آر ایس ایس اور مسلمانوں کا حالِ زار

عبدالعزیز

     آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد آر ایس ایس کے نظریے سے سیاست دانوں کا وہ طبقہ جو باشعور تھا بہت حد تک واقف تھا۔ آزادی کے ایک دو مہینے بعد مولانا حفظ الرحمن صاحب نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ملک کو مسلم لیگ سے نہیں بلکہ آر ایس ایس سے خطرہ ہے۔ جب انھوں نے یہ بات پارلیمنٹ میں کہی تھی تو اس کو توجہ کے ساتھ سنی گئی لیکن بدقسمتی سے اس پر نوٹس نہیں لی گئی۔ 30جنوری 1948ء کو جب آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے ایک کارکن ناتھو رام گوڈسے نے جو ساورکر کے شاگرد تھے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تو حکومت ہند کے کان کھڑے ہوگئے اور پھر آر ایس ایس پر پابندی لگادی۔ اس وقت سردار ولبھ بھائی پٹیل ملک کے وزیر داخلہ تھے، انھوں نے چند مہینوں کے بعد آر ایس ایس کے سنچالک گروگولوالکر سے ایک معاہدہ کے تحت پابندی ہٹا لی۔ آر ایس ایس نے حکومت ہند سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لے گا۔ 
    آزادی کے بعد آر ایس ایس نے ’جن سنگھ‘ کے نام سے21 اکتوبر 1951ء میں اپنی ایک سیاسی تنظیم کی تشکیل کی۔ ایمرجنسی کے وقت کانگریس سے مقابلہ کرنے کیلئے جئے پرکاش نرائن کی تحریک کے نتیجے میں جنتا پارٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی۔ جس میں اپوزیشن کی کئی پارٹیاں شامل ہوئیں۔ جن سنگھ بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ جنتا پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جن سنگھ کا وجود ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے نام سے 6 اپریل 1980ء میں سیاست کے میدان میں ہوا۔فرقہ وارانہ سیاست کے بل بوتے پر آر ایس ایس کی مدد سے پہلی بار 1996ء میں اٹل بہاری واجپئی کی سربراہی میں مخلوط حکومت قائم ہوئی جو محض 13دنوں تک چلی۔ اس کے بعد 1998ء سے لے کر 1999ء تک بھاجپا کی سربراہی میں دوسری حکومت قائم ہوئی۔ 2014ء میں مودی سرکار کا وجود عمل میں آیا۔ پانچ سال تک جو کچھ ہوتا رہا اس سے نہ صرف پورا ہندستان بلکہ پوری دنیا واقف ہے۔ 2019ء کیجنرل الیکشن کے چار مرحلے ختم ہوچکے ہیں، تین مرحلے باقی ہیں وہ بھی 19 مئی تک ختم ہوجائیں گے۔ آزادی کے بعد کانگریس میں آر ایس ایس کے لوگ چور دروازے سے شامل ہوتے رہے۔ پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم کانگریس کی مدد سے بنے لیکن وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا کام کرتے رہے۔ انہی کی مدد سے سنگھ پریوار بابری مسجد کو منہدم کرنے میں کامیاب ہوا۔ 
    مسلمان: آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) 1925ء میں قائم ہوئی۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی۔ 1947ء میں ملک آزاد ہوا۔ مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان تھا۔ اس کو بھی اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی۔ آر ایس ایس، جن سنگھ اوربھارتیہ جنتا پارٹی کا عروج پر نہ مسلمانوں کی کوئی گہری نظر رہی اور نہ ہی مسلم تنظیموں کی کوئی قابل لحاظ توجہ تھی۔ مسلمانوں میں آزادی سے پہلے کچھ تنظیمیں ضرور تھیں لیکن سیاسی کشمکش کی وجہ سے مسلمانوں کی توجہ زیادہ تر مسلم لیگ کی طرف تھی۔ مسلم لیگ بھی پاکستان بننے کے بعد وہاں منتقل ہوگئی۔ اس کا ایک دھڑ کیرالہ میں باقی رہ گیا جو صرف کیرالہ تک محدود تھا۔ آزادی کے بعد مولانا آزاد نے لکھنؤ میں ایک دو کنونشن منعقد کئے لیکن ان کا سارا زور یہ تھا کہ مسلمانوں میں جو تنظیمیں ہیں وہ مسلم فرقہ وارانہ طریقہ کار یا سیاست سے دور رہیں۔ یہاں تک کہ وہ جمعیۃ علماء ہند جو ان کے دونوں کنونشنوں میں شامل تھی اسے بھی تحلیل کرنا چاہتے تھے یہ کہہ کر کہ اب جمعیۃ علماء کی ضرورت نہیں ہے لیکن کلکتہ کے خان بہادر محمد جان کی سخت مخالفت سے مولانا آزاد کی ایک نہ چلی۔ جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ 1964-65ء سے کل ہند مسلم مجلس مشاورت جو مسلمانوں کی مشترکہ تنظیم ہے کام کرتی رہی۔ 1974ء میں ’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘ کا قیام عمل میں آیا۔ 1942ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی جو بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ پاکستان میں سرگرم رہا اور دوسرا حصہ ہندستان میں۔ مسلم تنظیمیں یا ان کی مشترکہ تنظیم نے سیاسی یا غیر سیاسی میدان میں آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سیاست کی کاٹ کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا۔ اب تک جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ ہندستان میں جو سیاسی پارٹیاں ہندستان گیر پیمانے یا ریاستی پیمانے پر سرگرم عمل ہیں مسلمان یا ان کی تنظیمیں سیاسی انتخابات میں ایک ہی کام کرتی رہیں کہ کسی طرح بی جے پی کو ہرایا جائے اور سیکولر پارٹی کو جتانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اب مسلم ووٹروں کی حیثیت بھی وہ نہیں رہی جو 2014ء سے پہلے تھی۔ اب کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کا نام لینے سے کتراتی ہیں کہ کہیں ان کا ووٹ مسلمانوں کا نام لینے سے کم نہ ہوجائے۔ 
    اس وقت سیاست میں جو مسلمانوں کی حالت ہے وہ انتہائی قابل رحم ہے۔ مغربی بنگال کے ایک لوک سبھا حلقہ بشیر ہاٹ میں ترنمول کانگریس نے ایک نام نہاد مسلم خاتون جو ماڈل رہ چکی ہے، فلم ایکٹریس ہے، فحاشی اور عریانیت میں بدنام زمانہ ہے کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ جب اس کے نام کا اعلان ہوا تو جو ترنمول کانگریس کے اندر مسلمان ہیں چند لوگوں کو چھوڑ کر سب نے اسے قبول کرلیا اور جن لوگوں نے انھیں قبول نہیں کیا وہ بھی چپ چاپ رہے۔ ترنمول کانگریس کے باہر کے مسلمانوں نے خاص طور سے بشیر ہاٹ کے مسلمان نام نہاد مسلم خاتون کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔ ترنمول کانگریس کے ایک لیڈر نے کلکتہ اور دیگر علاقوں کے چند ائمہ کرام اور علمائے کرام کو ایک جلسہ میں بشیر ہاٹ لے جاکر نام نہاد مسلم خاتون امیدوار کی حمایت میں تقریر کرائی۔ ایک جماعت کی مجلس شوریٰ نے بھی اس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ عام مسلمانوں میں اس کا کافی رد عمل ہے۔ 
    سوچنے کی بات ہے کہ جس ملت کو اللہ تعالیٰ نے حق اور انصاف کا علمبردار بننے کیلئے کہا اور حکم دیا کہ اللہ کے واسطے گواہ بنو چاہے اس گواہی یا انصاف کی زد تمہارے والدین یا تمہارے رشتہ داروں پر پڑتی ہو۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”تم اللہ کیلئے کھڑے ہوجاؤ، انصاف کے گواہ بنو اور تمہیں کسی دوسری قوم کی دشمنی اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو، یہی تقویٰ اور پرہیزگاری کے قریب ترین ہے“۔ علامہ اقبالؒ نے بھی مسلمانوں کو تنبیہ کی تھی  ؎سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا …… لیا جائے گا تجھ سے کام امامت کا۔ وہ کس طرح آج حمایت اور مخالفت کے فلسفہ پر عمل پیرا ہے۔
    اگر مسلمان اللہ اور رسولؐ کی بات کو گرہ باندھ لئے ہوتے اور حق و انصاف کے علمبردار بن گئے ہوتے تو آج یہ نوبت نہیں آتی کہ کسی کی دشمنی میں وہ اتنا آگے بڑھ جاتے کہ حق اور انصاف کے تقاضے کو فراموش کردیتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے ماضی سے سبق لیتے ہوئے اور حال کا جائزہ لیتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ ان کا جسمانی اور معنوی وجود ہندستان میں باقی رہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

02مئی ۲۰۱۹۰فکروخبر

«
»

نمازِتراویح :چنداصلاح طلب پہلو

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے