رویش کمار
ہندوستان کا اپوزیشن آوارہ ہو گیا ہے۔ عوام پکار رہی ہے مگر وہ ڈرا سہما دبکا ہے۔نوجوانوں کو لاٹھیاں کھاتا دیکھ دل بھر آیا ہے۔ یہ اپنا مستقبل داؤپر لگا کر آنے والی نسلوں کا مستقبل بچا رہے ہیں۔ کون ہے جو اتنا ادھ مرا ہو چکا ہے جس کو اس بات میں کچھ غلط نظر نہیں آتا کہ سستی اور اچھی تعلیم سب کا حق ہے۔ ساڑھے پانچ سال ہو گئے اور تعلیم پر چرچہ تک نہیں ہے
جے این یو کو ختم کیا جا رہا ہے تاکہ ہندی ریاستوں کے غریب نوجوانوں کے بیچ اچھی یونیورسٹی کا سپنا ختم کر دیا جائے۔ سرکار کو پتہ ہے۔ ہندی ریاستوں کے نوجوانوں کی سیاسی سمجھ تھرڈ کلاس ہے۔ تھرڈ کلاس نہ ہوتی تو آج ہندی ریاستوں میں ہر جگہ ایک جے این یو کے لیے آواز اٹھ رہی ہوتی۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو اپنے ضلع کی ختم ہوتی یونیورسٹی کے لیے لڑ نہیں سکے۔ قصبوں سے لے کر راجدھانی تک کی یونیورسٹی کباڑ میں بدل گئی۔ کچھ جگہوں پر نوجوانوں نے آواز اٹھائی مگر باقی نوجوان چپ رہ گئے۔ آج وہی ہو رہا ہے۔ جے این یو ختم ہو رہا ہے اور ہندی ریاست فرقہ واریت کی افیم کو راشٹرواد سمجھ کر کھانس رہی ہے۔
اس وقت کا کمال ہے۔ راشٹرواد کے نام پرنوجوانوں کو دیش دروہی بتانے کی مہم کے بعد بھی جے این یو کے اسٹوڈنٹ اپنے وقت میں ہونے کا فرض نبھا رہے ہیں۔ اتنی طاقتور سرکار کے سامنے پولیس کی لاٹھیاں کھا رہے ہیں۔ انہیں گھیر کر مارا گیا۔ سستی تعلیم کا مطالبہ کس کے لیے ہے؟ اس سوال کا جواب بھی دینا ہوگا تو ہندی ریاستوں کے ستیاناش کا اعلان کر دینا چاہیے۔ قاعدے سے ہر نوجوان اور ماں باپ کو اس کی حمایت کرنی چاہیے مگر وہ چپ ہیں۔ پہلے بھی چپ تھے جب ریاستوں کے کالج ختم کئے جا رہے تھے۔ آج بھی چپ ہیں جب جے این یو کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی چینلوں کو غنڈوں کی طرح تعینات کر ایک تعلیمی ادارے کو ختم کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن بد اخلاقیات کے بوجھ سے چرمرا گیا ہے۔ وہ ہر وقت ڈرا ہوا ہے کہ دروازے پر جو گھنٹی بجی ہے وہ ای ڈی کی تو نہیں ہے۔ سی بی آئی کی ساکھ مٹی ہو گئی تو اب ای ڈی سے ڈرایا جا رہا ہے۔ ہندوستان کا اپوزیشن آوارہ ہو گیا ہے۔ عوام پکار رہی ہے مگر وہ ڈرا سہما دبکا ہے۔
نوجوانوں کو لاٹھیاں کھاتا دیکھ دل بھر آیا ہے۔ یہ اپنا مستقبل داؤپر لگا کر آنے والی نسلوں کا مستقبل بچا رہے ہیں۔ کون ہے جو اتنا ادھ مرا ہو چکا ہے جس کو اس بات میں کچھ غلط نظر نہیں آتا کہ سستی اور اچھی تعلیم سب کا حق ہے۔ ساڑھے پانچ سال ہو گئے اور تعلیم پر چرچہ تک نہیں ہے
سی آر پی ایف لگا کر سڑک کو قلعے میں بدل دیا گیا ہے۔ طلبا نہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا مدعا ہے۔ملک بھر کی کئی ریاستوں میں کالجوں کی فیس بے تحاشہ بڑھی ہے اور اس کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں بڑی تعداد میں پڑھنے والے طالب علم بھی پریشان ہیں۔ مگر سب جے این یو سے کنارا کر لیتے ہیں کیوں؟ کیا یہ سب کی بات نہیں ہے؟ کیا ہندی ریاستوں کے نوجوان ملعون ہی رہیں گے؟
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
جواب دیں