ گرلس ڈگری کالج‘ ہے۔ اپنے شوہر خواجہ کے سزا کے دوران ’ہند‘ نام کا ایک رسالہ نکالتی تھیں اور ’جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی تھی۔
مسلم خواتین جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے گھر کا سُکھ چین چھوڑ کراپنے شوہروں کے ساتھ یا تنِ تنہا آزادی کی جنگ میں نہ صرف شریک ہوئیں بلکہ اپنا مال متاع کو بھی نچھاور کیا۔آزادی کی جنگ میں شریک ہونے والی صرف یہی خواتین نہیں بلکہ ان کی تعداد تقریباً 225ہے۔
(مسلم خواتین سے متعلق یہ اطلاعات ڈاکٹر درخشاں انجم کے مضمون سے ماخوض)
جنگ آزادی میں غلامی کی بیڑیاں توڑنے کے لیے ،فرقہ پرستوں کو چھوڑ کر بقیہ ہندو، مسلم،عورت،مرد ، بچہ اور بوڑھاسبھی کوشاں تھے ۔ ہندوخواتین نے بھی آزادی کی جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ان کا ذکر نہ کر کے ان کی خدمات اور قربانیوں کوہلکا کرنے کو سوچ بھی نہیں سکتا۔مسلم خواتین کا ذکر صرف اس لیے کیا ہے کہ ان فرقہ پرستوں کو بتا سکوں کی تم جن مسلمانوں سے نفرت کرتے ہو اُن کی پردہ نشین عورتیں انگریزوں کے خلاف جس وقت ہاتھ میں تلوار لیکر لڑرہی تھیں اُس وقت تم لوگ گھروں میں دُبکے ہوئے تھے اوراگر ریلوے لائن پر کوئلاچراتے ہوئے کبھی پکڑے بھی گئے تو معافی مانگ کربچ لیا کرتے تھے۔
’فرقہ پرستی ‘ کی جگہ پر اگر ’فرقہ دوستی‘ کی تحریک چلائی جائے تووزیر اعظم کی خواہش ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ پوری ہو سکتی ہے اور ہمارا بھارت جنت نشاں ملک بن کر دنیا کا سرتاج بن سکتا ہے۔ہم ذرا غور کریں، تھوڑا سوچیں کہ ہم کیوں نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک دنیا کاسرتاج بنے اور ہم اُس عظیم ملک کے باشندے کہلائیں۔
جواب دیں