رویش کا بلاگ: جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں

رویش کمار

نیوز چینلوں میں جنگ کا مورچہ سجا ہے۔ ہیرو کو بکتر بند کئے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ تبھی خبر آتی ہے کہ ہیرو جنوبی کوریا میں عالمی امن انعام لینے نکل پڑے ہیں۔منموہن سنگھ نے ایسا کیا ہوتا تو بی جے پی صدر دفتر میں پریس کانفرنس ہو رہی  ہوتی کہ جب ہمارے جوان مارے جا رہے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم امن ایوارڈلے رہے ہیں۔چینل جنگ کا ماحول بناکر شاعروں  سے دربار سجا رہے ہیں اور وزیر اعظم ہیں کہ امن ایوارڈ لےکرگھر آ رہے ہیں۔ کہاں تو جیوتی بنے جوالا کی بات تھی، ماں قسم بدلہ لوں‌گا کا طوفان تھا لیکن آخر میں کہانی رام لکھن کی ہو گئی ہے۔ ون ٹو کا فور والی۔

مودی کو پتہ ہے۔ گودی میڈیا ان کے استعمال کے لئے ہے نہ کہ وہ گودی میڈیا کے استعمال کے لئے۔ ایک چینل نے تو اپنے پروگرام میں یہاں تک لکھ دیا کہ الیکشن ضروری ہے یا ایکشن۔جو بات افواہ سے شروع ہوئی تھی وہ اب گودی میڈیا میں سرکاری ہوتی جا رہی ہے۔ مودی کے لئے ماحول بنانے اور ان کو اس ماحول میں دھکیل دینے والے چینل ڈر کے مارے پوچھ نہیں پا رہے ہیں کہ مودی ہیں کہاں۔ وہ ریلیاں کیوں کر رہے ہیں، جھانسی کیوں جا رہے ہیں، وہاں سے آکر جنوبی کوریا کیوں جا رہے ہیں، جنوبی کوریا سے آکرگورکھپور کیوں جا رہے ہیں؟

جنگ کی دکان سجی ہے، للکار ہے مگر جنگ نہ کرنے کے لئے پھٹکار نہیں ہے! وزیر اعظم کو پتہ ہے کہ گودی میڈیا کے پالتو صحافیوں کی اوقات۔ جو اینکر ان سے دو سوال پوچھنے کی ہمت نہ رکھتا ہو، اس کی للکار پر مورچے پر جانے سے اچھا ہے وہ جنوبی کوریا کی راجدھانی سی اول چلے گئے۔چینلوں میں ہمت ہوتی تو یہی پوچھ لیتے کہ یہاں ہم چلاچلا کر گلے سے گولا داغے جا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ امن ایوارڈلے رہے ہیں۔ آپ کہیں رویش کمار کا پرائم ٹائم تو نہیں دیکھنے لگے۔

«
»

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی

آتنکی حملے کیوں ہوتے ہیں؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے