’راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا‘

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

 

ظفر آغا

مشہور شاعر علی سردار جعفری نے گویا یہ شعر ہندوستان کے موجودہ حالات کے لیے کہا تھا۔ یہ شعر یقیناً آج کے حالات کا پتہ بتا رہا ہے۔ کیونکہ ان دنوں حق گوئی سب سے بڑا جرم بن چکی ہے۔ پھر بھی آپ ندائے حق بلند کرنے کی جرأت کرتے ہیں تو پھر برے حالات میں کوئی آپ کے کام آنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ خواہ آپ سماجی کارکن ہوں، اسٹینڈ اَپ کامیڈین یا پھر سائنسداں، بس یوں سمجھیے کہ جیل ہی آپ کا مقدر ہے۔ آپ کو حق گوئی کی سزا بھگتی ہی پڑے گی۔ جیل کی سلاخوں تک پہنچنے میں دیر ہو سکتی ہے، لیکن آخرش جیل خانہ ہی آپ کا گھر بنے گا۔ تب ہی تو پچھلے ہفتے دہلی میں کوئی پچاس افراد کو حق گوئی کی جرأت کرنے کی پاداش میں پوچھ تاچھ سے لے کر جیل تک جانا پڑا۔ ان تمام حضرات کا تعلق انگریزی اور ہندی میں چل رہے پورٹل ’نیوز کلک‘ سے ہے۔ لیکن ’نیوز کلک‘ سے مرکزی حکومت کی کیا دشمنی؟ سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ ’نیوز کلک‘ پورٹل کس کا ہے اور اس نے کیا جرم کیا ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے تقریباً ہر فرد کے گھر پر 3 اکتوبر کی صبح پولیس گھر پہنچ گئی!

’نیوز کلک‘ پورٹل کے مالک اور بانی ایڈیٹر اِن چیف پربیر پورکایستھ ہیں۔ نظریاتی طور پربیر کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا وہ سی پی آئی ایم کے رکن ہیں؟ لیکن صحافتی اور سیاسی حلقوں میں بیشتر افراد پربیر کے سیاسی نظریہ سے واقف ہیں۔ انھوں نے سنہ 1980 کی دہائی کے شروعاتی دور میں دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ ان دنوں کیا، آج تک جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر بائیں بازو کی طلبا وِنگ ایس ایف آئی کا بولبالا رہا ہے۔ پربیر جے این یو میں پڑھ رہے تھے، ان دنوں سی پی آئی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری وہاں کی طلبا یونین کے صدر تھے۔ پربیر کو جاننے والے حضرات واقف ہیں کہ ان دنوں سے آج تک دونوں کا گہرا تعلق رہا ہے اور آج بھی ہے۔ یہاں ضمناً عرض کرتا چلوں کہ پربیر کے گھر اور دفتر پر جس روز پولیس چھاپہ پڑا، اسی روز خود سیتارام یچوری کے گھر بھی چھاپہ پڑا۔ خبروں کے مطابق سیتارام کے گھر پر پڑنے والے چھاپہ کا تعلق بھی پربیر کے اوپر لگائے گئے الزام سے ہی تھا۔

خیر، پربیر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزی روٹی کی تلاش میں امریکہ چلے گئے۔ انہوں نے امریکہ میں آئی ٹی سیکٹر میں اپنی ایک فرم کھولی اور وہاں خوب دولت کمائی۔ کوئی پندرہ بیس سال قبل وہ امریکہ سے واپس دہلی آ گئے جہاں ان کی آئی ٹی فرم تجارت چلاتی رہی اور وہ آئی ٹی سیکٹر سے دولت کماتے رہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جس طرح ہندوستانی میڈیا ’گودی میڈیا‘ میں تبدیل ہو گیا، اس سے وہ بہت ناخوش ہوئے۔ آخر میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بے باک صحافت قائم رکھنے کے لیے اپنا خود کا ایک پورٹل چلائیں گے۔ ان کے پاس اتنی دولت تھی کہ انھوں نے اپنے پیسوں سے ’نیوز کلک‘ نام کا ایک نیوز پورٹل قائم کیا جو جلد ہی چل پڑا۔ لیکن پربیر نے گودی میڈیا جیسی راگ الاپنے کی جگہ حق پسندی کی صحافت کی۔

اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پربیر کا جرم کیا ہے۔ اس دور میں میدان سیاست میں حق گوئی سے بڑا جرم کوئی اور نہیں۔ پربیر اب اسی جرم کی پاداش میں پولیس حراست میں ہیں اور وہ تمام مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں جو بی جے پی حکومت کے دور میں دوسرے حق گو جھیل رہے ہیں۔ ابھی پربیر پر جو قہر ٹوٹا اس کی شروعات ایک سال قبل ہو چکی تھی۔ اس بار ان کے گھر اور دفتر پر جو چھاپہ پڑا وہ دوسرا چھاپہ ہے۔ اس سے قبل رسوائے زمانہ ای ڈی ایک سال قبل چھاپہ ڈال چکی ہے۔ ان کے تمام کمپیوٹر اور فون ایک سال قبل ضبط ہو چکے ہیں۔ ابھی کوئی ایک ماہ قبل دہلی میں ان کے مکان کی بھی قرقی ہو چکی ہے۔ مرکزی حکومت بار بار ان پر چھاپہ مار کر گویا ان کو وارننگ دے رہی تھی کہ سنبھل جاؤ ورنہ…! پربیر کوئی بچہ نہیں کہ ان کو حکومت کا اشارہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ پربیر اپنی دھن کے پکّے نکلے۔ انھوں نے بھی اپنے پورٹل پر حق گوئی سے پرہیز نہیں کیا۔ تب ہی تو پربیر اب پولیس حراست میں ہیں۔ ان کے پورٹل سے تعلق رکھنے والے کچھ دوسرے افراد بھی حراست میں ہیں۔ ان افراد میں بے باک صحافی پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چالیس سے زیادہ صحافی اور غیر صحافی افراد کے گھروں پر بھی پولیس کا چھاپہ پڑ چکا ہے۔ ان تمام افراد کے فون اور کمپیوٹر وغیرہ سب ضبط ہیں۔ ان افراد کو روز پولیس تھانے میں تفتیش کے لیے حاضری دینی پڑ رہی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری و ساری رہے گا۔ اور کتنے حق گو کا حشر آنے والے وقتوں میں پربیر جیسا ہوگا، یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ہر دور میں جب جب ظلمت کا اندھیرا گہرا ہوتا ہے تب تب پربیر جیسے حق گو روشنی کا چراغ جلاتے رہتے ہیں، جس کی شعاعیں ایک تابناک آفتاب بن کر آخرش ظلمت کے اندھیروں میں غار تک پہنچ جاتی ہیں۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض نے بہت خوب کہا ہے:

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے