مودی نے گجرات میں جو صنعتی اقدامات کا آغاز کیا اور یہاں پر جو صنعتی ترقیاتی موضوع پر لہک لہک کر تقریریں کی ، ان تمام باتوں کی وجہ سے مودی صنعت کاروں کیلئے ایک بہت بڑے مسیحا یا رہنما بن کر اُبھرے ، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ ان تمام مجموعی حالات کی وجہ سے صنعت کاروں نے بی جے پی کی جھولیوں میں دل کھول کر مدد عرف…..ڈالی۔مگر جب بی جے پی کے ایک سال کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں محسوس ہوگا کے صنعت کاروں کے تمام امیدوں پر صرف پانی نہیں گرم پانی پھیر گیا ہے، پھر اس طرح کے ردعمل بھی سامنے آرہے ہیں، لوگوں کے تاثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔رتن ٹاٹا جیسے مشہور و معروت صنعت کار اپنے معاونین کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔
نریندر مودی کے کام کاج کا ابھی کسی قسم کا جائز نہ لیں، ان کوکام کرنے کا مناسب موقع دیں، اس طرح کی باتیں انیل امبانی، دیپ پاریکھ اور اب ان کے بعد ارون شوری نے کرتے ہوئے نریندر مودی صنعت کے تعلق سے گمراہ کن پالیسی اور غیر یقینی حالات کا ذکر کیا۔ ایک طرف معاشی ترقیاتی کی بات کرنااور دوسری طرف بیرونی سرمایہ کاری پر انکم ٹیکس عائد کرنا۔ جس کی وجہ سے پہلے کی سرکار اور موجودہ سرکار میں پالیسی کے لحاظ سے خاص فرق نظر نہیں آتا۔ان حالات میں صنعت کاروں کیلئے سرکار نے کچھ کیا اسلئے سرکار مزدوروں کے قانون میں کچھ ترمیم کرنا چاہتی ہے ۔ صنعتی ایکٹ 1947اور دیگر قانون میں ترمیم کی جائے گی۔گزشتہ کچھ سالوں سے مزدور طبقہ کافی بے چین اور کسمپرسی کے عالم میں ہے، ایک طرف روزگار کے مواقع سازگار نہیں ہیں، مگر مودی کی سرکار آنے کے بعد روزگار کے بیشمار مواقع پید اکیے جائیں گے، ایسے خواب دیکھائے جارہے تھے ، وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری طرح صنعت کاروں کے چھ لاکھ کروڑروپئے کی تجویز منظور کرنے کے باوجود صنعت میں جیسی چاہیے ویسی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے۔ تعمیری شعبہ میں ملک کی پیداوار بھلے 21فی صد تک لیجانے کا مقصد ہو مگر اس میں توقع کے مطابق اضافہ نہیں ہورہاہے۔روزگار میں اضافہ ان شعبوں سے ہی ہوا کرتا ہے۔مستقل روزگار اب یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کنٹراکٹ کے مطابق روزگار کا آج کل بول بالا ہے، جس کی وجہ سے ملازمین کے چھٹیاں، بونس جیسے سہولیات پر ضرب لگ چکی ہے۔بیرونی اور اندرونی ملک کے صنعت کاروں کو اپنی مرضی کے مطابق ملازمین کو جھکانا ہے۔ اس کیلئے صرف صنعت کار ہی ذمہ دار ہیں ایسا نہیں ہے۔
ورکر یونین کا دبدبہ اور ان کی سیاست جس کی وجہ سے بیشمار صنعتکاروں کو اپنی صنعتیں بند کرنا پڑی، اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے ۔ اس پر روک لگنی چاہیے ایسا صنعت کار چاہتے ہیں ، مگر اس کا فائدہ اُٹھاکر کارخانوں کے ’شٹ ڈاؤن‘کرنے کے قانون میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ اس سے قبل 100ملازمین پر مشتمل اگر کوئی کارخانہ بند کرنا ہوتو اس کے کیلئے سرکار کی اجازت طلب کرنی پڑتی تھی۔اب 300ملازمین پر مشتمل کوئی کارخانہ بند کرنا ہوتو سرکا ر کے اجازت کی ضرورت نہیں۔ ملازمین کو زیادہ خسارہ کی رقم دینا یعنی ہماری ذمہ داری ختم ایسا سرکار محسو س کررہی ہے۔زمین کے تعلق سے کوئی بل پاس کرانا ہو ہویا مزدوروں کے تعلق سے کوئی بل ہو دونوں میں سرکار کا رول یکساں نظر آتا ہے۔کاشتکاری کرنے والوں کو زیادہ معاوضہ دے کر سرکار فارغ ہوجاتی ہے۔ ملازمین یا مزدوروں کو 30دنوں کے بجائے45دنوں کی تنخواہ دی یعنی سب کچھ کردیا ایسا سرکار سوچتی ہے۔کسانوں اور مزدوروں سے زندگی بھر کیلئے ان کا روزگار چھین لینے کے بعد ، وہ زندگی بھر کیا کریں گے، ان کے متبادل روز گار کی کیا حالت ہے، ان سوالوں سے سرکار کو کوئی سروکار نہیں۔ اب تو لیبر یونین بنانے کیلئے کم از کم 100ملازمین یا 10فیصد ملازمین ممبر ہو تو یونین تشکیل دی جاسکتی ہے ، یہ پابندی عائد کی جارہی ہے۔ پورے ملک میں سرکار کے اس قانون کی ملازمین مخالفت کر رہے ہیں۔صنعت کاروں کے طرف سے اس قانون کا استقبا ل کیا جارہے ہے۔اس کے باوجود اس قانون کو نافذکرنا سرکار کولوہے کے چبانے ہوگا۔
نیشنل لیبر کمیشن نے جب اٹل بہاری واجپی برسر اقتدار تھے اس وقت ہی اس طرح کا بل پاس کرنے کی سفارش کی تھی۔اس وقت اس طرح کا قانون پاس کرنا آر ایس ایس کے لیبر یونین کے ساتھ ساتھ دیگر تمام یونین نے اس کی مخالف کی تھی۔قانو ن کو مزید شفاف اور آسان بنانے میں کسی کی بھی مخالفت نہیں ہوسکتی مگر مزدورقانون کے تحت ترمیم کے نام پر روزگار کو غیر محفوظ بنانا یعنی مخالفین کے حوصلوں کو تقویت عطا کرنا ہے۔
جواب دیں