اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرامؓ یومِ عاشورہ (محرم کی دسویں تاریخ) کا روزہ اور ایامِ بیض (قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ) کے روزے رکھتے تھے۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت قرآن سنت اور اجماعِ امت تینوں سے ثابت ہے، چنانچہ رمضان کے روزوں کے فرض ہونے کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے اور اس کا تارک نہایت سخت گناہ گار اور موجب لعنت ہوتا ہے، درمختار باب مایفسد الصوم میں لکھا ہے: کہ اگر کوئی عاقل وبالغ مسلمان رمضان میں بلاعذرِ شرعی علی الاعلان اور بے باکانہ کھائے پیئے اور اسلامی حکومت قائم ہو تو قاضی کی طرف سے اس کے قتل کا حکم کیا جائے گا، اس بناء پر کہ اس نے سب کے سامنے بے باکانہ کھاپی کر دین کے ساتھ تمسخر کیا، شریعت کا مذاق اڑایا، اور اس نے روزۂ رمضان کی فرضیت کا عملًا انکار کیا۔
جوبھی عبادت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں اس کے پیچھے مصلحت وحکمت کارفرما ہیں، اس عبادت کی ادائیگی میں انسانیت کی فلاح وکامرانی پوشیدہ یاعیاں ہیں، اسی طرح رمضان المبارک کے روزے ہیں، ان کی ادائیگی میں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے فائدے رکھے ہیں ان میں سے دو فائدے سب سے بڑے ہیں جن کو علامہ نواب قطب الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مظاہر حق جدید شرح مشکوۃ میں بیان کیا ہے کہ: ایک فائدہ تو یہ ہے کہ روزہ انسان کو ضبطِ نفس (نفس پر قابو رکھنے) کی توانائی عطا کرتا ہے جس سے قوتِ بہیمیہ (برائی کی طرف لے جانے والی طاقت) مغلوب ہوتی ہے اور قوتِ ملکیہ (نیکی کی طرف لے جانے والی طاقت) غالب آتی ہے، اس کی بدولت وہ خاطر جمعی حاصل ہوتی ہے جس سے نفس اَمارہ میں سکون اور ٹھیراؤ پیدا ہوتا ہے، اس کی تیزی جاتی رہتی ہے اور وہ سب اعضاء سست پڑجاتے ہیں جو ناجائز کاموں اور فضول باتوں کا آلۂ کار بنتے ہیں، جیسے آنکھ، زبان، کان اور شرمگاہ، چنانچہ مشہور مقولہ ہے کہ: (ترجمہ) جب نفس بھوکا ہوتا ہے اس کی خوراک روک دی جاتی ہے تو تمام اعضاء سَیر ہوتے ہیں، (اپنے مناسب کی طرف راغب نہیں ہوتے) اور جب نفس سیر ہوتا ہے تو سب اعضاء بھوکے ہوجاتے ہیں (اپنے اپنے مناسب کی طرف راغب ہوتے ہیں) اور مناسب کا مطلب وہ چیز ہے جس کے لیے عضو پیدا ہوا ہے، مثلاً آنکھ دیکھنے کے لیے پیدا ہوئی ہے، پس نفس (پیٹ) جب بھوکا ہوتا ہے تو آنکھ کسی بری چیز کی طرف دیکھنے کی مشتاق نہیں ہوتی، پیٹ بھرنے پر مشتاق ہوتی ہے، اسی پر باقی اعضاء کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ روزہ کے ذریعے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے، یعنی باطنی کدورتیں زائل ہوتی ہیں اور قلب صاف وشفاف ہوجاتا ہے، کیونکہ انسان کے باطن میں جو کدورتیں پیدا ہوتی ہیں اور ان کدورتوں سے دل پر جو غبار آتا ہے ان کا مُوجب زبان اور آنکھ وغیرہ ظاہری اعضا کے فضول افعال ہوتے ہیں، یعنی ضرورت وحاجت سے زائد کلام کرنا، بلاضرورت آنکھ کا اِدھر اُدھر دیکھنا، اور اسی طرح دوسرے اعضا کا حاجت سے زیادہ اپنے افعال کا کرنا، اور روزہ دار چونکہ نفس (پیٹ) اور خواہشات کے جائز تقاضوں کو بھی دباتا ہے اس لیے وہ ظاہری اعضا کے فضول کاموں سے بھی اجتناب کرتا ہے اور ان سے محفوظ اور مامون رہتا ہے، اس کی بدولت اس کا باطن بے کدورت اور اس کا قلب باصفارہتا ہے، پھر قلب کے باصفا رہنے کے سبب سے وہ اچھے کام کرتا ہے اور درجاتِ عالیہ اس کو حاصل ہوتے ہیں۔ ان دو سب سے بڑے فائدوں کے علاوہ ایک اور اہم فائدہ روزے کا یہ ہے کہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی طرف رحم وکرم اور بخشش ومہربانی کے ساتھ متوجہ ہونا، جو ایک اعلی درجہ کا انسانی واخلاقی وصف ہے، اس کو روزہ کے ذریعے بہت توانائی اور فعالیت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ جو انسان خود بھوک کا تعب اٹھاتا ہے اس کو اس بھوک کی کلفت زیادہ تر یاد رہتی ہے، چنانچہ وہ جب کسی غریب ومحتاج اور بھوکے کو دیکھتا ہے تو اس کا جذبۂ ترحم بیدار ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ بخشش ومہربانی کا برتاؤ کرتا ہے۔ اور ایک فائدہ یہ ہے کہ نادار اور محتاج لوگ جو فقروافلاس کا دُکھ اٹھاتے ہیں کچھ وقت کے لیے روزہ دار کو ان کی موافقت کرنے اور ان کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ ظاہر ہے ناداروں اور مسکینوں کی موافقت کرنا بہت بڑی خوبی ہے جس کی وجہ سے اللہ کے نزدیک رتبہ بلند ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانیت اور حیوانیت کا نسخۂ جامعہ بنایا ہے، اس کی جبلت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی رکھے ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں۔ اور اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نوارانی جوہر بھی رکھا ہے جو ملأ اعلیٰ کی خاص دولت ہے۔ انسان کی سعات کا مدار اس پر ہے کہ اس کا یہ روحانی جوہر حیوانی عنصر پر غالب اور حاوی رہے۔ اور اس کو حدود کا پابند رکھے۔ اور یہ جبھی ممکن ہے کہ بہیمی پہلو ملکوتی پہلو کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری کا عادی ہوجائے۔ اور اس کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرے۔ روزے کی ریاضت کا خاص مقصد یہی ہے کہ اس کے ذریعے بہیمیت کو اللہ کے احکام کی پابندی اور روحانی تقاضوں کی تابعدار وفرمانبرداری کا خوگر بنایا جائے۔ اور چونکہ یہ چیز نبوت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے تمام پہلی شریعتوں میں بھی روزہ کا حکم رہا ہے۔ ارشاد پاک ہے: ’’اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم میں تقوی پیدا ہو‘‘ (بقرہ آیت۱۸۳) معلوم ہوا کہ روزوں کی خاص حکمت تقوی کی پیدائش ہے، تو چونکہ روزہ رکھنے سے نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی عادت پڑے گی اور وہی تقوی کی بنیاد ہے۔ (معارف الحدیث۳؍۹۳) حضرت شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ: روزوں سے بہیمیت کا زور ٹوٹتا ہے، جب بہیمیت منہ زور ہوجاتی ہے تو وہ ملکیت کے احکام کو ظاہر ہونے کا موقع نہیں دیتی۔ اس وقت بہیمیت کا زور توڑنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ بہیمیت کو جن چیزوں سے تقویت ملتی ہے ان کو حتی الامکان کم کیا جائے۔ اوربہیمیت کو تین چیزیں قوی کرتی ہیں: کھانا، پینا اور شہوانی لذتوں میں منہمک ہونا۔ اورعورتوں کے ساتھ اختلاط وہ کام کرتا ہے جو آسودگی کیساتھ کھانا پینا نہیں کرتا۔ یعنی اس سے بہیمیت بہت زور پکڑتی ہے۔ چنانچہ تمام وہ لوگ جو ملکیت کے احکام کے ظہور کے خواہش مند ہیں: ان اسباب کے کم کرنے پر متفق ہیں۔ حالانکہ ان کے زمانے مختلف ہیں اور ان کے ممالک دور، دور، واقع ہوئے ہیں۔ یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ چیزوں میں کمی کرنے سے بہیمیت کا زور ٹوٹتا ہے۔ اور ملکیت کو نمود کا موقعہ ملتا ہے۔ دوسرے یہ کہ: روزوں کے ذریعہ بہیمیت کو ملکیت کا تابعدار بنانا مقصود ہے۔ شریعت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بہیمیت نابود ہوجائے۔ وہ ایک فطری امر ہے۔ اور فطری چیزیں ختم نہیں ہوسکتیں۔ مقصود صرف اس کو تابعدار اور فرمانبردار بنانا ہے۔ اس طرح کہ وہ ملکیت کے اشارہ پر کام کرنے لگے۔ اور اس پر ملکیت کا رنگ پوری طرح چڑھ جائے۔ اور ملکیت: بہیمیت سے کنارہ کش ہوجائے۔ اس طرح کہ وہ بہیمیت کا گھٹیارنگ قبول نہ کرے۔ اور جس طرح مہر کی انگوٹھی کے اُبھرے ہوئے حروف موم پر نقش ہوجاتے ہیں، ملکیت میں بہیمیت کے خسیس نقوش نہ ابھریں۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ملکیت پوری سنجیدگی سے اپنا کوئی تقاضا بہیمیت کے سامنے پیش کرے، اور وہ تعمیل کرے۔ نہ سرکشی کرے، نہ عمل در آمد سے باز رہے۔ پھر اسی طرح بار بار ملکیت: بہیمیت کے سامنے اپنی پسند کے کام پیش کرتی رہے۔ اور وہ حکم کی تعمیل کرتی رہے۔ پس رفتہ رفتہ بہیمیت اطاعت کی خوگر اور مشاق ہوجائے گی، اور وہ باتیں جن کو ملکیت سنجیدگی سے چاہے اور بہیمیت جن کی بجا آوری پر خواہی نخواہی مجبور ہو، وہ دو طرح کے کام ہیں: ایک وہ کام ہیں جن سے ملکیت کو انشراح اور بہیمیت کو دل تنگی لاحق ہوتی ہے۔ جیسے عبادتوں کے ذریعہ، خاص طور پر روزوں کی ریاضت کے ذریعہ، فرشتوں کے ساتھ مشابہت پیدا کرنا۔ اور تلاوتِ قرآن وغیرہ کے ذریعہ خدائے قدس کے بارے میں آگہی حاصل کرنا یعنی ذات وصفات کے علوم سے واقف ہونا۔ یہ دونوں کام ملکیت کا خاصہ ہیں۔ اور بہیمیت ان سے کوسوں دور ہے۔ پس جب ملکیت: بہیمیت سے اس نوع کے کام کرائے گی یعنی طبیعت پر زور ڈال کر آدمی یہ کام کرے گا تو ملکیت کو انشراح اور سرور وانبساط حاصل ہوگا اور بہیمیت کی ناک خاک آلود ہوگی۔ دوسرے بہیمیت جن باتوں کو چاہتی ہے۔ جن سے وہ لطف اندوز ہوتی ہے۔ اور نشاطِ جوانی میں جن کاموں کی وہ مشتاق ہوتی ہے یعنی شہوتِ بطن وفرج والے کام: ملکیت ان کاموں کو بالکل چھوڑدے۔ اور ان سے کنارہ کشی اختیارکرلے تو رفتہ رفتہ بہیمیت رام ہوجائے گی یہی روزہ ہے یعنی روزوں کا خاص مقصد یہی ہے اور اسی حکمت سے وہ مشروع کئے گئے ہیں۔
ملکیت کو تقویت پہنچانے کے لیے اور بہیمیت کو ناتواں کرنے کے لیے اگرچہ ہمیشہ روزہ رکھنا ضروری ہے مگر معاشی مہمات اور اموال وازواج کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے یہ بات عام لوگوں کے لیے ناممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مومن زمانہ کا ایک وقفہ گزرنے کے بعد روزوں کی اتنی مقدار کا التزام کرے جس سے ملکیت کی نمود کی حالت اور اس کی اپنی پسند کی باتوں پر فرحت کا حال معلوم ہوجائے یعنی ملکیت کے ظہور وغلبہ کی حالت واضح ہوجائے اور خوب پتہ چل جائے کہ بہیمیت کے تقاضے تھم گئے ہیں۔ اور درمیانی وقفہ میں مومن سے جو کوتاہیاں سرزد ہوگئی ہیں، روزوں کے ذریعہ ان کاکفارہ بھی ہوجائے۔ اور مومن کا حال اس اصیل گھوڑے جیسا ہوجائے، جس کی پچھاڑی ایک حلقہ سے بندھی ہوئی ہو، اور وہ اِدھر اُدھر دو لتِّیاں چلاکر اپنے ٹھکانہ پر آکھڑا ہو۔ اسی طرح مومن بھی کوتاہیاں کرنے کے بعد رمضان میں ٹھکانے پر آجائے۔ اور روزہ کا اس طرح التزام کرنا بھی ایک طرح کی مدوامت ہے۔ جب حقیقی مداومت ممکن نہیں تو اسی فی الجملہ مداومت پر اکتفا کرنا چاہیے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ جب عام لوگوں کے لیے ہمیشہ روزہ رکھنا ممکن نہیں، وہ وقفہ وقفہ ہی سے روزے رکھ سکتے ہیں تو ضروری ہے کہ روزوں کی مقدار متعین کردی جائے، تاکہ لوگ افراط وتفریط میں مبتلا نہ ہو۔ اگر روزہ کی مقدار متعین نہیں ہوگی تو کوتاہی کرنے والے اتنے کم روزے رکھیں گے کہ وہ قطعاً بے سود اور غیر مفید ہوں گے۔ اور حد سے تجاوز کرنے والے اتنے زیادہ روزے رکھیں گے کہ ان کے اعضاء کمزور، نشاط کافور اور نفس سست ہوجائے گا اور روزے ان کو قبرستان پہنچادیں گے جب کہ روزے ایک تریاق یعنی زہریلی دوا ہیں۔ وہ اس لیے تجویز کئے گئے ہیں کہ نفس کا زہر دور ہو اور یہ بھی مقصد ہے کہ نسمہ مغلوب ومقہور ہو، پس ضروری ہے کہ روزوں کی مقدار بقدرِ ضرورت ہی مقرر کی جائے، یعنی جن سے مقصد حاصل ہوجائے اور کوئی نقصان نہ ہو۔
بہیمیت کو کمزور کرنے کے لیے کھانا کم کرنا ضروری ہے اور کھانا پینا کم کرنے کے دو طریقے ہیں: ایک طریقہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی مقدار گھٹادی جائے یعنی بس برائے نام کھایا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کھانوں کے درمیان عادۃً جو وقفہ (فاصلہ) ہوتا ہے، اس کو بڑھا دیا جائے۔ آسمانی شریعتوں میں دوسرا طریقہ ہی پسند کیا گیا ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں: پہلی وجہ یہ ہے کہ کھانوں کے درمیان وقفہ بڑھانے سے بدن ہلکا پڑتا ہے اور نفس تھکتا ہے اور یہی روزے سے مقصود ہے۔ اور یہ طریقہ سردست بھوک پیاس کا مزہ بھی چکھاتا ہے جس سے دل میں غریبوں کی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہ طریقہ بہیمیت پر حیرت اور دہشت طاری کرتا ہے۔ اور اس پر واضح طور پر حملہ آور ہوتا ہے جس سے بہیمیت مغلوب ہوتی ہے اور خشیت وتقوی کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اور پہلا طریقہ مضر ہے۔ اس سے ایک لاغری آتی ہے جو محسوس نہیں ہوتی۔ ناتوانی کے ساتھ آدمی چلتا پھرتا رہتا ہے۔ اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ مگر بالآخر وہ بے طاقتی ہلاکت کے کنارے پہنچادیتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی مقدار گھٹانے کا معاملہ عام قانون سازی کے دائرہ میں مشکل ہی سے آسکتا ہے۔ اس لیے کہ کھانے پینے کے معاملہ میں لوگوں کے احوال بہت زیادہ مختلف ہیں۔ کوئی دن بھر میں ایک سیر کھاتا ہے تو کوئی دو سَیر۔ اور جس مقدار سے پہلے کا حق پورا ادا ہوجاتا ہے یعنی وہ شکم سَیر ہوجاتا ہے وہ مقدار دوسرے کے پیٹ کی آگ بھی نہیں بجھا سکتی۔ بہرحال ایک خاص نظام الاوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کو دیا گیا ہے کہ سحری کے اختتام پر کھانے کو بند کردیا جائے اور غروب آفتاب پر افطار کرلیا جائے، اور اس میں بھی فضیلت اس بات کو دی گئی ہے کہ کم کھایا جائے، بس پیٹ کی ہلکی سی سلوٹیں کھولی جائیں بہت زیادہ نہ تھورا جائے، اور اس درمیان میں کھانے پینے اور جماع سے خود کو دور رکھتا رہے،اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ روزہ دار میں اللہ کا ڈر اور تقوی پیدا ہوگا، لیکن تقوی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ فضول کاموں اور گناہوں سے بھی روزہ کی حالت میں اپنے کو الگ رکھے، اگر فضولیات ومعصیات سے روزہ میں الگ نہ رہا تو وہ روزہ انسان کو زیادہ فائدہ نہیں دے گا بلکہ وہ عمل غیر نافع رہے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بخاری) اس لیے گرمی کے ان ایام میں جب ہم نے روزہ رکھ لیا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ ثواب کے حصول میں یہ عمل ہمارے لیے آسان ہواہے تو کیوں نہ پورا ثواب حاصل کیا جائے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ کھانے پینے اور جماع کے ترک کے ساتھ فضول کلام اور فضول کام کو بھی ترک کردیا جائے، بدنظری، بدگوئی،فحش کلامی، فحش مزاجی،بدگوئی،بدفکری وغیرہ کو بھی ختم کرکے رمضان کو گزارہ جائے تو اس کا یقیناًوہ بڑا فائدہ حاصل ہوگا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزہ کو فرض کیا ہے، اور دوسری صورت میں کسی چیز کا حصول نہیں ہوگا صرف وقت گزاری ہوگی جو ہوتی رہے گی اس پر ثمرات کچھ مرتب نہیں ہوگے۔(یو این این)
جواب دیں