رئیس الشاکری صاحب کی یاد میں

 

   مفاز شریف ندوی

اگرچہ خانۂ دل میں نہیں ہے گنجائش
یہ غم بھی اور کوئی غم ہٹا کے رکھ دیا جائے

جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں میری تعلیم کا آخری سال تھا۔ اس سال رمضان میں میں نے مسجد ملیہ میں اعتکاف کی سنت ادا کی۔ وہاں معتکفین میں میرے دوست عفان کولا ندوی بھی شامل تھے۔ وہ مجھ سے عمر میں کچھ سال بڑے ہیں لیکن ان کی خصوصیات اور علم دوستی کی وجہ سے ان کی شخصیت سے انس اور ایک خصوصی ربط قائم ہوگیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم دونوں کی دوستی رمضان کے آخری عشرے کے صرف دس ایام تک جاری رہتی تھی۔ پھر پورے سال علیک سلیک کی نوبت بھی نہ آتی۔ 
اس بات کے ذکر کا مدعا کیا ہے؟
عفان بھائی کے ساتھ ان ایام میں مختلف علمی و فکری موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ وہ عربی ادب کے کسی زمانے میں عاشق رہے ہیں۔ اس لیے میری عادت کے مطابق میں نے ان کے ماضی کی یادوں کو کریدنا شروع کیا۔ وہ بہت خوبصورتی سے تفصیلات بیان کرتے اور میں خاموشی اور شوق فراواں کے ساتھ ان کے تجربات سے محظوظ ہوتا تھا۔ اخیر میں میں نے ان سے سوال کیا کہ عربی ادب سے اس دلچسپی کو کس عامل نے سب سے زیادہ سیراب کیا اور شاداب رکھا؟
انھوں نے کہا: میں جب ندوے میں پڑھتا تھا تو رات میں عشا کے بعد کلیۃ اللغۃ العربیہ کی لائبریری میں تیز گامی سے پہنچتا اور وہاں گھنٹہ دو گھنٹہ مطالعہ میں منہمک رہتا تھا۔ اس مختصر لیکن قیمتی مکتبہ میں عربی ادب کے قدیم مصادر، قدیم و جدید ادبا و شعرا کی کتابوں کا نہایت خوبصورت انتخاب ہے۔ عربی کے طالب علم کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ کافی حد تک عربی ادب کے باب میں کتب خانہ شبلی سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ یہ چھوٹی سی لائبریری سکون و سکینت اور علمی متانت سے معمور رہتی تھی۔ دن میں بھی کھلی رہتی تھی، اس لیے میں انٹرول اور فارغ اوقات کو غنیمت جانتا تھا۔ چپکے سے اس لائبریری میں جاتا اور وہاں پڑھنے میں مشغول ہوجاتا تھا۔ بڑے یادگار دن تھے اور زندگی کے بڑے بامعنی لمحات!

اس تفصیل کو سننے کے بعد میرے دل نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ندوے جانے کے بعد سب سے پہلے اس لائبریری کی زیارت کرنی ہے اور یہاں کی کتابوں کو ہضم کر لینا ہے۔ میں ہمارے جامعہ کی لائبریری میں موجود عربی ادب کی اپنی پسندیدہ کتب کو چاٹ گیا تھا۔ میرے محبوب ادبا کی فہرست میں کئی نام باقی تھے جنھیں مجھے ابھی دیکھنا تھا اور ان کی کتب سے رابطہ استوار کرنا تھا۔ اسی دن سے میرے قلب و ذہن نے خوابوں کے تار بننے شروع کر دیے۔ لائبریری کی یہ ہیئت ہوگی اور میں فلاں سمت میں جو سب سے زیادہ پر سکون ہوگی بیٹھوں گا۔ کتابوں کے مطالعے کی یہ ترتیب ہوگی۔ وغیرہ وغیرہ

اب میں ندوے کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس تاریخی مدرسے کو عظمت و محبت کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہا تھا۔ ندوے میں آمد کے ایک دن آرام کرنے کے بعد اگلے دن صبح اٹھا اور فوراً کلیۃ اللغۃ العربیہ کی لائبریری کی جستجو میں کو بکو دوڑنے لگا۔ ہر راہگیر سے اس سلسلے میں گفتگو کرتا۔ چلتے چلتے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان سے لائبریری کے جائے وقوع کی بابت بات کی، انھوں نے کہا: یہ لیجیے! لائبریری آپ کے روبرو ہے۔ لائبریری عمارت کی دوسری منزل پر واقع تھی۔ سیڑھیوں پر تیزی سے چڑھتا ہوا لائبریری کے دروازے تک پہنچا۔ ارے لائبریری مقفل ہے۔ کیا تشنگان ادب خواب غفلت اور استراحت میں مست ہیں؟ ذمے دار بھی غافل ہیں؟ یہ خیالات ذہن پر ابھرے۔ مایوس اپنے ٹھکانے پر لوٹا اور اپنے سر کو کوٹا۔ عفان بھائی کی ہدایت کے مطابق رات میں عشا کے بعد پھر لائبریری کے لیے نکل پڑا مگر اس بار بھی ناکامی ہوئی۔ دوسرے روز پھر اسی شوق کے ساتھ اپنے ٹھکانے سے لائبریری کے لیے نکلا اور اب بھی بے نیل مرام واپس آیا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے بعد بھی چار پانچ دفعہ لائبریری کے لیے اسی شوق سے نکلا تاکہ آنکھ اس کی زیارت سے ٹھنڈی، ذہن کتابوں کی خوشبو سے مسرور اور روح اس کی فضا سے سرشار ہو۔ ہدف میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوپائی۔ وہاں کے کسی ملازم نے مجھے بتایا کہ لائبریری فی الحال نہیں کھلے گی۔ کچھ ہفتے گزر جائیں گے اور درسگاہ میں باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوگا، تب کھلے گی۔

آخرکار میری تمنا بر آئی۔ لائبریری کھلی اور میرے دل کی کلی کھلی۔ اور جو ایک کھلبلی دل میں مچی ہوئی تھی وہ چلی۔ میں صبا رفتاری کے ساتھ وہاں پہنچا اور خدا کا شکر بجا لایا۔ بھاگنے کی وجہ سے سانس کچھ پھول رہا تھا۔ اس لیے لائبریری میں داخل ہوتے ہی وہاں پر موجود ایک لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ندوے میں اکثر لکڑی کی کرسیاں ہی نظر آئیں گی۔ ابھی بیٹھے ہوئے چند سیکنڈ گذرے ہونگے کہ ایک بزرگ نے مجھے انگلیوں کے اشارے سے بلایا اور انگلیوں کے اشارے سے حکم دیا کہ کاپی پر اپنی تفصیلات لکھیے۔ میں نے احسن طریقے پر یہ کام انجام دیا۔ پھر ان صاحب نے اپنے لب کو جنبش دی: کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں نے کہا: بھٹکل کا۔ گفتگو یہیں پر موقوف ہوئی۔
وہ بزرگ صاحب پان کھا رہے تھے۔ مگر ہونٹ پر پیک تو کیا ہلکی سی سرخی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ اجلا کرتا، کشتی نما لکھنوی ٹوپی، سیاہ اور چمکیلا جوتا، سفید مہذب گھنی داڑھی اور ترشی ہوئی مونچھیں، عمر کے سبب چہرے پر کچھ جھریاں مگر تازگی اور توانائی سے چھلکتا ہُوا، سامنے والی جیب پر چمکتا ہوا قلم سلیقے سے رکھا ہوا، سیدھی ناک پر جمی ہوئی عینک جن سے شوخی اور پاکیزہ شرارت جھلکتی ہوئی، بدن میری طرح چھریرا نہیں بلکہ گوشت سے بھرا پرا اور پھرتیلا، انگ انگ سے کتاب کا عشق چھلکتا ہُوا، رنگ کو آپ مٹیالا کہہ سکتے ہیں جس کو بڑھاپے کے وقار اور علم کے نور نے شفافیت اور جاذبیت سے ہم کنار کر دیا تھا، قد و قامت نہ طویل نہ قصیر بلکہ درمیانی کہہ سکتے ہیں، پیٹھ کبر سنی کے باوجود خمیدہ نہیں تھی، بلکل سیدھی کھڑی۔ اس عمر سے پہلے ہی آج کل کے لونڈے چرمرے ہوجاتے ہیں۔ میں نے ان کے بڑھاپے پر ترس کھانا چاہا مگر انھوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے خاموش کردیا:

پیش آئینہ لبھاتا ہے بڑھاپے کا وقار
ہم نہیں کہتے کہ افسوس جوانی، افسوس

گویا وہ اس لمحے سے ڈر رہے تھے:

پھر دور شباب یاد آیا
تلوار پہ پھول کھل رہے ہیں

اس کے بعد میں کتابوں کی الماریوں کے پاس گیا اور بعض کتابوں کے اوراق الٹنے لگا۔ اس پر انھوں نے مجھے ذرا خشم آلود نگاہوں سے دیکھا اور پھر کہا: مولوی صاحب! میز پر کتاب رکھیے اور بیٹھ کر پڑھیے۔
میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔ ان کی اس بات کی حکمت کچھ مہینوں بعد معلوم ہوئی۔ آپ بھی واقف ہوجائیے: وہ یہ کہ بعض ناہنجار طلبہ معمولی مقاصد کے لیے کتابوں سے صفحات غائب کر دیتے تھے۔ اب نہایت قیمتی دیدہ زیب کتاب ہے، مگر کچھ اہم صفحات معدوم ہیں۔ ایسی کئی کتابیں مل جائیں گی جن کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیا گیا۔ 

کچھ دیر بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ بزرگ رئیس الشاکری صاحب ہیں۔ میں ان کے نام سے واقف تھا مگر شعرا کے آثار ظاہری کے فقدان کی وجہ سے اندازہ نہیں لگا سکا۔ پہلی ملاقات میں ہی ان کی محبت دل میں رچ بس گئی اور یہ شدید خواہش بیدار ہوئی کہ اس شخص سے ضرور استفادہ کرنا ہے، اس نے اپنی ساری زندگی اردو سے عشق میں گزار دی۔ جو گیسوئے اردو کو سنوارتا رہا اور اس کے روئے منور پر غازہ ملتا رہا، اس کے سرمایہ کو سمجھنے میں شب و روز صرف کرتا رہا۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے ان سے مختصراً گفتگو ہوتی رہی۔ وہ نہایت نستعلیق اور شفیق انسان تھے۔ سرشار طبیعت پائی تھی اور متحرک و مسرور ذہن۔ میں ان کے کلام سے بے خبر تھا نہ پورے کلیات کا قاری۔ جستہ جستہ دیکھ چکا تھا۔ ان کے کئی اشعار ایسے ہیں جو با ذوق قاری اور سامع کو فوری یاد ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے جس نے اپنی زندگی بڑے شعرا کو سمجھنے اور اس سے ہنر مندی سیکھنے اور فنکاری کرنے میں گزار دی ہو وہ قابلِ مطالعہ ضرور ہوگا۔

ایک دن سعود بھائی کے ساتھ یہ طے پایا کہ رئیس الشاکری صاحب سے ملاقات کرتے ہیں اور دیوان غالب کی بعض غزلیں ان کے پاس پڑھتے ہیں۔ انھوں نے بلا تامل اس درخواست کو منظور کیا اور ہم رات میں عشا کی نماز کے بعد ان کے کمرے پر حاضر ہونے لگے۔ یہ مجلسیں کیا تھیں، ایک ادبی دسترخوان ہوتی تھیں۔ دار القضاء کے اوپر چھوٹا سا سادہ سا کمرہ، زندگی کی ضروریات اور کچھ کتابیں۔ ایک چھوٹی سا فریزر تھا جس میں مٹھائیاں، ٹھنڈا پانی وغیرہ اشیا ہوتی تھیں۔ دیوان غالب کو شروع کیا گیا۔ پہلی غزل ایسی مشکل کہ اچھے اچھوں کو پسینہ آئے۔ 

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

انھوں نے اس غزل کے عام مفاہیم بیان کیے، پھر یہ بتایا کہ میں ان اشعار کو نعتیہ کے طور پر بھی پڑھتا ہوں۔ اپنی رائے کو انھوں نے مدلل انداز سے پیش کیا، جس میں مجھ جیسے مبتدی کے لیے غور و فکر کا سامان تھا۔ تفہیم کے دوران میں سعود بھائی بھی نکتہ آفرینی سے نہیں چوکتے تھے۔ ایک دو دفعہ اس بے نوا بھی اپنی بات رکھنے کی جسارت کی، اس پر رئیس الشاکری صاحب خوش ہوئے، دعا دی اور میری سخن فہمی کے قائل ہوئے۔ اس پر سعود بھائی نے بھی میرے نکتوں کا مسرت انگیز استعجاب سے تذکرہ کیا۔ مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں اردو شاعری سے مانوس ہوتا گیا اور مجھ میں یہ آرزو انگڑائی لینے لگی کہ اردو زبان میں بھی ایک مقام حاصل کرنا ہے۔
ایک نکتہ اب بھی یاد ہے جس پر شاکری صاحب خوش ہوئے اور اس وقت سے میری سخن فہمی کے قائل اور مجھ سے اشعار کے سلسلے میں رائے کے سائل۔

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

میں نے کہ یہاں غالب نے پہلے مصرعے میں برہنگی کی وجہ سے دوسرے مصرعے میں ننگ کا استعمال کیا ہے جو نہایت پر لطف ہے۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ میں اردو کے سلسلے میں بالکل مبتدی قسم کا طالب علم ہوں۔ مگر ان کی تعریف اور سعود بھائی کے پیٹھ ٹھونکنے سے دل میں ایک آگ سلگ اٹھی جو اب تک بجھی نہیں ہے، اس کے شعلے کوند رہے ہیں۔

کچھ ہفتوں تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہا۔ شدید ٹھنڈی کے ایام تھے۔ میں سوٹر پہنے اور ایک انداز بے پروائی سے مفلر اوڑھے ان کے آستانے پر جاتا تھا۔ جب کہ سعود بھائی ہر زائد پوشاک سے معرا آتے تھے گویا ٹھنڈی ان کے جسم کو خوراک پہنچاتی تھی۔ شاکری صاحب ہمارا استقبال کرتے۔ متبسم و مسرور آنکھوں سے سلام کرتے اور نرم ملائم لہجے میں گفتگو کرتے۔ کبھی آغاز میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے۔ ایک دفعہ حالات کی مناسبت سے صدق جائسی کا یہ شعر اس طرح سنایا کہ وہ پڑھتے جاتے اور لذت لیتے جاتے، جس طرح بچہ میٹھی چیز کھاتا ہے تو اس کے ہونٹ چٹ پٹانے لگتے ہیں۔ شعر سنیے:

 اس کے لطف عام کو غیرت نہیں کرتی قبول 
 اور میں کم بخت لطف خاص کے قابل نہیں

شاعر خدا سے شکوہ کر رہا ہے اور اپنی نالائقی کو بھی بیان کر رہا ہے۔

وہ اپنے حلقۂ احباب سے کافی دیر تک علمی اور ادبی باتیں ضرور کرتے تھے، مگر ان کا مزاج تنہائی اور ادب کے لیے یکسوئی کا تھا۔ وہ ادب کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ شعر ان کی حقیقی غذا، اور ان کی شخصیت کا غازہ تھا۔ گویا وہ ہم سے کہہ رہے تھے:

آدمی پر تلخ ہوجاتا ہے ظاہر کا سفر
راہ میں حائل اگر باطن کی سرگوشی رہے

میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے، مجھے کھا گئے

اب اردو ایسے سچے عاشق سے محروم ہوگئی۔ ایسے عاشق اس زمانے میں بہت محدود ہوگئے ہیں، جنھیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، دو تین انگلیاں پھر بھی بچیں گی۔ خدا مغفرت کرے اور کرم کا معاملہ کرے۔

 

«
»

غیرمسلم میت اور اسلامی تعلیمات

"پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے”””

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے