ربعی بن عامر اور ہمارے قائدین

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

تیس ہزار مسلم فوجوں نے قادسیہ کی جنگ میں ساٹھ ہزارفارس کے جنگجووں کو پانی پلا رکھا تھا۔بڑی تعداد میں گھوڑوں، اسلحوں اور پیادہ فوجوں کے علاوہ جنگی تربیت یافتہ تیس ہاتھیوں کا لشکر بھی شامل تھا۔ یہ بات ہے چودہ ہجری کی جب مسلمانوں کے اندر دنیا کی محبت اور عیش وعشرت کی چاہت نہیں تھی۔ جب دنیا کی محبت نہیں تھی تو دنیا ان کے سامنے جھکتی تھی۔ آخرکار جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ اس کے سپہ سالار سعد بن وقاص تھے۔ فارس کی فوج کا سپہ سالار رستم تھا، اس نے سعد بن وقاص کے پاس بات چیت کے لئے پیغام بھیجا، چنانچہ ایک وفد ربعی بن عامر کی قیادت میں رستم سے بات چیت کرنے پہونچا۔ربعی بن عامر جب اس کے دربار میں پہونچے تو انھیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ انھوں نے کہا: آنے کی دعوت آپ لوگوں نے دی ہے، میں جیسے آنا چاہتا ہوں ویسے آنے دیں ورنہ میں واپس جاتا ہوں،رستم نے ان کو اپنے اسلحہ کے ساتھ اندر آنے کی اجازت دے دی۔ انھوں نے اپنے گھوڑے کی لگام سونے سے مصقع کشن سے باندھی اور زمین پر بیٹھ گئے۔ رستم نے جب حیرت کا اظہار کیا تو گویا ہوے۔ ہمیں زینت پر بیٹھنا پسند نہیں۔ پھر وہ مشہور تاریخی جملے جو ان کی زبان سے نکلے آج بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہیں۔ کہ اللہ تعالی نے ہمیں بندوں کی غلامی سے خدائے واحد کی بندگی کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیجا ہے۔
وہ کون سی طاقت تھی جو ایک ادنی مسلم سپاہی کو اپنے وقت کے بادشاہ کے سامنے یہ جرات عطاکرتی تھی۔وہ کون سی خود قوت تھی جو ایک معمولی سپاہی کو اپنے وقت کے جبروت کے سامنے یہ خود اعتمادی اور ہمت عطا کرتی تھی۔ کچھ تو بات تھی جو کسی کے سامنے جھکتے نہیں تھے۔
آج کتنے علماء اور قائدین کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے سامنے بچھے چلے جاتے ہیں، مسلمانوں کے کتنے ایسے رہبر اور رہنما ہیں جو کرسی گنوانے کے خوف اور جاہ وعزت کے کھونے کے ڈر سے زبان بند رکھتے ہیں۔ کتنے ایسے مسلم دانشور اور مفکرین ہیں جن کو جیل کی تاریک کوٹھریوں اور قید وبند کی کی تنہائیوں سے اتنا ڈر لگتا ہے۔کہ وہ حق اور انصاف کے لئے  لب کشائی تو دور وقت کے فرعون کے سامنے سجدہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔  اور ان سب سے بڑھ کر کتنے رہنما اور لیڈر ایسے بھی ہیں جو ایک معمولی عہدہ کی خاطر اپنی قوم تک کا سودا کرنے سے نہیں چوکتے۔ اس پر طرہ یہ کہ خود کو قوم کا ہمدرد اور بہی خواہ ثابت کرنے کے لئے نت نئے  تماشے بھی کرنے سے نہیں شرماتے۔
ایک وہ عالم تھے جن کو کوڑے مارے گئے مگر وہ حق کہنے سے باز نہیں رہے۔ ایک وہ عالم تھے جن کو جیل کی تاریک کوٹھریوں میں ڈھکیل دیا گیا وہاں انھوں نے اپنی قسمت اور بے سروسامانی کا رونا نہیں رویا۔ بلکہ قرآن پاک کی ایسی تفسیر لکھ ڈالی جو امت اسلامیہ کا قیمتی اثاثہ ہے۔  ایک وہ عالم دین تھے جن کے کاندھے بھرے بازار میں اکھاڑ دیے گئے مگر حق کا ساتھ انھوں نے نہیں چھوڑا۔
دنیا اور دنیاوی جاہ ومنصب کی لالچ جب دل میں سما جاتی ہے اور عہدوں اور کرسیوں کی ہوس جب قلب میں جڑ پکڑ لیتی ہے تو پھر ایک مومن اپنے ایمان کا سودا کرنے، اپنی قوم کو بیچنے اور اپنے وقت کے طاغوت کے سامنے جھکنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ وہ چھوٹے چھوٹے عہدوں کو فخرومباہات کا ذریعہ سمجھنے لگتا ہے اور اس پر جشن منانے لگتا ہے۔  ربعی بن عامر کا دل اور جگر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ دنیا کے جاہ ومنصب کو ہیچ سمجھتے لگتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔

 

«
»

آزادی کے 75 سال: جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار… شاہد صدیقی (علیگ)

حج کی ادائیگی __ لمحہ بلمحہ دم بدم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے