مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
صلہ رحمی اور رشتوں کے احترام کی تاکید اسلامی احکام کااہم حصہ ہے،بھائی بہن، شوہر بیوی، والدین، پیٹے، بیٹیاں اور دوسرے اعز واقربا کے سلسلہ میں ہمیں یہ احکام یاد بھی رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مغرب کی طرح یہاں خاندان ٹوٹتے بکھرتے نہیں ہیں، اور دور دراز کے رشتوں کو بھی یاد رکھا جاتا ہے، یقینا ہمارے یہاں بھی اس معاملہ میں کمی آئی ہے، لیکن ہم نے مغرب کی نقالی میں ان تعلقات کو ابھی پیچھے نہیں چھوڑ رہے، یہ ایک اچھی بات ہے اور اس کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے یہ اسلامی تقاضہ بھی ہے، اور ایمانی مطالبہ بھی۔
ان رشتوں کے علاوہ بھی ایک رشتہ ہے، یہ رشتہ ہندوستان کی دیگر اقوام وملل کے ساتھ مسلمانوں کا ہے، ان رشتوں کے بارے میں بھی ہمیں حساس ہونے کی ضرورت ہے، ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں دیگر مذاہب کے جو لوگ ہیں، یا جو خدا بیزار ہیں، کسی دین کو نہیں مانتے ہیں، ان تمام سے بھی ہمارا رشتہ بھائی بھائی کا ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تمام انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور ہم سب کے جد امجد حضرت آدم ہی ہیں، یہ رشتہ ایک دوسرے کے تئیں انسانی ہمدردی، ایک دوسرے کی معاونت اور مشترکہ معاملات میں رواداری پر مبنی ہونا چاہیے، ہم ایک ایسے سماج میں ان رشتوں کو پروان چڑھائے بغیر زندگی نہیں گذار سکتے جہاں ہمیں ہر ہر قدم پر دوسرے مذاہب والوں ساتھ ہے، اس معاملہ میں بقائے باہم کے اصول کو سامنے رکھنا چاہیے، ظلم وستم کی گرام بازاری سب کے یہاں نا پسندیدہ، حق مارنا سب کے یہاں مذموم اور نا پسندیدہ ہے، سیرت مبارکہ میں ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اس کے لئے واضح اشارات موجود ہیں، حلف الفضول اور میثاق مدینہ کی بنیاد پر غیر مسلموں سے تعلقات استوار کرنا چاہیے ان کی خوشی وغمی میں شرعی حدود کو سامنے رکھ کر شریک ہونا چاہیے، اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ اور تریج واشاعت میں ان کو ساتھ لینا چاہیے اس سے غیر مسلم سماج کے دلوں سے ان وساوس اور خدشات کو دورکیا جا سکے گا جو فرقہ پرست لوگوں نے غلط طور پر ان کے ذہن ودماغ میں ڈال رکھا ہے۔
یہ تعلقات استوار ہوں گے تو ان لوگوں سے جو ہمارا دوسرا رشتہ داعی اور مدعو کا ہے، اس رشتے کو حقیقت کا روپ دنیا ممکن ہو سکے گا، واقعہ یہ ہیکہ مسلمان ایک داعی قوم ہے اس کی ذمہ د اری ہے کہ وہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہونچا ئے۔ انہیں بتائیں کہ زندگی گذارنے کا وہی طریقہ مکمل ہے جو اللہ کے رسول نے ہمیں بتایا ہے، دنیا کے تمام مسائل ومشکلات کا حل اسلام میں موجود ہے، ظاہر ہے دعوت کے اس کام کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے دل میں مدعو قوم کے لیے محبت کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر موجزن ہو، ہم ان سے نفرت نہ کریں اس لیے کہ کفر مرض ہے، وہ قابل نفرت ہے، لیکن مریض قابل نفرت نہیں ہوتا، ایک اچھے ڈاکٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مریض سے نفرت نہ کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدعو قوم سے اس قدر محبت کرتے تھے انہیں ایمانی راستے پر لانے کے لیے اتنا کڑھتے رہتے تھے۔ قلب مبارک میں ایسی درد وکسک تھی کہ قرآن نے اس کا نقشہ کھینچتے وقت کہا کہ کیا آپ اپنے کو ہلاک کر ڈالیں گے اگر وہ قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے داعی کے دل میں جب ایسی تڑپ مدعو کے بارے میں پیدا ہوتی ہے تو دعوت کا کام آگے بڑھتا ہے، ہندوستان میں دعوت دین کے بڑے مواقع ہیں، تکثیری سماج کے ظلم وستم سے پریشان دلتوں، ہریجنوں اور کمزور طبقات بلکہ یہاں کی اکثریت کو اس پیغام ربانی کی ضرورت ہے، جو انسانی مسائل کے حل کی اس دنیا میں اول وآخر شکل ہے، مدعو اقوام وملل سے ہماری دوری دعوت کے اس امکانات کو ختم کر رہی ہے، دوریاں بڑھ رہی ہیں، مجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ مٹھی بھر لوگ ہندوستان میں ایسے ہیں بقیہ رشتوں کی پہچان ……جو نفرت کی فصل کاٹنے پر یقین رکھتے ہیں، وہ یہاں کی تہذیب وثقافت اور گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور دن بدن ان کے اثرات بڑھ رہے ہیں، ان کے بڑھتے اثرات کو روکنا وقت کی ضرورت ہے، اس کی اہمیت یہاں کے دستور وقوانین کے تحفظ کے نقطہئ نظر سے بھی ہے، ہندوستان کی بڑی آبادی اس کام میں ہمارا ساتھ دے سکتی ہے، شرط ہے کہ ہم ان رشتوں کو جانیں پہچانیں اور عملی طور پر اس کو برتیں، بھائی چارے اور امت دعوت کے رشتہ کو دوسرے سارے رشتوں کی طرح پائیدار بنائیں، ہمیں اس کے لیے اپنی جد وجہد تیز کرنی چاہیے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں