یوم جمہوریہ کاحقیقی پیغام: ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیوں کو بھی ہزاروں سلام

 

از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

عربی لیکچرار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد

            چھبیس جنوری ہمارے ملک میں جمہوری آئین کے نفاذ کاوہ علامتی دن ہے، جس دن ملک میں جمہوری نظام کاباضابطہ آغاز ہوا، ملک کے بڑے بڑے سورماؤں کے مشوروں سے ڈاکٹر امبیڈکر، دیگردانشوران عظام اوررہنماؤں نے ایک ایسا آئینی مسودہ تیار کیا،جسکا سرورق ہی اس حسین جملے سے مربوط ہیکہ ''ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ بھارت ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے،جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادیئ خیال، اظہار رائے، آزادیئ عقیدہ ومذہب اور عبادات کا اختیار، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سا  لمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے'' تو اندرون کتاب دستور کا کیا حال ہوگا،انہی بنیادی اصولوں کاداعی اورگنگاجمنی تہذیب کے فروغ وترویج کانام ہی"آئین ہند یاجمہوریہ ہندوستان" ہے، جو چھبیس جنوری ۱۹۵۰ء کو ملک کی مایہ نازہستیوں کی نگرانی اورسرپرستی میں نافذ ہوا، جن کی سوچ وفکر اورعلم وادب کا دنیا سمان کرتی ہے،ہم تواپنے رویے اور کردار کیوجہ سے انکے شاگردکہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں!بلکہ انکے منشا اور مرضی پرپانی پھیرتے جارہے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس انکی قربانیوں کی داستانیں ہیں،افکار ونظر یات ہیں،مسلسل۷۲سال سے دستور وآئین کی عظیم کتا ب ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہرسال چھبیس جنوری کو اسی دستوری نظام کارہرسل ہوتا ہے اوراسکو قومی تہوارکے طور پر مناتے ہیں،مگر ہمارا جذب اندروں ان اوصاف وکمالات سے یکسر خالی ہے، نعمت تو ہے مگر اسکی قدر و وقعت نہیں ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہمارا رویہ رہا اورباوجود تنبیہ و استحضار کے ہمارا کردار جمہوری نہیں رہا توبہت اندیشہ ہے کہ خدا اس سرسبز شاداب سرزمین اورغافل بندے اوراہل وطن سے خدا ان نعمتوں کو چھین نہ لے جو آج ہمیں تنوع اور تکثیریت کی شکل میں میسرودستیاب ہیں، متعدد قومیں،رنگ برنگ کی تہذیبیں،مختلف بولیاں،آرام وآسائش کی چیزیں، عیش و عشرت کے سامان یہ سب قدرت کے انعامات ہیں،جسکی قدردانی جمہوری دستورپرچلے بغیرنہیں ہوسکتی،اسلئے کہ یہاں سب کے اپنے اپنے تہوارہیں،سب کے اپنے مذہب و طریقے ہیں، جس پر وہ اپنے لحاظ سے عمل پیرا ہیں، جوش وخروش اور جذبہ حب الوطنی کے ساتھ اپنے تہوار مناتے ہیں، ہم یوم جمہوریہ اور آزادی کے دن کے قومی تہواراور اسکے دستور واسٹیج سے اخوت ومودت اور یکجہتی و یگانگت اوررواداری وبھائی چارے کی یقین دہانی کراتے ہیں، فرقہ پرستی کی بالادستی کا ہر طورسے انکار کرتے ہیں اور اسی بات کاپورے ملک میں جوش و خروش دیکھا جاتا ہے، جس میں ہندومسلم اور سکھ عیسانی سب شامل وشریک ہوتے ہیں، ملک کی راجدھانی میں متعدد صوبوں سے جھانکیاں آتی ہیں،جو مجاہدین آزادی، مختلف ریاستوں کی خوبیوں اور اچھائیوں کی یاد تازہ کرتی ہیں، فوجی پریڈ بھی ہوتے ہیں، سب اپنے قومی ترنگے کو سلام کرتے ہیں نیز سب آئین ودستور میں اپنے اعتماد وبھروسہ کا اظہار بھی کرتے ہیں،یکجہتی ورواداری کاعہد وپیمان بھی تازہ کرتے ہیں،اسی طرح ہم اندنوں میں اپنے ماضی کامحاسبہ اورمستقبل میں سب کا ساتھ سب کا وکاس بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے تحفط و بقا کاعزم وحوصلہ کا ایندھن حاصل کرتے ہیں اورسال بھر سب کے ساتھ عدل وانصاف کا سلوک وبرتاؤ کرتے ہیں۔مگر کیا ہم ان باتوں کا پاس و لحاظ کرتے ہیں اور اس دستور کے مطابق سب کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔

            جسکے لئے ڈاکٹر راجیندر پرساد اور انکے رفقاء نے بڑا جتن کیا تھا، ڈاکٹر صاحب چونکہ اس دستور ساز کمیٹی کے صدربھی تھے، سب سے پہلے اس دستورکومنظوری دی اور وہ ملک کامستقل دستور و آئین متعین ہوگیا، اسی دن کو ہم یوم جمہوریہ یعنی دستور کے نفاذ کا دن کہتے ہیں، جس دن ڈاکٹر راجیندر پرسادنے ملک کی صدارت کافریضہ انجام دینے کیلئے سب سے پہلے حلف اٹھایاتھا اور ملک کے پہلے جمہوریت نواز صدرکے طور پرمنتخب ہوئے تھے، دستور کے اس نسخہ اور مسودہ کو ملک کے ارباب اقتدار اور عوام وخواص نے نہ صرف پسند کیا، بلکہ اپنی تائیدوخوشی اورجوش وخروش سے اسکے مطابق جینے اور مرنے کا عزم مصمم کیا اور اسکواپنا منظور قلب اور محبوب نظر بنایا، آج ملک کے ارباب ووزراء اسی دستور پر ہاتھ رکھ کر اسکے مطابق حکمرانی کرنے کا حلف اٹھاتے تو ہیں،مگر ان اصولوں پر سوفیصد عمل درآمد مفقود نظر آرہا ہے تو بہت حیرتناک بات ہے حالانکہ برادران وطن کیساتھ ساتھ ملک کے چاروں ستونوں:عدلیہ،انتظامیہ، مقننہ اورمیڈیا کا دستور وآئین پر کاربندرہنا ہی ملک کی سلامتی اور اسکی ترقی کا ضامن ہے اوراسکے بغیر نہ تویوم جمہوریہ اور نہ ہی یوم آزادی اورملک  کے دستور وآئین کا حق ادا ہوسکتا ہے۔

             کیونکہ آج اسی دستور کیوجہ سے پوری دنیا میں ہماری یکجہتی و یگانگت اور اخوت ومودت کی مثال قائم ہے،ہندوستانی آئین کے نٖفاذ وقیام کا اسی دن پورے عالم میں ڈنکابجا اور یہ مشہور ہوا کہ ہندومسلم اورسکھ عیسائی اب بھائی چارے، مذہبی آزادی، رواداری اوراتحاد واتفاق کی قوت وطاقت کیساتھ اس ملک میں اپنی اپنی زندگی گزاریں گے اور تعمیر وترقی کے میدان میں سب برابر کے ساجھی بنے رہیں گے، کوئی طاقتورطبقہ کسی کمزورطبقے پر ظلم وستم نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کی حق تلفی وناانصافی کی اجازت دی جائے گی، چھبیس جنوری کا دن اسی سنہرے اصول وضوابط کی یاددہانی کراتا ہے اور احتساب واصلاح کی ہمیں دعوت بھی دیتا ہے، پورے ملک میں ہر سمت اس قومی تہوار کی خوشی و مسرت کاقابل دید نظارہ ہوتا ہے، ہربام ودر پراخوت ومودت کے ترنگے لہلہاتے ہیں،ہر سوعمارتوں پرمحبت والفت کے دیپک جلائے جاتے ہیں،بھارت کی اس سرزمین پرشانتی اور اہنساکابگل بجایا جاتا ہے۔ اس دستور کی بالادستی کیلئے ملک میں نہ صرف ہندواورمسلمان ہی خوش ہوتے ہیں بلکہ گنگا سمیت ملک کی عوام بھی یہ مشہور نظم دہراتی ہیکہ''مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیررکھنا۔۔ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا'' تو دوسری طرف جمنابھی اپنے من میں یوں گنگناتی ہے کہ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا''تو کسی کے منہ پریہ شعر''میرا نشاں یہی ہے، میرا جہاں یہی ہے۔ جنت مری یہی ہے، میرا مکاں یہی ہے''۔جاری رہتا ہے۔

            یوم جمہوریہ کی مناسبت سے ہم جہاں برادران وطن کو مجاہدین آزادی کی قربانیوں سے روشناس کراتے ہیں، وہیں ان شہداء کوبھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں،جنہوں اس ملک کی آزادی میں اپنا بلیدان پیش کیا تھا اور اپنی بہادری کا لوہا منوایاتھا مگر عام طور پرملکی سطح پر یہ چلن عام ہوتا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی ان عظیم قربانیوں اور قائدانہ کردار کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا بلکہ اسمیں بھی بھید بھاؤ، مسلمانوں سے پرخاش اورنفرت وعداوت کا معاملہ روا رکھا جاتا ہے، حالانکہ ان جیالوں کے تذکرے کے بغیرنہ صرف یوم جمہوریہ بلکہ ملک کی آزادی کی تاریخ ادھوری اور نکمی معلوم پڑتی ہے،جنہوں نے انگریزوں کی غلامی واسیری اور ان کے رحم وکرم پر زندہ رہنے کے بجائے موت وشہادت کو ترجیح دی اور ببانگ دہل یہ تاریخی جملہ کہا کہ ''گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی ہے'' جنکی قابل رشک شہادت اورانکی نعش پر کھڑے ہوکر بے انتہا خوش ہوتے ہوئے ایک انگریزجرنل نے کہا تھا کہ''آج سے ہندوستان ہمارا ہے''، ہندوستان کی تاریخ نے سلطان ٹیپو سے بڑھ کر بلندپایہ لیڈر، بالغ نظر شخصیت، مذہب ووطن کے سچے فدائی اور غیرملکی اقتدار کا اولین وعظیم دشمن نہیں دیکھا،جوبڑا غیورفرمانروا اورجنگ آزادی کاصورپھونکنے والاقائد ورہنما تھا، اسی لئے انگریزوں کے نزدیک ٹیپوسلطان سے زیادہ مہیب اور قابل نفرت کوئی شخصیت نہ تھی،انکی عظیم شخصیت کا لوہا مانتے ہوئے''گاندھی جی نے ینگ انڈیا کے ایک مضمون میں سلطان ٹیپو کی حب الوطنی اور رواداری کا کھل کر اعتراف کیا اورکہا کہ وطن اور قوم کے شہیدوں میں ان سے بلندمرتبہ کوئی نہ تھا''، مگر انکے اور دیگرانصاف پسندارباب اقتدار اوراہل علم ودانش کے اعتراف واقرار کے باوجود عام طور پر مسلمانوں کی مثالی اور عظیم قربانیوں سے ملک میں اب چشم پوشی برتی جارہی ہے!جن کا برسرعام تذکرہ نہ کرنا ایک طرف ہندوستانی مسلمانوں کی عظیم قربانیوں اور ملک کی آزادی میں انکے ممتاز ونمایاں کردار ورول کیساتھ حق تلفی و ناانصافی کا مظاہرہ ہے! بلکہ اب توبڑی حد تک انکی تاریخ کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا جارہا ہے! جوبڑی احسان فراموشی،بزدلی اورمحرومی کی بات ہے حتی کہ یوم جمہوریہ اور آزادی کے عظیم اور قومی تہوار کے دن بھی برادرا ن وطن کو مسلمانوں کی ان قربانیوں سے نابلد رکھا جاتا ہے اور اسکول کے نصاب سے بھی وہ تمام علامات وشواہد مٹائے جارہے ہیں۔

جسکے نتیجے میں مسلمانوں کی بیش بہا تاریخ سے مانوس ہونے کے بجائے براداران وطن ان سے متنفر ہوتے جارہے ہیں، شرپسند عناصر کو چشم پوشی کے اسی سوراخ سے وہ موقع ملتا ہے جنکے ذریعہ وہ عظیم کردار کے حامل ٹیپو سلطان اور دیگر مسلم بادشاہوں اوراب مسلم آبادی سے لوگوں کو گمراہ کرتے نظر آرہے ہیں، جبکہ ٹیپوسلطان تو قوم پرست اورمحب وطن تھے،جنہوں نے انگریزی حکومت واقتدار کے متکبرانہ رویے، دولت کے استحصال،برادران وطن کے مذہبی عقائدو جذبات سے کھلواڑ اور انکی گندی پالیسیوں اور ناپاک عزائم کویکسر گوارہ نہ کرتے ہوئے سب سے پہلے انکے خلاف جنگی مہم شروع کی اورکئی بار انگریزوں کو شکست فاش بھی دی، اسی طرح دہلی کی جامع مسجد سے علما ومفتیان نے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے جہاد کافتوی صادر کیا اور انکے خلاف علم جہاد بلندکیا، ادھر شمالی ہند میں بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں مولوی احمد اللہ شاہ اور انکے رفقاء نے وہ نمایاں کردار ادا کیا،جن کی اولوالعزمی اور بہادری کا اعتراف خود انگریزوں نے کیا، انگریزوں کی غلامی سے آزادی چاہتے ہوئے لاکھوں ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں نے اپنی قربانیوں کالامتناہی سلسلہ قائم کیا اور اپنے خون وپسینہ کا وہ بیش قیمت نذرانہ پیش کیا،جس سے بخوبی اندارہ ہوتا ہے کہ اگر ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا حصہ قدرتی طور پر بہت ممتاز اور نمایاں نہ ہوتا توملک اب تک انگریزوں کا غلام بنارہتا،اسلئے مسلمانوں کے بہترین قائدانہ اورمثالی پارٹ کابرسرعام ذکر کرنا انصاف کا تقاضہ ہے اور انکو برابر حق دینا ارباب اقتدار کافریضہ ہے۔مگر موجودہ دور میں مسلمانوں کے خلاف جو تاثرات دیکھے جارہے ہیں اورکھلے فسادات وواقعات کی جوداستانیں سامنے آرہی ہیں ان سے ملک، ارباب اقتدار اور دستور وآئین کی سراپا توہین ہے۔ مسلمانوں کی عظیم قربانیوں کی حق تلفی و ناانصافی ہے۔

کیونکہ مسلمانوں کی انہی قربانیوں کے نتیجے میں بالآخرہمارا ملک آزادہواہے۔اسی وجہ سے انگریز اخیر دم تک مسلمانوں سے جلتے رہے، انکا بدخواہ بنے رہے، انکا قتل عام کرتے رہے،انکو گولیوں سے بھونتے رہے،انکو نسلوں کو تباہ وبرباد کرتے رہے، ہزاروں علما کو پھانسیوں پر چڑھاتے رہے،سرکاری ملازمتوں سے انکومحروم کرتے رہے، جاتے جاتے ہندومسلم نفرت وعداوت اور بھیدبھاؤ کا بیج بوکر چلے گئے۔جسکے اثرات ونتائج آج ہمارے سامنے ہیں، کرونائی حالات کے باوجود بھی تاناشاہی والی پالیسیاں، دستور مخالف قوانین مسلمانوں، انکے دین وشریعت اور دستور و آئین کے خلاف نہیں تو اورکیا ہیں؟ کیا یوم جمہوریہ اس بات کا متقاضی نہیں؟ کہ مسلمانوں سے نفرت و عداوت کے تمام دروازے بندکردئے جائیں؟شرپسند عناصراور تنگ نظر افراد کو دستور و آئین شکنی کے الزامات میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئے جائیں؟مسلمانوں کے خلاف کھلے عام ظلم وستم اور حق تلفی وناانصافی کرنے والے عناصر کا خاتمہ کیا جائے؟ سب کوبھائی بھائی بنا کر ملک کی تعمیر وترقی میں سب کوبرابری کا درجہ دیا جائے؟ تاکہ ہرسمت چھبیس جنوری مسکراتی نظر آئے، سب کے چہرے پر خوشی لائے، سب کے دلوں کو بھاتی نظرآئے،سب کو شان وطن دکھاتی نظرآئے، جنتا کا دل بڑھاتی نظر آئے، پھولوں سے چاروں سمت رستے سجائے، ہندومسلم اور سکھ وعیسائی کو بھائی بھائی بنائے رکھے، آپسی اتحادکو پروان چڑھائے، آئین کے ذریعے سب کو مساوات کا درس سکھائے، جمہوریت کے نام کا ہرجگہ ڈنکا بجائے، دلی میں جہاں ساری ریاستوں سے جھانکیاں آتی ہیں وہاں مسلمانوں کی قربانیوں کی بھی جھانکیاں دکھائی جائے تاکہ ملک کی جمہوریت بحال ہو، اسکی شان مزید بلند ہو اوربرادران وطن کے اندرمسلمانوں کے تئیں احساس ہمدردی پیدا ہو اور محبت واخوت کے جذبات کا حقیقی فروغ ہو۔کیونکہ مسلمانوں کے کارنامے اورآزادی میں انکے رول و کردارکا ذکر کئے بغیرنہ تو یوم جمہوریہ اور نہ ہی یوم آزادی کا کماحقہ حق ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی ایسے ارباب اقتدار کو عادل و منصف قرار دیا جاسکتا ہے!؟

            مسلمانوں کے انہی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا علی میاں نے اپنی کتاب ہندوستانی مسلمان میں سن ستاون کا واقعہ لکھا ہے جس دردناک واقعہ کو سن کر زندہ ضمیرانسان کا دل دہل جاتا ہے کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے ہوئے، جنگ آزادی میں جب عظیم مجاہد مولوی احمد اللہ شاہ کی کوشش ناکام ہوگئی، جن کے اسباب پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،توانگریزوں نے ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں سے انتقام لینا شروع کیا اور ہندوستانی قوم کے ساتھ ایسے ظالم وجابر فاتح کا معاملہ کیا، جو رحم وانصاف اور انسانیت کے مفہوم سے بالکل ناآشنا تھا، انکے جوش انتقام اور سفاکی ودرندگی کا جونظارہ شہر دہلی نے دیکھا”جوکہ ایک قتل عام تھا اورمسلمان خاص طور سے اسکا نشانہ بنے، جسکے نتیجے میں مسلمانوں کی ایسی ہلاکت و تباہی ہوئی، جس نے چنگیر وہلاکو کی یاد تازہ کردی،کئی روز تک دہلی میں قتل وغارتگری کا بازار گرم رہا،آخر کار وہ شہر جو ایک زمانہ میں عروس البلاد کہلانے کا مستحق تھا اور ہندوستان کا دارالسلطنت تھا، بالکل ویران ہوگیا بلکہ شہر خموشاں کانظارہ پیش کرنے لگا،اب وہاں گرے ہوئے مکانات، ملبہ، سڑی ہوئی لاشیں اور پھٹے ہوئے جسموں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا“،چاندنی چوک پرمجاہدین آزادی کے دردناک قتل عام، علما کی پھانسی، گولیوں سے بھوننے اورموپلوں کے واقعات وحادثات سے یہ زمین رنگین ولالہ زار ہوگئی تھی۔پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن۔۔۔یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں۔

            ظاہر ہے مسلمانوں نے آزادی کے حصول کے لئے جتنا اپنا خون اور پسینہ بہایا ہے اور اسکے لئے بے حساب جانی ومالی قیمت ادا کرنا پڑی ہے، جسکے سرسری تذکرہ سے بھی برادران وطن کو واقف نہیں کرایا جاتاتو کس طرح وہ مسلمانوں کے ہمدرد بنیں گے بلکہ وہ تو انگریزوں کے ظالمانہ برتاو اور جوش انتقام کا جذبہ پیدا کرلیں گے،جبکہ ملک کی کسی دوسری قوم کو انگریزوں کی ظلم وزیادتی کا اتنا نشانہ نہ بنا پڑا جتنا مسلمانوں کے حصے میں آیا، جبکہ ہندووں کیساتھ انگریزوں کارویہ ہمدردانہ تھا بلکہ انکو اعلی مناصب و عہدوں پر فائز بھی کیا گیا۔مگر اسی دوران مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا،مذہب پوچھ پوچھ کر انکو گولیوں سے بھونا گیا، پھانسیوں پرلٹکایا گیا اور سرکاری ملازمتوں سے بے دخلی کا بھی انکوسامنا کرنا پڑا۔ایک معاصر مؤرخ لکھتا ہے کہ "27 ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی،دہلی میں سات دن برابر قتل عام ہوتا رہا، اس کی تعداد کا کوئی حساب نہیں، اپنے نزدیک گویا نسل تیموریہ کو نہ رکھا گیا، بالکل مٹادیا گیا، بچوں تک کو مار ڈالا گیا، عورتوں سے جو سلوک کیا گیا، بیان سے باہر ہے، جس کے تصور سے دل دہل جاتا ہے"۔ جان لارنس نے انگریزی کمانڈر کو دسمبر 1857 میں لکھا۔ ''مجھے یقین ہے کہ ہم نے جس طریقے پر بلاامتیاز تمام طبقوں کو لوٹا ہے، اسکے لئے ہم پر لعنت بھیجی جائے گی اور یہ فعل حق بجانب ہوگا'' مگر پھر بھی انگریزوں کے فرار ہو جانے اور یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے قومی تہوار کے باوجود مسلمانوں کے خلاف انگریزوں جیسا جوش انتقام اور ظالمانہ برتاؤ چہ معنی دارد؟ ہمیں دستور پر بھروسہ تو ہے مگر اصحاب اقتدار کے رویے پر نہیں۔ہر شخص کویوم جمہوریہ کے دن بطور خاص اور دیگر ایام میں بھی اپنا دامن جھانکنے اور عدل وانصاف  کے اصول سے لیس ہونے کی شدید ضرورت ہے!بھارت کے سپوتوں سے لال چند فلک کا شعر ہے!اے ہندوؤ مسلماں!آپس میں ان دنوں تم۔۔۔۔۔۔نفرت گھٹائے جاؤ، الفت بڑھائے جاؤ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

25جنوری2022

«
»

کہانی گھر گھر کی! قسط 4 (سرکاری کالجوں میں حجاب تنازعہ)

نئی زبان سیکھنے کا طریقہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے