اعلیٰ ظرف اور اعلیٰ اخلاق کا مالک وہ ہوتا ہے جو رشتہ توڑنے والے سے تعلق جوڑتا ہے عبدالعزیز عام طور پر یہ روش ہوگئی ہے کہ رشتہ کو اگر کوئی توڑتا ہے تو دوسرا بھی رشتہ کو توڑ لیتا ہے یہ کہہ کر کہ جب وہ رشتہ نہیں چاہتا ہے تو کیسے رشتہ کو […]
جن لوگوں کے درمیان کوئی رشتہ توڑنیوالا ہوتا ہے اُن پر رحمت نازل نہیں ہوتی
اعلیٰ ظرف اور اعلیٰ اخلاق کا مالک وہ ہوتا ہے جو رشتہ توڑنے والے سے تعلق جوڑتا ہے
عبدالعزیز عام طور پر یہ روش ہوگئی ہے کہ رشتہ کو اگر کوئی توڑتا ہے تو دوسرا بھی رشتہ کو توڑ لیتا ہے یہ کہہ کر کہ جب وہ رشتہ نہیں چاہتا ہے تو کیسے رشتہ کو باقی رکھا جاسکتا ہے۔ جو لوگ دین سے ناواقف اور لاعلم ہوتے ہیں وہ تو خاموش ہوجاتے ہیں یا اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جس سے اس کو اپنے آپ کو حق ہونے پر یقین ہوجاتا ہے حالانکہ یہ دین نہیں ہے۔ دین یہ ہے کہ رشتہ جوڑے رکھنے کی کوشش کی جائے خواہ دوسرا جس قدر بھی رشتہ کی ناقدری کرتا ہو یا لاتعلقی کا اظہار کرتا پھرتا ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”رشتہ جوڑنے والا وہ نہیں ہے جو تعلق رکھنے والے کے ساتھ برابر کا تعلق رکھے، بلکہ وہ ہے جو رشتہ توڑنے والے سے تعلق رکھے“۔ (بخاری) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ”جو تم سے کٹے اس سے تو جڑو“ یعنی تم بھی اسے کاٹ کر پھینک نہ دو بلکہ ہرممکن کوشش میں لگے رہو کہ رشتہ ناخوشگواری کی بجائے خوش گوار ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتے دار ہیں جن سے میں تعلق جوڑتا ہوں، میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ برباد باری و حلم کاری کا رویہ اپناتا ہوں وہ میرے ساتھ جہالت سے پیش آتے ہیں“۔ آپؐ نے فرمایا ”اگر تم ایسا ہی کر رہے ہو جیسا کہ تم نے بتایا ہے تو گویا تم انھیں گرم راکھ چکھا رہے ہو اور جب تک تم اس حال پر رہوگے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے مقابلے میں تمہارے لئے ایک مددگار رہے گا“ (مسلم) یعنی ایسا شخص جو رشتہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے رشتہ داروں کی بدسلوکی اور بداخلاقی کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اسے اللہ کی مدد حاصل رہتی ہے۔ ظاہر ہے جسے اللہ کی مدد ملتی رہے وہ کتنا خوش نصیب اور کامیاب شخص ہوسکتا ہے۔ ہر کوئی اندازہ کر سکتا ہے جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ دوسرا شخص یا ایسے لوگ جو رشتوں کو پامال کرتے ہیں، توڑتے رہتے ہیں وہ کتنے بدنصیب اور نامراد ہوتے ہیں کہ اللہ ان سے ناخوش اور ناراض رہتا ہے ار اپنی رحمت اور مدد سے محروم کر دیتا ہے۔ رشتوں کی اہمیت اور قدر و قیمت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عملی طور پر مظاہرہ کرکے دکھایا ہے تاکہ ان کو اس کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن اوفیؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ نے فرمایا: ”آج ہمارے ساتھ رشتے داروں سے تعلق توڑنے والا کوئی شخص نہ بیٹھے“۔ مجلس میں سے ایک نوجوان اٹھا اور اپنی خالہ کے پاس گیا، جس سے کچھ ناراضگی تھی، دونوں نے ایک دوسرے سے معافی چاہی پھر نوجوان لوٹ آیا۔ اس کے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان لوگوں پر رحمت نازل نہیں ہوتی جن کے درمیان رشتہ توڑنے والا ہو“۔ (صہبانی) ہر حدیث اللہ کے رسولؐ کا حکم ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ بغیر کسی چوں چرا کے اس پر عمل کرے۔ مضمون کے آخر میں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس میں جس رشتہ توڑنے والوں پر اللہ کے رسولؐ نے صرف ناراضگی یا ناخوشی ظاہر نہیں کی ہے بلکہ جو لوگ ایسے شخص کو اپنے درمیان بیٹھاتے ہیں، اس کی حرکت پر خاموش رہتے ہیں۔ اس سے گھلتے ملتے ہیں۔ ہنستے بولتے ہیں۔ ان پر نہ صرف ناراضگی کا اظہار کیا گیا بلکہ کہا گیا کہ رشتہ توڑنے والے کی موجودگی سے اس کے ساتھ ملنے والے، ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے سب کے سب اللہ کی رحمت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان رسولؐ کا فرمان ہوتا ہے۔ رسولؐ کا فرمان اللہ کا فرمان ہوتا ہے۔ اگر کوئی اللہ اور رسول کے فرمان سے رو گردانی کرتا ہے، اس پر عمل نہیں کرتا ہے، لاپروائی سے کام لیتا ہے تو اسے ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہے۔ یہ ایک ایسی بدنصیبی اور بدبختی ہے کہ ہر مسلمان کو پہلی فرصت میں سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی عبادتوں کو بندوں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے کس طرح تباہ و برباد کر رہا ہے۔ آج مسلمانوں کا معاشرہ غیر اسلامی ہوچکا ہے۔ اس میں دین یا اسلام کی جھلک نظر نہیں آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء، وعظ اور دینی جماعتوں کے افراد سب کے سب صرف وعظ و نصیحت پر زور دے رہے ہیں۔ عملی طور پر جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اسے کرکے نہیں دکھا رہے ہیں۔ اس لئے ایسے بے عمل لوگوں کی باتیں یا تقریریں ہوا میں تحلیل ہوتی جارہی ہیں اور معاشرہ بجائے سدھرنے کے بگڑتا چلا جارہا ہے۔
کیا ہونا چاہئے؟ ہونا یہ چاہئے کہ ہر محلہ میں ایسی اصلاحی کمیٹی ہو جو ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو صاحب ایمان ہوں اور صاحب عمل ہوں وہ محض تقریر و تحریر کے غازی نہ ہوں بلکہ ہر اس شخص اور ہر اس مجلس سے اجتناب کرتے ہوں جس سے یا جہاں اللہ اور رسول کی نافرمانی ہوتی ہو۔ مثلاً نکاح کی ایسی مجلس جس میں جہیز یا لین دین کی بات کی گئی ہو، مطالبہ کیا گیا ہواس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ایسے قاضی جو محض رقم کی وجہ سے نکاح پڑھاکر چلے آتے ہیں، اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کرتے ان سے بھی دور رہنے کی کوشش کی جائے۔ ایسے ولیمے میں بلکہ ہر اس مجلس میں جس میں شاہی خرچ یا فضول خرچی کا مظاہرہ ہو ا سمیں شرکت نہ کی جائے۔ جب ہی شریعت شکنوں اور ان کے ساتھ بیٹھنے والوں کو احساس ندامت ہوسکتا ہے۔
موجودہ معاشرہ کی حالت زار ایسی کیوں ہے؟ آج مسلمانوں کا غیر اسلامی معاشرہ ایسا بے راہ رو اور شریعت شکن ہوچکا ہے کہ جسے اسلامی معاشرہ تو دور کی بات ہے مسلم معاشرہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی اور روگردانی کے نتیجہ میں جو مسلم معاشرہ بربادی اور تباہی کی طرف طوفانی انداز میں چلا جا رہا ہے اس چھوٹے بڑے گناہ کا احساس تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ آج اچھے بھلے شریف لوگوں کے نزدیک چھوٹے گناہ تو چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی نفرت نہیں رہی۔ کبھی ایسا زمانہ تھا کہ اگر پورے محلے میں ایک شخص کسی ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا تھا جسے اخلاقیات کے منافی سمجھا جاتا تھا تو ایسا شخص محلے میں دن دہاڑے نکلنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ رات کی تاریکی میں آتا تھا اور صبح کی روشنی پھیلنے سے پہلے اندھیروں میں نکل جاتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ آج بالکل الٹا ہوگیا ہے۔ برائی کرنے والا محلہ یا بستی میں دندناتا پھرتا ہے۔ لوگ اس سے ہنسی مذاق کرنے میں لطف اٹھاتے ہیں اور مظلوم ظالم کے کرتوتوں کی وجہ سے آنسو بہاتا ہے۔ بدکار یا ظلم کرنے والے کی ایسی ڈھٹائی اور بے حیائی کی وجہ سے معاشرہ بگڑتا چلا جارہا ہے۔ جب تک دنیا میں علماء حق اور صاحب ایمان مسلمانوں کا معاشرہ پر رعب و دبدبہ تھا معاشرہ اسلامی تھا۔ صحت مند اور غیروں کیلئے پرکشش تھا مگر جیسے جیسے علماء حق کی جگہ علماء سو لیتے گئے صاحب ایمان کمزور ہوگئے یا ختم ہوگئے۔ معاشرہ بگڑتا چلا گیا اور آج ایک حد تک بے لگام ہوچکا ہے۔
امام احمدؒ کا یقیں محکم اور عمل پیہم: حضرت امام احمد بن حنبلؒ پر ظالم و جابر بادشاہوں نے ہر طرح ظلم و جبر کو روا رکھا مگر امام صاحب کے عزم و ہمت کبھی بھی متزلزل نہ ہوئے۔ وہ ہر سرکشی اور جابرانہ اقدام کے خلاف چٹان بن کر ڈٹے رہے۔ آج جب بھی ان کے حالات پڑھتے ایک نئی زندگی ایک نیا ولولہ ایک نیا جوش پیدا ہوتا ہے۔ تین بادشاہوں سے ظلم سہا، تیسرا بادشاہ گزرا، متوکل کا دور آیا، امام کو رہا کیا، معافی مانگی، عزت و تکریم سے جیل سے نکالا۔ گھر میں عزت و تکریم سے بھیجا، احسان کیا، تین بادشاہ مار رہے تھے اس نے نہ صرف رہا کیا بلکہ عزت و تکریم سے رہا کیا، معافی مانگی، امام اپنے گھر چلے گئے، متوکل کے دل میں خیال تھا کہ امام شکریہ ادا کرنے میرے پاس آئیں گے، امام نے پلٹ کے دیکھنا گوارہ نہیں کیا، آخر انتظار کرکے ایک دن پیغام بھیجنے لگا کہ میرے دربار میں آؤ، ماں نیک عورت تھی۔ متوکل سنو! تو دنیا کا بادشاہ ہے لیکن احمد ابن حنبل آخرت کا بادشاہ ہے، اس کو ہرکارے کے ہاتھ پیغام نہ بھیجو، کہا، ماں! میں تو اس کو راضی کرنا چاہتا ہوں، چاہتا ہوں ایک دفعہ میرے گھر میں آئے، میرے لئے دعا کرے، میرے گھر میں برکت نازل ہوجائے، کہا پھر ملازم کو نہ بھیجو، بھیجنا ہے تو اپنی ماں کو بھیجو، احمد ابن حنبل کی بارگاہ میں متوکل نے اپنی ماں کو بھیجا، ماں اس فقیر کے دروازے پہ آئی، وہ فقیر جس کو نہ چار بادشاہوں کی بادشاہت مرعوب کرسکی نہ بادشاہ کی ماں کی ترغیب مرعوب کرسکی۔ تین بادشاہوں نے ڈرا کے دیکھا، پاؤں میں لغزش نہ آئی، بادشاہ کی ماں خود دروازے پہ دستک دیتی ہوئی آئی تب بھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، بیٹا عبداللہ اندر جا کے خبر دیتا ہے بابا بادشاہ کی ماں آئی ہے اور بادشاہ کسی چھوٹے سے ملک کا نہیں، ساری اسلامی مملکت کا ایک بادشاہ، عرب سے لے کر عجم تک، شام سے لے کر روم تک، یونان سے لے کر سندھ تک، ایک بادشاہ اسلامی دنیا کا حکمراں تھا، کہا بادشاہ کی ماں آئی ہے۔ احمد بن حنبل نے اپنی نگاہ اٹھائی، فرمایا جاؤ، اس سے پوچھو، کیا کہتی ہے؟ کہا بابا آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ کہا بلالو۔ بادشاہ کی ماں آئی اور ادب سے سلام کیا، پردے کے پیچھے بیٹھی کہنے لگی امام صاحب میں اپنے بچے کی طرف سے معافی مانگنے آئی ہوں، ہاتھ دعا کیلئے اٹھائے، کہا میں معافی دینے والوں کون ہوں، اللہ تیرے بیٹے کو معاف کرے، اب کیا کہتی ہے؟ کہنے لگی امام صاحب ایک دن میرے بچے کے گھر تو آجاؤ، ہائے ہائے، امام کا بیٹا عبداللہ کہتا ہے، میرے باپ کی مار کھاتے کھاتے کمر جھک گئی لیکن میں نے اپنے باپ کے چہرے پہ کبھی زردی نہیں دیکھی، کوڑے پڑ رہے ہیں، چہرہ تنا ہوا ہے، چہرہ تنا ہوا ہے، بوڑھا ہوگیا ہے اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ مار کھا کھا کے اتنے دبلے، اتنے پتلے ہوگئے کہ ہوا چلے تو اس میں اڑ جائیں، اتنے کمزور تھے، کہا مارپڑی، کوڑے پڑے، کبھی چہرے کا رنگ بدلا، جب بادشاہ کی ماں نے کہامیرے بیٹے نے تجھ کو اپنے محل میں بلایا ہے، امام کا چہرہ بدل گیا، خاتون نے پوچھا امام جواب نہیں دیتے؟ آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمایا میں اس گھر میں کیسے جاسکتا ہوں جس گھر میں رب کی نافرمانی ہورہی ہو؟ اس گھر میں کیسے جاؤں؟ ماں تڑپ اٹھی، کہنے لگی میں نے اپنے بیٹے کو کہا تھا معاف کردو، کہا معافی اور بات ہے، رب کی نافرمانی اور بات ہے، دعا مانگتا ہوں لیکن اس گھر میں نہیں جاتا۔ ماں مایوس ہو کر پلٹ گئی، متوکل تڑپ اٹھا، کہنے لگا ماں ایک دفعہ بلالو، میرے گھر نہیں آتے، اپنے ہی گھر بلالو۔ امام ابن کثیرؒ نے لکھا، ماں مجبور ہوکر پھر گئی، کہنے لگی میرے بیٹے کے گھر نہیں آتے، بادشاہ کے محل میں نہیں جاتے تو میرے گھر تو آجاؤ، بہت مجبور کیا، منتیں خوشامدیں کیں، گھر والوں نے بھی آمادگی کا اظہار کیا، امام مان لو، یہ بڑھیا ہے، عقیدت سے بلاتی ہے، امام چل پڑے، عورت نے اپنے بیٹے کو خبر دی، انواع و اقسام کے کھانے لے کے اپنی والدہ کے گھر میں امام کی بارگاہ میں حاضری دینے کیلئے آیا، کھانے کا وقت ہوا، امام کے سامنے کھانا رکھا، اللہ اکبر۔ احمد کا بیٹا عبداللہ ساتھ ہے، ارشاد فرمایا جب کھانا رکھا گیا میرے باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے، اپنے چہرے کو اٹھایا، خاتون کو مخاطب ہوکے ارشاد فرمایا، امام کھانے کو اٹھالو، احمد بن حنبل نے تیرے گھر میں قدم رکھنے سے پہلے روزے کی نیت کر لی ہے، اس گھر میں کھانا بھی گوار نہیں، یہ لوگ تھے اور پھر امام ابن کثیر نے لکھا ہے اور میں اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ آج امام احمد کو بارہ سو سال گزر گئے، اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں آج تک کسی شخص کا اتنا بڑا جنازہ نہیں ہوا جتنا احمد بن حنبل کا ہوا، آج کا زمانہ ٹیلی ویژن کا، ریڈیو کا، ٹیلیفون کا، اخبارات کا، وائر لیس کا،انٹرنیٹ اور موبائل کا زمانہ ہے، پل بھر میں ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ اور پل بھر میں ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں، آج تک کسی بادشاہ کا، کسی بڑے سے بڑے آدمی کا اتنا بڑا جنازہ آسمان سے نہیں دیکھا جتنا بڑا جنازہ احمد ابن حنبلؒ کا دیکھاتھا، امام ابن کثیر جیسے ثقہ آدمی نے لکھا کہ لوگوں نے امام احمد بن حنبل کے جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد کو گناہ، وہ لوگ جن کا گنا جاسکا اور جن لوگوں نے چھتوں پر دجلہ کے اندر کشتیوں پر، امام کا جنازہ پڑھا ہے ان کی تعداد کو گنا نہیں جاسکتا۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 16/ جنوری 2020 ادارہ فکروخبر بھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں