راستہ تکتی ہے مسجد اقصی تیرا

اس مسجد کامقام و مرتبہ ان فضیلتوں کی وجہ سے دوچندہوجاتا ہے جو قرآن و حدیث میں مختلف پیرایہ میں وارد ہوئی ہیں۔صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اور اسلامی خلفاء نے بھی اس مسجد کی تعمیر، باز آبادکاری اور اس کی تزئین و آرائش میں حصہ لے کر اس کے رتبہ کو دوبالا کردیا ہے۔ یہی وہ مسجد ہے جس کو خالق ارض و سماء نے خیر و برکت کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ یہ وہ متبرک اور مقدس مسجد ہے جس میں ایک وقت کی نماز کو دوسری مساجد میں ادا کی جانے والی نماز کے مقابلے میں اجر و ثواب کے اعتبار سے ۲۵۰؍ نمازوں کے برابر قرار دیا گیا ہے۔قرب قیامت میں حضرت عیسی اسی مسجد میں اتریں گے اور یہیں دجال کا سر قلم کریں گے۔ یہ مسجد خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مقدس ترین اور افضل ترین شمار ہوتی ہے جہاں کے لیے رخت سفر باندھنے کو فرزندان توحید نہ صرف باعث اجرو ثواب تصور کرتے ہیں، بلکہ اپنی دنیا اور عقبی میں سرخ روئی اور کامرانی کا نشان بھی یقین کرتے ہیں۔اس مسجد کے درو دیوار پہ سرور کونین کے سجدوں کے نشان ثبت ہیں۔شب معراج میں اسی مسجد میں نبی دو جہاں فخر موجودات حضرت محمدﷺ نے انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی اور وہاں سے بذریعہ براق آسمانی سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ 
لیکن یہ عہد حاضر کاکتنا بڑا المیہ ہے کہ مسلمانوں کے قبلۂ اول مسجد اقصی پر اسلام دشمن ملک اسرائیل اور دنیا کی ناپاک ترین قوم یہودیوں کا قبضہ ہے۔ ۱۹۴۸ء میں جب سے قلب فلسطین میں یہودیوں کے وجود کو امریکہ اور یورپ سمیت عالمی برادری نے تسلیم کیا ہے، اسرائیلی حکومت برابر اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں حقیقت کا رنگ بھر رہی ہے، وہاں کے اصلی باشندے فلسطینیوں کو بزور طاقت رگیدا اور کھدیڑاجارہا ہے، کیا بچے، کیا بوڑھے اور کیا جوان سبھی کو مشق ستم بنایا جارہا ہے،مسجد اقصی کی بے حرمتی میں بھی یہودیوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کیوں کہ انھیں یہ معلوم ہے کہ اس کے تقدس کو پامال کرنے سے امت مسلمہ کے تن بدن میں آگ لگتی ہے اور وہ اپنی مجبوری اور مظلومی کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔حالاں کہ دور فاروقی سے لے کر عباسی خلفا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں بھی یہ مسجد عبادت و ریاضت اور نغمۂ توحید سے آباد تھی، مگر یہودیوں نے ماضی کی صلیبی جنگوں میں اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے اپنی سازشی دہنیت سے کام لے کربیت المقدس میں ایسے ناگفتہ بہ حالات پیدا کردیے ہیں کہ یہاں دور دراز سے آنے والے سیاح اور زائرین تو درکنار، خود وہاں کے اصلی شہری فلسطینیوں اور مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دشمنان اسلام ہر وقت اس مسجد کی حرمت کو پامال کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں اس قسم کی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ یہودی مسجد اقصی کے ارد گرد کھدائی کا کام کر رہے ہیں۔ اس کے اندر سرنگ کھودی جارہی ہے، اس کے درو دیوار کو توڑنے اور گرانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، تاکہ مسجد اقصی کو مسمار کرکے نہ صرف امت مسلمہ کے قبلۂ اول کا نام و نشان روئے ارضی سے مٹا دیا جائے، بلکہ وہاں مزعومہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرکے اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ بھی پہنادیں۔ 
حیرت تو اس بات پر ہے کہ مسجد اقصی کی حرمت و تقدس کو پائے حقارت سے روندا جارہا ہے اور پوری امت مسلمہ غفلت کی نیند سو رہی ہے۔ سلطان صلاح الدین ا یوبی نے تو مسجد اقصی کی آزادی کے لیے ۱۶؍ صلیبیں جنگیں لڑی تھیں، مگر امت مسلمہ اپنی اسلامی شناخت سے اس درجہ غافل ہے کہ وہ جنگ تو دور کی بات ہے، جائز وسائل کا استعمال کرکے صدائے احتجاج بلند کرنے سے بھی انحراف کر رہی ہے۔ ہمارے اندر سلطان صلاح الدین ایسا کوئی مرد مجاہد نظر نہیں آتا جس کی رگوں میں اسلامی غیرت و حمیت کا لہو گردش کرتا ہو۔مسجد اقصی اپنی بے حرمتی پر ماتم کناں ہے، وہ ہم فرزندان توحید سے رورو کر یہ التجا کر رہی ہے کہ اٹھو اور میری حرمت کو پامال ہونے سے بچا لو، مگر ہم ہیں کہ خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔ 
بے دست و پا نہتے فلسطینی اکیلے بیت المقدس کی بازیابی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور سر پہ کفن باندھ کرصہیونیوں کے خلاف میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے ہیں، وہ صہیونی افواج کی گولیوں کا جواب کنکر اور پتھر سے دے رہے ہیں،وہ اپنے وجود اور اپنے تشخص کی بقا کے لیے صہیونیوں سے دست و گریباں ہیں،ہر دن فلسطینیوں کے قتل و خون کی دل دوز خبریں اخبارات میں شہ سرخیوں میں چھپتی ہیں، مگر دنیا کے نقشے پر موجود کروڑوں کی تعداد میں کلمہ توحید پڑھنے والے ان کے ساتھ اسلامی اخوت کی بنیاد پر تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ حالاں کہ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسجد اقصی صرف گنبد و مینار پر مبنی ایک مسجد نہیں، بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک نشان ہے، ان کی اسلامی میراث ہے،اسلامی تشخص کی ایک واضح علامت ہے، اس کی حفاظت ہمار ا اسلامی اور مذہبی فریضہ ہے۔ اگر اس کو دشمنان اسلام نے خدا نخواستہ مسمار کردیا ، تو مسلمانوں کی شناخت کا ایک عظیم مرکز صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس لیے مسجد اقصی کی بازیابی کی جدو جہد میں دامے درمے قدمے سخنے تعاون کرنا ہر مسلمان کا لازمی فریضہ ہے۔ 
مسلمانو! اپنی قبر وں میں محو آرام حضرت عمر فاروق اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی روحیں چیخ چیخ کر پکار رہی ہیں کہ اب بھی خوب عفلت سے بیدار ہوکر مسجد اقصی کی بازیابی کے لیے تن من کی بازی لگا دو، ورنہ مسلمانوں کا قبلۂ اول اور مسلمانوں کی عظمت کا نشان مسمار اور منہدم کردیا جائے گا اور میں روز قیامت بارگاہ خداوندی میں تمھارا دامن گیر ہوں گا۔ افرادا کار اوروسائل کی قلت کا سامنا ہمیں بھی تھا، مگر ہم نے اپنے خدا پر کامل یقین اور اپنے عزم و ارادے سے اس وقت کے سارے مصائب کو مسخر اور زیر کرلیا تھا۔ اگر تمھارے اندر ایمانی عیرت و حمیت کا کوئی انش باقی ہے ، تو خدارامسجد اقصی کی بازیابی کے اس عظیم اسلامی فریضے سے غافل نہ رہو۔ کیا ہمارے اندر کوئی ایسا مرد مجاہد ہے جو اپنے آباء و اجداد کی اس پکار پر لبیک کہے اور مسجد اقصی کی بازیابی کی لیے اپنے پیش روحضرت عمر فاروقؓ اور مجاہد اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی کا رول ادا کرے۔ہم مسلمانوں کو دوسروں پر تکیہ کرنے کے بجائے خود پیش قدمی کرنی چاہیے،کیوں کہ علامہ اقبال نے شام و فلسطین کے المیہ کا دکر کرتے ہوئے یہ کہا ہے:
سنا ہے میں نے علامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے