مگران اعمال کے جو اصل اوردائمی نتائج ہیں،جن سے اس کا سابقہ آخرت میں پڑے گا،اصل فکر ان نتائج کے بارے کرنا چاہیے اورسارے نیک اعمال،عبادتوں اور اخلاق پر آخرت میں اور مرنے کے بعد اچھے نتائج اسی وقت مرتب ہوں گے جب ان اعمال کو انجام دینے والا اپنی نیت میں انتہائی مخلص ہو،یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبیؐ نے واضح طورپر ارشاد فرمادیاہے کہ’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا،وہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘یعنی تقویٰ اورپرہیزگاری والی ظاہری شکل و صورت عنداللہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی،اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ بندے کی نیت بھی انتہائی شفاف ہو،سورۂ بقرہ آیت نمبر۲۶۴میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خرچ کیے ہوئے مال کوچٹان پرپڑی ہوئی اس مٹی کے مشابہ قراردیاہے،جوبارش کے پانی میں بہہ جاتی ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا،بلکہ اسی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشارتاً ایسے لوگوں کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اللہ کی وحدانیت اور آخرت کے دن پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ظاہرہے کہ جو شخص اپنے نیک عمل میں،جو صرف اورصرف اللہ کے لیے کیاجاتا ہے،کسی اور کو شریک کرلیتاہے اور اسے دکھانے کے لیے وہ عمل انجام دیتاہے تویہ شرک ہی تو ہے ،جو اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ عمل ہے اور اسے قرآن کریم میں’ظلمِ عظیم‘سے تعبیر کیاگیا ہے۔
اعمالِ صالحہ کی انجام دہی میں ریاکاری کس قدر ہلاکت ناک ہے،اس کااندازہ صحیح مسلم کی اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے،جس میں آپؐارشاد فرماتے ہیں کہ’’قیامت کے دن سب سے پہلے تین لوگوں کا حساب کتاب ہوگا،ان میں سے پہلا وہ شخص ہوگاجواللہ کے راستے میں جہادکرتے ہوئے شہید ہوا ہوگااسے اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گااللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے پوچھے گا کہ تونے میرے لیے کیاکیا؟تووہ شخص جواب دے گاکہ میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا اور اپنی قیمتی جان نچھاورکردی۔تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ نہیں،تونے تو جہاد میں اس لیے حصہ لیاتھا کہ تجھے بہادرکہاجائے اور تجھے لوگوں نے بہادرکہا،پس تیرا حساب برابراورپھراسے فرشتے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں پھینک دیں گے۔پھردوسرے شخص کو لایا جائے گا،یہ پڑھالکھا اور دین کا علم رکھنے والا ہوگا،جس نے اپنی زندگی بظاہر دین سیکھنے اور سکھانے میں صرف کی ہوگی،اس سے بھی اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں یاد دلاکر سوال کریں گے کہ تونے میرے لیے کیاکیا؟تووہ کہے گا کہ خدایا!میں نے بڑی محنتوں سے تیرے دین کا اور قرآن کا علم حاصل کیااورپھراس علم کو پھیلانے میں اپنی ساری زندگی صرف کردی،اللہ تعالیٰ فرمائے گا’جھوٹ!‘تونے تو یہ سب اس لیے کیا تھا کہ دنیا والوں کی نگاہوں میں تجھے عزت و احترام اورشہرت ملے،سوتجھے وہ سب چیزیں مل گئیں،اب تو تیرے پاس کچھ ہے نہیں؛لہذا اس عالم کوبھی فرشتے جہنم میں ڈال دیں گے۔اب تیسرا شخص اللہ کے حضور لایا جائے گا،یہ وہ شخص ہوگاجوبڑا مال دار تھا اور مال دارہونے کے ساتھ بڑا دل دار بھی تھا، غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں پر بڑا خرچ کیا کرتا تھا،دوست احباب کو ہدایا و تحائف بھی خوب دیاکرتا تھا،اس سے بھی اللہ تعالیٰ وہی سوال کرے گا،جو پہلے دونوں لوگوں سے کیاگیا تھا اوروہ جواب دے گا کہ خدایا!تونے مجھے مال دو لت دیا تھا،جسے میں تیرے ہی راستے میں خرچ کیا اور بہت سارے خیر کے کام کیے۔اس کے جواب پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آئے گا’جھوٹ!‘تونے تواپنے مال و دولت اس لیے خرچ کیے تھے کہ لوگ تجھے بہت بڑا سخی اورداتا سمجھیں اوردنیا والوں نے تجھے ویساہی سمجھابھی،تیری سخاوت کے بڑے چرچے ہوئے،تجھے تیرے خیرکے کاموں کی وجہ سے بڑے بڑی شہری اعزازات سے بھی نوازاگیا،پس اب تیرے پاس تو کچھ باقی رہانہیں؛لہذااس شخص کوبھی فرشتے گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیں گے۔
اسلام کی نظرمیں شہیدوں،علمااورانفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے لوگوں کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے،ہم سوچ بھی نہیں سکتے،مگر اس کے باوجودان کے عمل میں ریاکاری جیسی صفت کے آجانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سبھوں کے بڑے سے بڑے عمل کوکالعدم کردے گا۔اس کی وجہ کیاہے؟اورریاکاری کا کیامطلب ہے؟ریاکاری کا مطلب ہے کوئی نیک کام اس نیت سے کرناکہ دیکھنے اور سننے والا خوش ہوگا اور اس کی نگاہوں میں قدرومنزلت حاصل ہوگی،جوں ہی یہ خیال دل میں آیا،سمجھ لیجیے کہ آپ نے اللہ کی وحدانیت میں کسی دوسرے اور وہ بھی انسان کو شریک کرلیا،کیوں کہ آپ جونیک عمل کرنے جارہے ہیں،وہ تو دراصل خالص اللہ کے لیے کرنا تھااورمسلمانوں کواچھی طرح علم ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے سارے گناہ معاف کرسکتا ہے،مگر شرک کو معاف نہیں کرسکتا،مسلم شریف (کتاب الزہد) کی ایک حدیثِ قدسی ہے،جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’میں شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں،جس نے کوئی (نیک)عمل کیااوراس میں میرے ساتھ کسی اورکوشریک کرلیاتومیں اس کو اس کے شریک کے ساتھ چھوڑدیتاہوں‘‘ سو اس نیک عمل پر کوئی اجر مرتب نہیں ہوگا،بلکہ الٹے وہ جہنم رسید ہونے کا سبب بن جائے گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا’میں اپنی امت میں شرک سے ڈرتاہوں،صحابۂ کرام حیرت میں پڑگئے اور انھوں نے دریافت کیا،اللہ کے رسول!کیاآپ کے بعدآپ کی امت شرک میں مبتلاہوجائے گی،توآپ نے فرمایا،نہیں وہ شرک میں تومبتلانہیں ہوگی،البتہ میری امت کے کچھ لوگ نیک اعمال دوسروں کو دکھانے کے لیے کریں گے‘۔ریاکاری کا عمل نفاق سے بھی ملتا جلتا ہے،جو اسلام کے نزدیک انتہائی گھناؤنااورناقابلِ معافی جرم ہے،کیوں کہ جس طرح منافق انسان کہتاکچھ اور کرتا کچھ ہے،اسی طرح ایک ریاکارآدمی بھی بظاہرتویہ ثابت کرتا ہے کہ وہ جوکچھ بھی کررہاہے،اللہ کے لیے کر رہاہے،مگر فی الحقیقت وہ بندوں کی خوشنودی کے لیے کرتا ہے اور قرآن میں توباقاعدہ منافقین کی ایک صفت ’ریاکاری‘بھی بتلائی گئی ہے،سورۂ نساء آیت نمبر۱۴۲میں ارشادِ باری ہے’منافقین (اپنے زعم میں)اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالاں کہ خوداللہ نے ہی انھیں دھوکے میں ڈال رکھاہے۔جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں،توبڑی بے دلی کے ساتھ محض لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اوراللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں‘۔ریاکاری یہ بھی ہے کہ آپ کسی کے سامنے کچھ کہیں اور اس کے غائبانے میں آپ اس کے بارے میں کچھ اور رائے رکھتے ہوں،صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن عمرؓکے پاس کچھ لوگ آئے اور انھوں نے کہاکہ ہم لوگ اپنے حکمرانوں کے پاس ان کے جیسی باتیں کرتے ہیں اور جب ان کے پاس سے نکلتے ہیں،توان کے خلاف باتیں کرتے ہیں،توجواب میں حضرت ابن عمرنے فرمایاکہ اس عادت کو ہم لوگ رسول اللہ کے زمانے میں ’نفاق‘میں شمار کرتے تھے۔(صحیح بخاری،کتاب الاحکام)
ریاکاری کی بنیادی وجہ انسان کے اندر پایا جانے والا خود ستائی کا جذبہ ہے،جب تک یہ جذبہ رہے گا،اس وقت آدمی ریاکاری کے سرطان سے بچ نہیں سکتا،آج ہمارے معاشرے میں نیک کام کرنے والے کتنے لوگ ہیں ہی، مگر افسوس ہے کہ ان میں سے بھی بیشتر لوگوں میں ریاکاری و خودستائی کی بیماری پائی جاتی ہے،افرادسے لے کر جماعت تک اس بیماری سے محفوظ نہیں،عالم سے لے کر جاہل تک اس وبال میں مبتلاہیں،عوام سے لے کرخواص تک میں یہ مرض عام ہوتا جارہاہے،ہم ایک تو اچھے کام کرتے ہی کم ہیں اور جوبھی کرتے ہیں،اس کی پبلسٹی کا بھرپورانتظام کرتے ہیں،تاکہ لوگوں میں واہ واہی ہو،شہرت ملے اور دولت حاصل کرنے کے نت نئے مواقع ملیں۔جوشخص جس درجے کاہے،اس کے اندر اسی درجے میں ریاکاری کی بیماری پائی جاتی ہے،طالبِ علم ہے تو استاذ کے لیے ریاکاری کرتا ہے،استاذ ہے تومدرسہ اور اسکول کے ذمے دار کو دکھانے کے لیے اچھاکام کرتاہے،کمپنی کاملازم ہے،تو باس کی مقبولیت حاصل کرنے لیے بہتر پرفارمنس دیتا ہے،عالم ہے،توعوام اورمعاشرے کے بارسوخ لوگوں کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے دین داری اورمذہبیت کا ڈھونگ رچائے پھرتاہے۔ایسا نہیں کہ سارے کے سارے لوگوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے،مگر کیایہ بھی حقیقت نہیں کہ ہم میں سے دوتہائی لوگ ریاکاری کے اس مشرکانہ مرض کے شکار ہیں۔ہمیں اپنے اپنے اعمال اور دل کے احوال کا جائزہ لینا چاہیے اور اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی بھی نیک عمل کرتے وقت ریاکاری کا جذبہ پیدا نہ ہونے پائے،اس جذبے کے بغیراگرآپ کے اچھے کام کی یا آپ کے حسنِ اخلاق و عبادت وغیرہ کی تعریف کی جاتی ہے،توشریعت میں یہ ریاکاری میں داخل نہیں،بلکہ آپ کے لیے آپ کے عمل کے مقبول ہونے کی دلیل ہے اوربڑے اجرکی خوش خبری،توہم بڑااجرپانے کا جذبہ رکھیں،نہ یہ کہ دنیاکی معمولی شہرت ودولت پر آخرت کے اعمال کو ضائع کردیں!
جواب دیں