رسول ﷺ پر ایمان اور اس کے تقاضے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

 اسلام کی اصطلاح میں رسول اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ کاپیغام اس کے بندوں تک پہنچائے، خدائی ہدایات کی روشنی میں انسانوں کی رہ نمائی کرے۔ اللہ پر ایمان لانے اور اسے خالق تسلیم کرلنے کا تقاضا ہے کہ ہم یہ بھی تسلیم کریں کہ اللہ نے صرف پیدا کرکے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ عام استعمال کی چیزوں خاص طور پر الیکٹرانک اشیا ء کے ساتھ ایک گائڈ بک بھی دستیاب ہوتی ہے تو پھر بے شمار صلاحیتوں کے حامل انسان کو بغیر کسی رہنمائی کے کیسے چھوڑا جاسکتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا:”ہمارا مالک وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کی ہدایت کا سامان کیا۔“  (سورہ طٰہ)
انسانوں کو ہدایت دینے کے مختلف طریقے ہوسکتے تھے۔اللہ ہر انسان کو الگ الگ ہدایت نامہ دے کر بھیجتا۔اللہ کسی فرشتے کو اپنا پیغمبر بناتا وہ فرشتہ ہر انسان کی رہنمائی کرتایا اللہ کسی ایک انسان کو اس کے لیے منتخب کرتا۔پہلے طریقے کی غیر معقولیت واضح ہے۔ہر انسان کو ہر وقت رہنمائی کرناعقل کے خلاف ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک استاذ بھی اپنے طالب علموں کو ایک ساتھ درس دیتا ہے۔حکومت بھی اپنے نمائندے کے ذریعہ اپنے احکامات نافذ کرتی ہے۔رہا دوسرا طریقہ تو اس میں یہ اعتراض ہوتا کہ فرشتے انسانوں سے الگ صفات کے حامل ہیں وہ کیسے انسانوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں؟صرف اور صرف تیسرا طریقہ ہی معقول تھا۔ 
 اللہ نے اس کام کے لیے ایسے انسان منتخب کیے جو خود بھی بڑی صلاحیت رکھتے تھے اور اللہ نے انھیں اپنا خصوصی علم عطا کیا تاکہ وہ بندوں کو زندگی گزارنے کا صحیح صحیح طریقہ بتا سکیں اور اپنے عمل سے اس راستہ پر چل کر دکھاسکیں۔ یہی اللہ کے فرستادہ بندے تھے، جنھیں ہم رسول یا نبی کہتے ہیں۔ان کی سیرت، ان کے عادات و اطوار اتنے بلند اور پاکیزہ ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ان کی سچائی و راست روی، شرافت وسادگی، دیانت و ایمان داری، محبت و خیرخواہی، عفت و پاکدامنی، حقوق کی ادائیگی اور کردار کی بلندی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ ان کے قول و عمل میں بے مثال یکسانیت ہوتی ہے۔ ہر شخص انھیں دیکھ کر پکار اٹھتا ہے یہ عام انسان نہیں ہیں، یہ تو خداکے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔اللہ کے یہ نبی ہر دور میں آتے رہے۔ آخر میں حضرت محمد  ؐ تشریف لائے۔ اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپ ؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ پر نازل کیا گیا قرآن قیامت تک کے لیے ہدایت نامہ ہے۔
رسول پر ایمان لانے کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔رسول جس بات کا حکم دے اس کو مانا جائے،جس بات سے روکے اس سے رکا جائے۔ ارشا د ربانی ہے: ”رسول تمھیں جو کچھ دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، بے شک وہ سخت سزا دینے والا ہے۔“ (الحشر: ۷)اگر ہم زبان سے یہ دعویٰ کریں کہ حضرت محمد ؐ اللہ کے سچے رسول ہیں مگر آپؐ کی ہدایات پر عمل نہ کریں تو پھر ہمارا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوگا۔ جب ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول جو کچھ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے کہہ رہے ہیں تو پھر آپ کی اطاعت نہ کرنا در اصل خدا کی اطاعت نہ کرنا ہے۔ پیغمبر کی جانب سے ہم تک کسی بات کا پہنچنا اس بات کی کافی دلیل ہے کہ وہ بات برحق ہے۔ چاہے ہماری سمجھ میں اس کی حکمت آئے یا نہ آئے۔ جب ہم ایک شخص کو اچھا ڈاکٹر مان لیتے ہیں اور اس پر بھروسہ کرکے اس سے علاج کراتے ہیں تو اب ڈاکٹر کی حیثیت سے اس کی ہر بات پر عمل کرنا ضروری ہے ورنہ پھر ہمیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ مثلاً ہماری آنکھ میں درد ہے، ڈاکٹر ہمارے ہاتھ میں انجکشن لگانا چاہتا ہے،اگر ہم یہ کہہ کر انجکشن لگوانے سے انکار کردیں کہ درد تو ہماری آنکھ میں ہے اور تم انجکشن ہاتھ میں لگا رہے ہو یہ سنتے ہی ڈاکٹر ہمیں ڈانٹ کر بھگا دے گا۔ جب ہم نے اسے اچھا ڈاکٹر تسلیم کرلیا تو اب بلا چون وچرا اس کی بات ماننا چاہیے اور اس کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے اور ہم ایسا کرتے بھی ہیں،ایک معمولی ڈاکٹر کے کہنے سے ہم دوا کا استعمال کرتے ہیں،پرہیز کرتے ہیں،اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر دوا غلط طریقہ پر کھائی،یا نہیں کھائی یا پرہیز نہیں کیا تو نقصان ہو گا۔تو نبی،رسول اور پیغمبر جیسی عظیم ہستی کے تعلق سے ہمارا رویہ اس سے بھی زیادہ اطاعت گزاری کا ہونا چاہیے۔ جب ہم نے حضرت محمد ؐ کو اللہ کارسول تسلیم کرلیا تو اب آپ کی ہر بات بلا چون و چرا ماننا ہمارے لیے ضروری ہوگیا۔ ورنہ ہم سیدھے راستہ سے بھٹک جائیں گے۔ چنانچہ آنحضور ؐ نے فرمایا: ”جس نے میری فرماں برداری کی اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔“(مسلم)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اے رسول آپ فرمادیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو (اس کے نتیجہ میں) اللہ تم سے محبت کرے گا۔“ (آل عمران: 31)
کوئی شخص آنحضور ؐ پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی کرے اور زندگی گزارنے کے لیے ان کے طریقہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا بندہ ہے۔ وہ آپؐ کی اطاعت کرکے بظاہردنیا کی لذتوں اور مادّی فائدوں کو نہیں چھوڑنا چاہتا،یا پھر اس نے اپنے اوپر شیطان کو اتنا حاوی کرلیا ہے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے شکنجہ سے نکلنا اس کے لیے دشوار ہے یا پھر وہ رسم و رواج اور آباء واجداد کی اندھی پیروی میں گرفتار ہے اور اس کے ذہن ودماغ پر عصبیت کی گہری تہیں جمی ہوئی ہیں۔ ان سب صورتوں میں ایمان کامل کا دعویٰ کرنا ایک فضول بات ہے۔ آنحضور ؐ نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے کوئی شخص اس وقت مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک ا س کی خواہشات میری لائی ہوئی ہدایات کے تابع نہ ہوجائیں۔(جامع الصغیر)
اب جب کہ آپؐ  بنفسِ نفیس موجود نہیں ہیں مگر آپؐ کی سنت، آپؐ کا اسوہ، آپؐ کی سیرت اور آپؐ کی احادیثِ صحیحہ موجود ہیں۔ ایک مؤمن کے لیے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت ہی اصل اساس اور بنیاد ہیں۔ اہل ایمان کو ہر معاملہ میں ان دونوں بنیادوں کو اصل حیثیت دینی چاہیے۔ اگر کوئی شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر زندگی کے معاملات اللہ اور رسول کی ہدایت کے مطابق انجام نہیں دیتا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ حقیقت میں وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتاہے۔حقیقت ہے کہ دینی امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے نہ کچھ کہتے تھے نہ کرتے تھے بلکہ آپ جو کچھ ارشاد فرماتے یا کوئی دینی عمل کرتے وہ اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے کرتے۔ چنانچہ قرآن پاک میں آپؐ کے بارے میں فرمایا گیا: ”وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے، وہ جو بھی کہتے ہیں وحی ہوتی ہے جو آپ کو کی جاتی ہے۔“ اللہ کے رسول کی اطاعت کا مطلب اللہ کی اطاعت اور رسولؐ کی نافرمانی کا مطلب اللہ کی نافرمانی ہے: 
”جس نے رسول کی اطاعت کی تو حقیقت میں اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“(النساء: 80)
نبی اکرم ؐ پر ایمان کاتقاضا ہے کہ ہم آپؐ سے محبت کریں، آپ سے محبت ایک مومن کے لیے ایمان کا حصہ ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: ”تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک تم مجھ سے اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت نہ کرنے لگو۔“(بخاری، مسلم)
نبی اکرم ﷺ  سے محبت کاتقاضا ہے کہ آپ ؐ پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجا جائے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو اس کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا: ”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر دورد بھیجتے ہیں۔ پس اے ایمان والو تم بھی نبی پر درود و سلام بھیجو۔“(الاحزاب:56)
جب بھی آپؐ کا اسم گرامی سنئے یا بولیے تو نام کے ساتھ”صلی اللہ علیہ وسلم“ ضرور کہیے۔ بعض اہل تقویٰ تو آپؐ کانام بے وضو نہیں لیتے تھے۔ ہر نماز کے بعد آپؐ پر درود بھیجئے، جمعہ کے دن خاص طور پر درود پڑھنے کا اہتمام کیجیے۔ درود پڑھنے کی احادیث میں بہت تاکید کی گئی اور بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آپؐ نے درود پڑھنے اور بھیجنے والے کی شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے۔ درود و سلام کے بہت سے الفاظ خود نبی کریمؐ نے امت کو سکھائے ہیں۔ ان کو یاد کیجیے اور اٹھتے بیٹھتے آپؐ پر درود بھیجئے۔ احادیث میں اس شخص کو بخیل اور نامراد کہاگیا ہے جو آپؐ کا نام سن کر آپؐ پر درود نہ بھیجے۔
آپ ؐ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ ؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائیں۔کیوں کہ آپ ؐ نے آخری حج کے موقع پر حاضرین کو یہ حکم دیا تھا کہ ”جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں تک جوغیر حاضر ہیں یہ باتیں پہنچادیں“۔اسی طرح ایک موقع پر آپ ؐ نے فرمایا ”خواہ ایک ہی آیت تمہیں معلوم ہو اسے دوسروں کو پہنچادو“(مسلم)یاد رکھنا چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ پر ایمان کا تقاضا محبت ہے،محبت کا تقاضا اطاعت ہے اور محبت و اطاعت کا تقاضاہے کہ آپؐ کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچایا جائے اورآپؐ کے لائے ہوئے دین کو غالب کیا جائے۔

(مضمون نگار ماہنامہ اچھا ساتھی کے مدیر،سینکڑوں کتابوں کے مصنف اور ملت اکیڈمی چیرمین ہیں)

 

«
»

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ

مقصد کے تعین کے بغیر اجتماعیت اور اجتماعیت کے بغیر کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے