رسول اکرم ؐ کے پسماندہ طبقات پر احسانات

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ،یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
رسول اکرم ؐ کے پسماندہ طبقات پر احسانات

عبدالغفار صدیقی

اللہ کے نبی ﷺ کمزوروں،ناداروں،یتیموں،مظلوموں اور تمام پسماندہ طبقات کو سماجی انصاف دینے اور دلانے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے۔انسانی سماج کے وہ تمام گروہ جو ہر دور اور ہر زمانے میں ستائے گئے ہیں،جن پر ظالموں نے سواری کی ہے،جن کو انسان کے بجائے جانور سمجھا گیا ہے،وہ تمام طبقات اورگراہ نبی رحمتؐ کے احسان مند ہیں۔ہر دور میں غلاموں،قیدیوں،خادموں اور مزدوروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا ہے۔نبی اکرم ؐ کی بعثت کے وقت غلاموں کی جو دردناک صورت حال تھی اس کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں،ان سے ضرورت سے زیادہ کام لینا،انھیں پیٹ بھر کھانا نہ دینا،ان کی اجرت طے نہ کرنا،طے شدہ اجرت نہ دینا،ان کی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرنا،وغیرہ۔یہی مظالم متمدن دور میں انگریزی سامراج کے زمانے میں دنیا نے دیکھے۔انگریزوں کے دور حکمرانی میں وہ کونسا ظلم ہے جو غریبوں پر نہیں کیا گیا ہو۔یہاں تک زہریلی دواؤں کے تجربات تک انسانوں پر کیے گیے۔آج بھی ان ممالک کی بات چھوڑیے جہاں ڈکٹیٹر شپ ہے جمہوری ممالک تک میں کمزور وں،اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی خبریں روزانہ اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔یہ غیر انسانی سلوک صرف سماج کے طاقتور اور اعلیٰ طبقات کی طرف سے ہی نہیں ہوتا بلکہ خود حکومت اور ان کے آلہ کار بھی کرتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کو رحمۃ اللعٰلمین کا لقب اللہ تعالیٰ نے کسی قرابت داری کی وجہ سے عنایت نہیں کردیا ہے بلکہ آپ ؐ کی تعلیمات اور عمل اس کا گواہ ہے۔غلاموں،خادموں اور مزدوروں  کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جن کو اللہ تعالی نے تمہارا دست نگر اور ماتحت بنایا ہے، وہ تمہارے بھائی ہیں اس کو اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑے میں سے پہنائے، اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دی جائے جس سے وہ تھک جائیں، اگر اسے ایسے کام کی تکلیف دے جس سے وہ تھک جائیں تو پھر خود اس کی مدد کرے۔ (صحیح بخاری کتاب الوصایا)خادموں کی غلطیاں معاف کی جائیں۔ ایک شخص نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ ؐ  میں غلام کا قصور کتنی مرتبہ معاف کروں، آپؐخاموش رہے، کچھ جواب نہ دیا، اس نے دوبارہ یہی پوچھا، آپؐ پھر خاموش رہے تیسری مرتبہ آپ ؐنے فرمایا: ہر روز ستر بار (ترمذی) حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ آخری وقت میں حضور اکرم ؐ کی زبان پر یہ الفاظ تھے الصلوٰۃَ، الصلوٰۃَ، اِتَّقُوْاللہ فِیْمَا مَلَکَتْ أیْمَانُکُمْ ”نماز کا خیال رکھو، اپنے زیر دست غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو!“۔غلام کی طرح قیدیوں کے تعلق سے آپ ؐ نے یہی نصیحت فرمائی۔ بنی قریظہ کے قیدیوں کے بارے میں آپؐ نے فرمایا:”انھیں خوش اسلوبی سے اور حسن سلوک سے قیدکرو،انہیں آرام کا موقع دو، کھلاؤ،پلاؤ اور تلوار اور اس دن کی گرمی دونوں کو یکجا مت کرو“(الموسوعۃ الفقھیۃ) قیدیوں کو اس قدر مارنا کہ ان کا کوئی عضو بیکار ہوجائے یا ایسی سزا دینا جس سے ان کی تذلیل ہویا ان کے دانت توڑنے،بجلی کا کرنٹ لگانے،برف پر رکھنے،انھیں اندھیری کوٹھریوں میں ڈال دینے کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔غلاموں اور قیدیوں کے زمرے میں ہی مزدوروں کو رکھاجاسکتا ہے۔مزدوروں کے تعلق سے اگر ایک ہی حدیث پر عمل کرلیا جائے تو دنیا کے سارے مزدور اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لینے پر تیار ہوجائیں۔آپؐ نے فرمایا”مزدور کو اس کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو“(ابن ماجہ)
انسانی سماج میں یتیم بھی کمزور شمار کیاجاتا ہے۔وہ بچہ جو ابھی سن رشد کو نہ پہنچا ہواور اس کے والدین کا انتقال ہوچکا ہواس کی کمزوری سب پر واضح ہے،خواہ اس کو وراثت میں ڈھیر سارا مال ملا ہو۔اس کے قریبی اعزہ اس کا مال ہڑپ کرنے کے سو بہانے تراشتے ہیں۔اگر یتیم لڑکی ہو تو حالات مزید خراب ہوجاتے ہیں۔رحمت عالم ؐ نے یتم کے سر پر ہاتھ پھیرنے،اس کی کفالت کرنے،اس کے مال کا تحفظ کرنے،نیز اس کو کاروبار میں لگاکر بڑھانے کی تلقین فرمائی،آپ نے یتیم کی کو حشر میں اپنی مصاحبت و شفاعت کا یقین دلایا۔آپ ؐ نے فرمایا”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے۔یہ کہتے ہوئے آپؐ نے شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا اور ان کے درمیان کچھ کشادگی رکھی۔“ (بخاریؓ)حضرت ابوہریرہؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی، آپؐ نے فرمایا کہ یتیم کے سرپرہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔(مسند احمد)حضرت عبداللہ بن عباسؓبیان کرتے ہیں کہ رسولِ خداؐ نے فرمایا: ”جس نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم کو لے لیا اور اسے کھانے پینے میں شریک کرلیا اللہ تعالیٰ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا سوائے اس کے کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔“(ترمذی)
کمزوروں میں وہ لوگ شامل ہیں جو مال و دولت میں کمزور ہیں اور وہ بھی ہیں جن کو سماجی عدم مساوات کا سامنا ہے،وہ بھی ہیں جن کو غیر فطری طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں کمزور قرار دے دیا گیا ہے اور وہ بھی ہیں جو کسی حکومت میں اقلیت ہیں۔ان سب کے تعلق سے نبی اکرم ؐ نے ایک اصولی بات فرمائی ”کمزوروں کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اورتمہیں رزق دیا جاتا ہے۔ (بخاری)یعنی مال داروں کا مال اور اہل اقتدار کا اقتدار اسی وقت تک محفوظ ہے جب تک وہ کمزوروں کا خیال رکھیں گے۔ان طبقات کو جنت میں پہلے جانے کی نوید بھی سنائی گئی۔حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺنے فرمایا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑاہوا،تو دیکھاکہ داخل ہونے والے عموماًمساکین ہیں۔(مسلم)ایک دن نبی کریم ﷺنے غریب مہاجرین کو مخاطب کرکے فرمایا:”اے غریب مہاجروں کی جماعت! تمہیں خوشخبری ہے کہ تم دولت مندوں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوگے اور وہ (آدھا دن بھی) پانچ سو سال کا ہوگا۔“(ترمذی)
ہمسایہ بھی اگر کمزور ہوتا ہے تو اس پر ظلم کیا جاتا ہے،انسانی تاریخ میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی روایت نہیں رہی ہے۔اسی باعث رسول اکرم ؐ نے ہم سائے کے ساتھ اس قدر حسن سلوک کی تعلیم و تلقین کی ہے کہ عقل حیران ہے۔خود نبی اکرم ؐ فرماتے ہیں کہ”جبریل مجھے پڑوسیوں کے تعلق سے اس قدرتاکید کرتے رہے کہ مجھے گمان ہوا کہ کہیں رشتہ داروں کی طرح پڑوسیوں کو وراثت میں شریک نہ کردیا جائے“(متفق علیہ)اس کے علاوہ آپ ؐ نے متعدد باراور مختلف پیرایوں میں ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی۔آپ ؐ نے فرمایا”جواللہ اورآخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے۔“(متفق علیہ)”اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں“۔ دریافت کیاگیا!”کون اے اللہ کے رسولؐ؟“فرمایا:”جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔“(متفق علیہ)”و ہ شخص مومن نہیں جو خودپیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلومیں بھوکا رہے۔“(مشکوٰۃ)”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوگا جب تک اپنے پڑوسی کے لیے وہی نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“(مسلم)
عورت ہر شکل میں کمزور واقع ہوئی ہے۔ ماں کی شکل میں عزت اور بیٹی بہن کی شکل میں اسے کسی حد تک پیار اورمحبت حاصل ہے۔ لیکن بیوی کی شکل میں آج بھی مسلم معاشرہ اسے رسول ؐ کے عطا کردہ حقوق نہیں دے سکا۔آپ ؐ نے فرمایا۔تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔(بخاریؓ)ایک صحابیؓ نے خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:”یارسول اللہ شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے؟“آپؐ نے فرمایا:”جب خود کھائے اسے کھلائے، جب خود پہنے اسے پہنائے، نہ اس کے منہ پر طمانچہ مارے، نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ سزا کے لیے گھر کے علاوہ اس کو علیٰحدہ کرے۔“(ابن ماجہ)ایک موقع پر آنحضورؐ نے فرمایا:”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لیے سب سے بہتر ہے۔“(ترمذی) عورت اگر بیوہ ہوجائے تو اس کی قدر بالکل ختم ہوجاتی ہے۔اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں اسے اچھوت اور ابھاگن تصور کیا جاتا ہے۔خود مسلم معاشرے میں بھی اسے شوہر کو نگل جانے کا طعنہ سننے کو مل جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے اس کی کفالت کرنے والے کو مجاہد سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا”بیوہ اور لاچار کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے۔  (بخاری)اس کے ساتھ شادی کرنے پر اجر کی بشارت دی،خود بیواؤں سے شادی کرکے مثال پیش کی،شوہر کے مال میں اللہ نے بیوہ کا حصہ مقرر کرکے اس کی معاشی ضروریات کا خیال رکھا۔
اللہ کے رسول ظلم کا خاتمہ کرنے اور انصاف قائم کرنے تشریف لائے تھے۔انسان ہمیشہ کمزور پر ظلم کرتا ہے۔مظلوم کے حق میں آواز اٹھانا اور اسے ظلم سے نجات دلانا ایک مومن کا مقصد زندگی ہونا چاہئے۔ معاہدہئ حلف الفضول کے آپؐ ہی روح رواں تھے،جو ظلم کو روکنے اور مظلوم کی حمایت کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ایک مومن ظلم کرے یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔چنانچہ رحمت عالم ؐنے فرمایا:”مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔(بخاری)مظلوم کی دعا قبول ہی ہوتی ہے خواہ وہ بدکار ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی بدکاری کا وبال الگ سے اس پرہے۔(مسنداحمد)مظلوم کی بددعا قبول ہی ہوتی ہے۔اگرچہ وہ کافر ہی ہو اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔(مسند احمد)“
سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں کو اسلام پسند نہیں کرتا،اس عمل کو گناہ تصور کرتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر بھیک مانگنے کی ممانعت ان الفاظ میں کی ہے:”اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے)سے بہتر ہے اور (خرچ کرنے کی) ابتدا ان لوگوں سے کرو جن کی کفالت تمہارے ذمّے ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے بعد (یعنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد) ہو اور جو سوال سے بچنا چاہے اللہ اسے بچا لیتا ہے اور جو لوگوں سے بے نیازی اختیار کرے اللہ اسے بے نیاز کر دیتا ہے۔(متفق علیہ)البتہ بعض اوقات خوش حال اورمال دار شخص بھی کسی پریشانی میں پھنس جاتا ہے اوروہ بھی وقتی طور پردستِ سوال دراز کرنے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کی بھی ضرورت پوری کرنی چاہیے۔اس لیے آپ ؐ نے فرمایا:سوال کرنے والا اگرچہ گھوڑے پر سوارہوکر آئے تب بھی تم پراس کا حق ہے۔ 
یہ ہے وہ اسلام جو ہمیں اللہ کے رسول کے ذریعے ملا ہے،جو سراپا سلامتی ہے،جو انسانی حقوق کا پاسدار ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت زیادہ تر مسلمان جس اسلام پر عمل پیرا ہیں وہ کہاں سے ملا ہے۔مجھے اس بات کے اقرار کرلینے میں کوئی عار نہیں کہ امت مسلمہ بالعموم اور امراء،علماء،سجادہ نشیں حضرات نے بالخصوص کمزور اورپسماندہ طبقات کے حقوق ادا نہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان طبقات کو ان کے حقوق سے آگاہ نہ کرنے کا بھی قصداً جرم کیا ہے۔بلکہ مسلم امت میں بھی ورن آشرم کی طرح کچھ اسفل و ارذل طبقات پیدا کیے ہیں۔غلاموں،یتیموں اور مزدوروں کے تعلق سے مسلمان مالداروں کا حال تو خراب ہے ہی بیشتراسلامی اداروں میں بھی ملازموں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔اس باب میں اگر رسول رحمت ؐ کی تعلیمات پر دس فیصد بھی عمل کرلیا جاتا تو آج تمام پسماندہ،کمزور اور مظلوم طبقات اسلام کی آغوش رحمت میں ہوتے،جیسا کہ رسول اکرم ؐ کے زمانے میں ہوا تھا۔اگر ہم نام نہادمسلمان عملاً مسلمان ہوجائیں اور زمین والوں پر رحم کرنے لگیں تو دلتوں بودھ دھرم کے بجائے فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے۔ان شاء اللہ

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
 

«
»

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ

مقصد کے تعین کے بغیر اجتماعیت اور اجتماعیت کے بغیر کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے