رویش کا بلاگ: مودی کے اکبر تو’دی گریٹ‘ نکلے…

پچھلے چار سال سے بی جے پی اور سنگھ کے لوگ اس’گریٹ‘ اکبر کی عظمت کو کترنے میں لگے رہے، کامیاب بھی ہوئے، جو تاریخ کا ایک بڑا کردار تھا۔ نصاب میں وہ اکبر اب گریٹ نہیں رہا۔  مگر اب وہ کیا کریں‌گے جب مودی کے کابینہ کا اکبر گریٹ نکل گیا ہے۔ مودی کابینہ کے اکبر کی’عظمت ‘ کا تناظر یہ نہیں ہے کہ اس نے قلعہ بنوائے بلکہ اپنے آس پاس ثقیل انگریزی کا ہالہ تیار کیا اور پھر اس کے قلعہ میں بھروسے کا قتل کیا۔  خاتون صحافیوں کے جسم اور دل پر گہرا زخم دیا۔  اس اکبر کا وزیر اعظم مودی کیا کریں‌گے،احساس کمتری کے شکارہندی والے  اکبر کی انگریزی پر فدا ہوں‌گےیا اپنی حکومت کے نصاب سے باہر کر دیں‌گے۔ہم ہندی والے ہی نہیں، انگریزی والے بھی بےمطلب کی آراستہ انگریزی پر فدا ہو جاتے ہیں جس کا مطلب صرف یہی ہوتا ہے کہ علمیت کا ہوا کھڑا ہو جائے۔  اکبر کچھ نہیں، انگریزی کا ہوا ہے۔

ہندوستان میں اس طرح کی انگریزی بولنے والے گاؤں سے لے کر دہلی تک میں بڑے عالم مان لئے جاتے ہیں۔ ایم جے اکبر صحافت کی دنیا میں وہ نام ہے جس کی میں مثال دیتا ہوں۔  میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اکبر بنو۔  پہلے صحافت کرو، پھر کسی پارٹی کے رکن پارلیامان بن جاؤ، پھر اس پارٹی سے نکل‌کر اس کے رہنما کے خاندان کو چور کہو اور پھر دوسری پارٹی میں وزیر بن جاؤ۔  مغلوں کا اکبر گریٹ تھا یا نہیں لیکن مودی کا اکبر واقعی’گریٹ’ہے۔سوچیے آج وزیر خارجہ سشما سوراج اس اکبر سے کیسے نظر ملائیں‌گی، وزارت خارجہ کی خاتون افسر اور ملازم اس اکبر کے کمرے میں کیسے جائیں‌گی؟

ایم جے اکبر کی’عظمت ‘ کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ انہوں نے کوئی پارٹی نہیں بدلی ہے۔  ریاستی وزیر سے کابینہ وزیر نہیں بنے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں خاتون صحافی اس پیشے میں اپنے ساتھ ہوئے جنسی استحصال کا تجربہ شیئر کر رہی ہیں۔ اس کو انگریزی میں MeToo#کہا جا رہا ہے یعنی میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے، میں بھی بتانا چاہتی ہوں۔  اس کے تحت کئی خاتون صحافیوں نے باقاعدہ وہاٹس ایپ چیٹ کی تصویر کے ساتھ ثبوت دیا ہے کہ مدیر کی سطح کے صحافی نے ان کے ساتھ کس طرح کی فحش بات چیت کی اور ان کی خودداری سے لےکر ان کے جسم تک کو مجروح کیا۔  ابھی اکبر کابیان  نہیں آیا ہے، انتظار ہو رہا ہے، انتظار وزیر اعظم کی رائے  کا بھی ہو رہا ہے۔

فوٹو: فیس بک

فوٹو: فیس بک

می ٹو تحریک کے تحت ہندوستان ٹائمس کے پالیٹیکل ایڈیٹرپرشانت جھا کو، جن کی کتاب ‘ بی جے پی کیسےجیتتی ہے ‘ کافی مشہور رہی ہے، استعفی دینا پڑا ہے۔  پرشانت جھا کے استعفی کے خط سے صاف نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنا جرم مان لیا ہے اور اب جانچ ہوگی یا نہیں کیونکہ اس کا ذکر ہی نہیں ہے۔  انہی سب تناظر میں کئی خاتون صحافیوں نے اپنی تکلیف ظاہر کی ہے۔  ان کے دل اور جسم پر یہ داغ لمبے وقت سے چلے آ رہے تھے۔موقع ملا تو بتا دیا۔ رتک روشن نے ایک ایسے ہدایت کار کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیا ہے جس پر جنسی استحصال کے الزام ہیں۔  ٹائمس آف انڈیا کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔  وزیر اعظم مودی کیا کر رہے ہیں، عوام دیکھ رہی ہے۔

می ٹو مہم کے سلسلے میں صحافی روہنی سنگھ نے ٹوئٹ کر دیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خاتون صحافی بڑے بڑے مدیروں کے بارے میں بتا رہی ہیں مگر اس کے بارے میں خاموش ہیں جو اس وقت اقتدار کے مرکز میں بیٹھا ہے۔  روہنی سنگھ نے کسی کا نام نہیں لیا مگر شاید ان کا خیال ہی کچھ ایسا ہے کہ سب نے سمجھ لیا کہ وہ جو تخت کے بغل میں اسٹول یعنی چھوٹی کرسی پر بیٹھا ہے یعنی ریاستی وزیر خارجہ کے عہدے پر بیٹھا ہے، وہی ہے۔  وہی ہے وہ اکبر جو آج تک اپنی ‘ عظمت ‘ کی آڑ میں چھپا تھا۔

Rohini Singh@rohini_sgh

I wish women joualists also speak about the harassment they face outside work. Try meeting a politician in a dress. On many occasions I have had to change before going for a meeting because at some level I am forced to take responsibility for a powerful man’s behaviour.

19:45 – 8 Oct 2018

«
»

تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ارتداد کے دہانے پر….

مشرق کاجنازہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا دھوم سے نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے