‘‘یعنی 40ہزار لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی زبان کو ریاست کرناٹک کی تیسری زبان کا درجہ دیاجائے اور جس اردو زبان کو کروڑوں افراد اپنی روزمرہ کی زندگی میں برتتے ہیں ، ایسی زبان کیا ریاست کرناٹک کی دوسری زبان نہیں ہونا چاہئیے؟
محبان اُردو خصوصاً گلبرگہ اور بنگلور کے اردو بولنے والے حلقے کہیں گے کہ ہمارا تو یہ دیرینہ مطالبہ ہے۔ گذشتہ کئی سال سے ہم اس کے لئے مسلسل آواز اُٹھار ہے ہیں ۔ یہاں تک تو بات درست اور حسب توقع ہے لیکن جب ریاست کرناٹک کی ہونے والی دوسری سرکاری زبان اردو کے خلاف کوئی لاف وگزاف کرتاہے ، اس کو ’’ریاست باہر ‘‘ کرنے کی تجویز اعلیٰ قانون ساز ادارے میں قانون سازوں کے سامنے پیش کرتا ہے تو اس اقدام کے خلاف کوئی مؤثر آواز گلبرگہ سے اٹھتی ہے اور نہ ہی بنگلور سے۔ ایسا کیوں ہورہاہے ؟ یا ایسا کیوں ہوتاہے؟
آج جبکہ تنویرسیٹھ اور این اے حارث (فیروز سیٹھ نے اپنے ملوث ہونے سے انکارکیاہے)جیسے کانگریس کے اراکین اسمبلی نے ہندوستان کی سب سے شیریں زبان میرؔ و غالبؔ ، اقبال واکبر ، داغ، جگر ، سیماب ، امجدحیدرآدی ،حفیظ میرٹھی ، مخدوم محی الدین ، مولوی عبدالحق ، رشید احمد صدیقی ، سعادت حسن منٹو ، قرۃ العین حیدر، راجند رسنگھ بیدی ، فراق ، چکبست ، علی میاں ندوی ؒ ، مولانا سید ابواعلیٰ مودودی ؒ ، امین احسن اصلاحی ؒ ، شبلی نعمانی ؒ ، مولانا عبدالماجد دریاآبادی ، ابوالکلام آزاد (اور ان تمام کے علاوہ) محمود ایاز ، شا ہ ابوالحسن ادیب ، ضیاء میر، رازامتیاز، رشید احمد رشید ، عطاکلیانوی ، غلام مصطفےٰ عشقیؔ ، اور حمیدالماس کی اردو زبان کے اسکولوں کو بندکرنے اور ا ن کی جگہ کنڑا اور انگریزی اسکول کھولنے کا مشورہ دے کر اردوزبان کو ’’ریاست باہر‘‘ کرنے کی تجویز پیش کرنے کا جرم کیاہے۔ تو اردو کاکوئی دانشور اُف تک نہیں کررہاہے، ان دانشوران کی نیندیں حرام ہونا تودور کی بات ہے۔
کرناٹک اردواکیڈمی کے تمام باحیات سابق صدورجو گلبرگہ ، بنگلور اور شیموگہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں ، یہ کہاں ہیں ؟کیا ان تمام نے اپنے منہ میں گھونگھنیاں ڈال رکھی ہیں ؟مذکورہ مسئلہ پر کچھ کہتے نہیں ہیں یہ دانشور۔کیا ہر کسی کو اپنی انا اور اپنی پارٹی ، اور انجمن عزیز ہے اوراردو زبان نہیں ؟ایسے میں اگر اردو عوام کو ان کی خاموشی سراسرمجرمانہ محسوس ہوتی ہے تو کیا یہ احساس غلط ہے؟ریاست کرناٹک کے قدآور شعراء کو آیا سانپ سونگھ گیاہے؟یاعمرِ عزیز نے ان کے جذبات پر یاسیت کی چادر ڈال دی ہے۔ ؟
زندہ قومیں اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرتی ہیں ، اپنی آواز کو قانون سازاداروں تک پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کرتی ہیں ، اور ان زندہ اقوام کے دانشور اپنی قوم کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ ریاست میں ایسا نہیں ہورہاہے تو سوچاجاسکتاہے کہ ہمارے دانشور ، ہمارے شاعر وادیب ، بلاوجہ اندیشوں کے شکار ہوچکے ہیں ۔
ریاست کی اُردو عوام نے جن ادبی تنظیموں کی ادبی اور لسانی رپورٹیں پڑھ کر اپنا وقت صرف کیا اور ان کی سرگرمیوں کو پسندیدگی کی سند دی ، وہ تنظیمیں اردو اسکولوں کو بندکر نے کی تجویز پر کچھ نہیں کہتیں ، جوابی یادداشت پیش نہیں کرتیں ، یاسڑکوں پر نہیں آتیں اور احتجاج منظم نہیں کرتی ہیں تو اس کی وجہ کیاہوسکتی ہے ؟ریاست گیر اساتذہ کی تنظیم کراٹا نے ایک آدھ جگہ سے جو احتجاج مذمتی بیان کی شکل میں کیاہے وہ احتجاج سیدھا اور واضح نہیں ہے ۔ احتجاج میں احتیاط کا عنصر پنہاں ہے ۔ ایک خوف سا تنظیم کے احتجاج میں نظر آتاہے۔ اس معاملہ پر آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرس اسوسی ایشن (آئیٹا) نے منھ کھولنے کی زحمت ہی گوار انہیں کی ۔ کیا اس طرح کے اساتذہ آئیڈیل کہے جاسکتے ہیں ؟ جبکہ اس تنظیم کے ریاستی صدر کو اردو سے اس لئے دلچسپی نہیں ہوسکتی ہے کہ وہ ایک کنڑی داں ہیں اور ان کا کنڑی دانوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے ۔ اگر ان کی اس طرح کی حرکت کنڑی دانوں تک پہنچے گی تو تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یاپھر آئیٹا کی زبان بندی کہیں جماعت اسلامی کرناٹک کی رہنمائی میں تو نہیں ہے ؟ لیکن اس پر یقین کرنا مشکل اسلئے ہے کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اور زبان کو چھین کر قوموں کو گونگا بنادینے کے ظلم کے معنی ومفہوم کو جماعت اچھی طرح جانتی اور اس کی سنگینی کو سمجھتی ہے۔ لہٰذا یہ کہیں تساہل پسند اساتذہ کا شاخسانہ تو نہیں ہے ؟
کچھ سال قبل آل انڈیا اردو منچ نے سابق وزیر اعلیٰ کرناٹک جناب این دھرم سنگھ کی قیادت میں اردو کی عالمی کانفرنس کرناٹک کے دارلخلافہ بنگلور میں منعقدکی تھی ۔اس کے بعد بھی ارد ومنچ کی اردو کے لئے کی جانے والی سرگرمیاں سابق گورنرایچ آر بہاردواج کے حوالے سے اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں ۔ تاہم آج آل انڈیا اردو منچ کے متحرک اور فعال دانشوروں کی لب کشائی کے لئے ریاست کی اردو عوام ان کی جانب نظریں جمائے بیٹھی ہے۔
ترقی پسند تحریک کے بعد ملک گیر سطح کی سب سے منظم ادبی تحریک کانام ’’ادار�ۂ ادب اسلامی ہند ‘‘ ہے ۔ یہ ادبی تنظیم ریاست کرناٹک میں گذشتہ نصف صدی سے سرگرم عمل ہے ۔ اس تنظیم کا بھی کوئی احتجاج کہیں پڑھنے کو نہیں ملا۔ کیا ادارۂ ادب اسلامی کرناٹک کو اردو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ؟کیا و ہ یہ چاہتی ہے ریاست کے تمام اردواسکول بندکردئے جائیں اور ان کی جگہ کنڑا اور انگریزی اسکول قائم ہوں ؟اگرایسی بات نہیں ہے تو پھر یہ خاموشی کیا معنی ؟کیامعاملہ یوں ہے کہ ادارہ بوڑھے ناتواں کندھوں پر ہے اور اس کو نوجوان نسل کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاسکے؟ ہندوستان گیر سطح کی ایک اور تنظیم کا نا م ہے ’’انجمن ترقی اردو ہند‘‘جس کانام اور کام ریاست میں سب سے زیادہ گلبرگہ میں بتایاجاتاہے ، لیکن یہ تنظیم بھی خاموش ہے ۔ اردو کے ممتاز دینی دانشور حضرت علی میاں ندوی ؒ کے ادبی ادارے ’’عالمی رابطہ ادبِ اسلامی ‘‘ کی شاخیں ریاست میں موجود ہیں تاہم یہ بھی منظر سے غائب ہے۔ تو کیوں ؟ریاست میں عربی مدارس کا الحمد للہ بہت بڑا جال بچھا ہواہے۔جہاں تعلیم کو سمجھانے اور دینے کے لئے اردو کااستعمال ہوتاہے۔ ان عربی مدارس کے ذمہ داران بھی بتوں کی مانند خاموش کھڑے ہیں ۔ ہائے افسوس کہ شعراء وادباء کی کانفرنس کرنے والے اور مشاعروں کو انعقاد میں پیش پیش رہنے والے ادارے اور اشخاص بھی گونگے ہوچکے ہیں ۔
کیا ان مذکورہ تنظیموں اور اشخاص کے شعور ولاشعور پرریاست میں آنے والے لسانی طوفان نے دستک نہیں دی ہے ؟ یہ لسانی طوفان اگر کامیابی سے گزر جاتا ہے تو حکومتی سطح پر اردو کا ناقابل تلافی نقصان ہوگاجس کا خمیازہ موجودہ نسل بھگتے گی ۔ کانگریس پارٹی نے جس خوبی اور مہارت سے اترپردیش سے اردو اسکولوں کاجنازہ نکالا ہے ، وہی تجربہ آج سدرامیا حکومت میں مبینہ طورپر دوہرانے کی بات بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔ بقول حامداکمل ’’ریاست کرناٹک نے کنڑا داں طبقہ کے لئے مادری زبان کی حیثیت سے کنڑا کو ذریعہ تعلیم بنانے کا جوحکمنامہ جاری کیا تھا اسے سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر کالعدم قراردیا ہے کہ کس بچے کی مادری زبان کیا ہے اور وہ کس زبان میں تعلیم حاصل کرناچاہتا ہے یہ فیصلہ حکومت نہیں کرسکتی بچے کے والدین کرسکتے ہیں ۔ یہ ان کاحق ہے ۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر حکومت نے نظر ثانی کی درخواست دوسری بنچ پر داخل کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے نہ صرف کرناٹک بلکہ لسانی بنیادوں پر تشکیل شدہ ساری ریاستوں میں علاقائی زبانوں کا پہلے درجہ کاموقف خودبخود ختم ہوچکا ہے ۔ یہ حکومتیں اپناکاروبار، مراسلت ، احکامات وغیرہ کی حدتک اپنی علاقائی زبان کو لازمی ذریعہ تعلیم کے طورپرمسلط نہیں کرسکتیں ۔مادری زبان یا کسی اور زبان کے ذریعہ تعلیم کے انتخاب کا اختیار بچوں کے والد ین کا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ حکومت علاقائی زبان کے ذریعہ تعلیم دینے والے مدارس قائم کرسکتی ہے لیکن کسی کو علاقائی زبان کے ذریعہ تعلیم کے طورپر اختیارکرنے پر مجبور نہیں کرسکتی ‘‘
چونکہ کنڑی تنظیموں کادباؤ وزیراعلیٰ سدرامیا پر ہے اور وہ اس ضمن میں بے بس و مجبور ہوچکے ہیں ۔ ایسے میں ’’اردو اسکولوں ‘‘کو بندکرکے ان کی جگہ کنڑا اور انگریزی اسکول قائم کرنے کا نزاعی معاملہ اٹھاکر کنڑی تنظیموں کے جذبات کو قابو میں کئے جانے کی پالیسی مبینہ طورپر اپنائی جارہی ہے۔ یاپھر یہ بات بھی درست ہوسکتی ہے کہ بقول حامداکمل’’تنویر سیٹھ اور این اے حارث کی یہ تجویز احمقانہ ہے اسے کانگریس حکومت کی ساز ش قرار دینا بھی غلط ہے۔ وزیراعلیٰ سدرامیا یا وزیر تحتانوی تعلیم کمنے رتناکر ان خود ساختہ مسلم لیڈروں کی تجویز کو ماننے کی غلطی نہیں کر سکتے ‘‘گوکاک کمیشن رپورٹ زبان حال سے کہتی ہے کہ عرصہ پہلے مادری زبان اردو جاننے والے اور اردو کے شاعر ومبلغ اراکین اسمبلی نے اس رپورٹ پر دستخط کرکے اردو زبان کا حکومت کرناٹک سے سوداکیاتھا۔اور بدلے میں پالی ٹیکنک ، اور انجینئرنگ جیسے ادارے حکومت سے انعام کے طورپر حاصل کئے تھے۔ آج پھر حکومت کے ایماء پر ’’اردو اسکولوں کو بند کرنے ‘‘ کا شوشہ چھوڑکر اردو والوں کو جہاں آزمایا اور ستایاجارہاہے (جس کا سلسلہ 1982 ء سے تاحال جاری وساری ہے) وہیں تنویر سیٹھ اور این اے حارث کو نوازنے کی کوششیں بھی حکومت کی جانب سے ہو سکتی ہیں ۔ اردو داں طبقہ اس کھیل کو سمجھ چکا ہے لیکن اردوداں طبقہ کے اداروں اوردانشوروں کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔
آخری بات یہ کہ ریاستی اقلیتی بہبود کے وزیر بھی خاموش کیوں ہیں ؟ کیا یہ خاموشی پراسرارنہیں ہے۔ ا س واقعہ کو پیش آئے پانچ دن ہورہے ہیں ۔ جبکہ ان کادستوری فریضہ ہے کہ وہ اقلیتوں کی زبان اردو کاتحفظ کریں ۔ اور اس پر آنے والی آنچ کو سب سے پہلے خود محسوس کرتے ہوئے اپنے اقدامات کا اعلان کریں لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہاہے ۔ بقول شاعر جوممکنات میں ہے سو ہے ، چاہتا ہے حریف ہمارے نقش قدم ، رہ گزر بھی کوئی نہ ہو
جواب دیں