تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
کیا زانی کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟ کیا زناکار کے دھرم کے بارے میں بات ہونی چاہئے؟ یقیناًان سوالوں کے تعلق سے آپ کا جواب’’ نہیں ‘‘ ہو گا ۔ اگر کوئی زناکار کے مذہب کی بات کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ وہ ذہنی طور پردیوالیہ ہوچکا ہے اور اس کی نظر میں انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں بچی ہے۔اب سوال یہ ہے ہندو وادی رہنماؤں کا دھرم کیا ہے؟ وہ ’’رام دھرم‘‘ میں یقین رکھتے ہیں یا ’’راون دھرم‘‘ میں یقین رکھتے ہیں؟ اس سوال کا سبب یہ ہے کہ ملک میں اس وقت ریپ کے واقعات کا طوفان سا آگیا ہے اور ساری دنیا میں ملک کا سر شرم سے جھک گیا ہے مگر بھاجپائیوں اور ہندو وادیوں کو اس پر بھی شرم نہیں آتی اور ریپ کا بھی دھرم طے کردیتے ہیں۔جن واقعات پر شیطان کو بھی شرم آجائے ،اس پر بھی بھاجپا کے نیتا، ایم ایل اے، ایم پی اور منتری گندی سیاست سے باز نہیں آتے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا، لازمی ہے کہ جو لوگ بلاتکاریوں کا دھرم طے کر رہے ہیں ان کا اپنا دھرم کیا ہے؟وہ ’’رام دھرم‘‘ کو مانتے یا’’ راون دھرم‘‘ میں یقین رکھتے ہیں؟ رام تو خواتین کی عزت کرتے تھے جب کہ راون نے سیتا کا اغوا کیا تھا۔ جولوگ فسادات میں عورتوں کا پیٹ پھاڑتے ہیں، معصوم بچوں کو زندہ جلا دیتے ہیں، حاملہ خواتین کی عصمت دری کرتے ہیں ، اگر آج وہ زانیوں کے ساتھ کھڑے ہیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ پہلے کٹھوعہ میں ایک بچی کے گینگ ریپ اور قتل کے معاملے میں بھاجپا کے منتری اور نیتا ملزموں کی حمایت میں کھڑے ہوئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ملزمین ہندو تھے۔ اس قسم کے معاملوں میں فرقہ پرستی کی سیاست ہوسکتی ہے اور بھاجپا کو فائدہ بھی مل سکتا ہے۔ جب ساری دنیا میں تھو تھو ہونے لگی تو یہ انسانیت اور اخلاقیات سے عاری لوگ چپ ہوئے اور اب مندسور گینگ ریپ معاملے میں بھی یہی سیاست ہورہی ہے۔ یہاں یہ بتانے کی کوشش ہورہی ہے کہ ملزم مسلمان ہیں اور متاثرہ ہندو ہے۔ حالانکہ مسلمانوں نے بھی ہندووں کی طرح ہی ملزموں کے لئے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا اور احتجاج میں ریلی بھی نکالی۔
مجرموں کے ’’اچھے دن‘‘
مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت بننے کے بعد سے، گزشتہ چار سالوں میں ملک میں متعدد ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں، جن میں مجرم اپنا کام کرتے رہے اور قانون کی رکھوالی کرنے والے خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔اب اس صورت حال میں ایک خوفناک تبدیلی یہ آئی ہے کہ حکمران اور حکمران جماعت کے لوگ خود ہی مجرموں کے حق میں کھڑے ہورہے ہیں۔اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے خلاف 27 مجرمانہ مقدمے واپس لے لئے ہیں اور سابق مرکزی وزیر سوامی چنمیانند کے خلاف عصمت دری کے مقدمے کو واپس لئے جانے کی سفارش کی جاچکی ہے۔ مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں بم دھماکوں کے ذمہ داروں کو خود حکومت نے بچانے کا کام کیا، لیکن اب صورتحال زیادہ خوفناک مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ دنوں جموں کشمیر کے کٹھوعہ اور اترپردیش کے اناؤ میں جس طرح سے مجرموں اور بلاتکاریوں کے حق میں حکمران پارٹی کے لیڈر، کارکن اور حامی کھلے عام مظاہرہ کر تے نظر آئے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی ہمدردی کی جگہ سیاسی مفاد نے لے لی ہے۔ قانون کے مطابق کام کرنے کے بجائے راج کرنے والے لوگ مجرموں کی حمایت کررہے ہیں۔ ایک اور خطرناک مثال، گزشتہ دنوں یہ دیکھنے میں آئی کہ مودی سرکار کے وزیر جینت سنہا ، کچھ سزایافتہ مجرموں کو اعزاز پیش کرتے نظر آئے۔ اسی طرح ایک دوسرے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے بھی فسادات کے ملزموں سے ملاقات کی۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ ہمارا ملک کس سمت میں جارہا ہے؟
دوواقعات، دومثالیں
دسمبر 2012 میں جب پورے ملک کے ضمیر کو نربھیا عصمت دری سانحہ نے جھنجھوڑ دیا تھا، تب اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ،بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈر سشما سوراج نے بلاتکاریوں کو پھانسی کی سزا دیے جانے کی مانگ کی تھی لیکن اب سشما سوراج، وزیر برائے خارجہ امور ہیں اور اپنے ہونٹوں کو سیئے بیٹھی ہیں۔ اناؤ میں ایک بی جے پی ممبر اسمبلی پر عصمت دری کا الزام لگانے والی لڑکی اور اس کے والد نے تھک ہار کر وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے خودوسوزی کی کوشش کی۔اس کے بعدمتاثرہ لڑکی کے باپ کو پولیس نے گرفتار کرلیا اور اسے پولیس نے حراست میں مارڈالا۔ ایم ایل اے کلدیپ سینگر کو خرابی بسیار کے بعد کورٹ کے حکم سے گرفتار کیا گیا اور اب رپورٹ آئی ہے کہ اس کیس کی چارج شیٹ میں بھاجپا ایم ایل اے کا نام ہی نہیں ہے۔
کٹھوعہ میں جو ہوا، اس نے انسانیت کو شرمندہ کردیا۔ یہاں ایک مسلم بکروال کمیونٹی کی آٹھ سال کی بچی آصفہ کو ایک مندر میں بند کر کے کئی دن تک اس کے ساتھ پجاری ، اس کے رشتہ دار اور پولیس اہلکاروں نے عصمت دری کی اور بالآخر اس کا قتل کر دیا۔یہاں مجرموں کی حمایت میں بی جے پی کے ایم ایل اے، وزیر اور نیتا اٹھ کھڑے ہوئے اور محض اس لئے معاملے کو مذہبی رنگ دینے لگے کہ بچی مسلمان تھی اور زانی ہندو تھے۔ اس مظلوم بچی کا مقدمہ لڑ رہی خاتون وکیل جو کہ ایک ہندو ہے، اسے بھی ریپ اور قتل کی دھمکی مل چکی ہے۔ ایک ہندو وادی تنظیم اور بی جے پی کے لیڈر اور کارکن مل کر یہاں جلوس نکالتے رہے ہیں اور اس کیس کو ایک جرم کے بجائے ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ۔یہ دونوں واقعات، بی جے پی کے زیر اقتدار علاقوں میں ہوئے۔ ان واقعات سے پوری دنیا میں پیغام جا رہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کے لئے نہ انسانی اقدار کا کوئی مطلب ہے، نہ ہی جمہوریت کا،اس کی نظر میں صرف فوری سیاسی مفادکی اہمیت ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہونے لگاہے کہ ہمارے پرکھوں نے مختلف ثقافتوں، مذاہب اور کمیونٹیز کے ساتھ اشتراک عمل کے ذریعے ہزاروں سال میں جو سماجی تانا بانا بنا ہے، وہ آنے والے سالوں میں بکھر سکتا ہے۔ کیا سیاست کا یہ انداز ملک کو بدقسمتی کے اندھیرے کنویں میں دھکا نہیں دے گا؟ کیا آنے والے ایام ملک کے لئے امید افزا ہیں؟
مدرسے کے خلاف احتجاج
دہلی کے غازی پور علاقے میں رہنے والی ایک نابالغ لڑکی کا یوپی کے غازی آباد علاقے کے ایک مدرسے میں ریپ ہوا ،جس کے الزام میں ایک لڑکے کو گرفتار کیا گیا ۔ یہ لڑکا خود کو نابالغ بتاتا رہا مگر پولس نے میڈیکل جانچ کے ذریعے اسے بالغ ثابت کیا اور اعلان کیا کہ اس پر بالغ کی طرح ہی کیس چلے گا۔اس ریپ کے کیس میں پولیس نے غلام شاہد نامی ایک مولوی کوبھی گرفتار کیا ہے جو مدرسہ میں ٹیچر ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے واقعے کو دیدہ ودانستہ چھپانے کی کوشش کی۔ متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ملزم نوجوان، اسے مدرسہ لے کر گیا تھا اور اس کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر اس کی عصمت دری کی تھی۔اس کیس کے سامنے آنے کے بعد بی جے پی اور کچھ دوسری ہندو وادی جماعتوں کے کارکن سڑکوں پر اتر پڑے اور اس گھناؤنے جرم کو بھی ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بناڈالا۔ انھوں نے احتجاج و مظاہرے کئے اور مجرم کو سزا دلانے کی مانگ کی۔ ظاہر ہے کہ یہ احتجاج خود بی جے پی کی یوگی حکومت کے خلاف تھا۔ حالانکہ ریپ کے جن معاملات میں متاثرہ اور زانی ایک ہی مذہب کے ہیں، وہاں ایسی کوئی بات نہیں اٹھتی ہے اور احتجاج نہیں کیا جاتا ہے۔ ملک میں اب تک بے شمار ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں زانی اور متاثرہ ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں بھگواوادیوں کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں ہوتا ہے۔
زانیوں کے لئے ہمدردی کیوں؟
اپنے گھر کے زانیوں کے تئیں بھگواوادیوں کے دل میں کس قدر ہمدری پائی جاتی ہے ،اس بات کا اندازہ بھاجپا کے ایک پسندیدہ افسر کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ گجرات کے سابق آئی پی ایس افسر اور فرضی انکاؤنٹرس کے ملزم رہے ڈی جی ونزارا کا کہنا ہے کہ ریپ کا مجرم آسا رام ایک سنت ہے اور قابل احترام ہے۔ بھاجپا سرکار کے اس پسندیدہ افسر کا کہنا ہے کہ عصمت دری کی شکار لڑکی نے کبھی نہیں کہا کہ آسارام نے اس کے ساتھ جبراً ریپ کیا۔ایف آئی آر یا چارج شیٹ میں، کہیں بھی نہیں کہا گیاہے کہ لڑکی پر تشدد کیا گیا تھا۔ ڈی جی ونزارا نے کہا کہ اسے عصمت دری نہیں کہا جا سکتا، اس کے پیچھے سازش ہے۔ڈی جی ونزارا جیسے اور بہت سے آسارام کے بھکت ہونگے جو اسے کلین چٹ دے رہے ہونگے مگر کورٹ اس معاملے میں فیصلہ سنا چکا ہے اوربڑے بڑے نیتاؤں کے ممدوح آسا رام کو مجرم ٹھہرا یاچکا ہے۔
ریپ پر سیاست اور مجرم کا مذہب دیکھ کر انصاف کا پیمانہ بدلنے کی کوشش دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے ہلاکت خیز اشارہ ہے اور حکومت کے ذریعے مجرموں کی پشت پناہی کسی بھی جمہوری مملکت کے لئے تباہی کا پیغام ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتیں ہمارے ملک اور اس کے اتحاد کے لئے بھی فائدہ مند نہیں ہیں۔ ایک ملک میں ،انصاف کے دو پیمانے نہیں ہونے چاہئیں اور اس قسم کی گھٹیا سیاست کے خلاف اب عوام کو اٹھنا چاہئے۔اس ملک کو سیاست داں نہیں، عام شہری ہی بچاسکتے ہیں
۔(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
10؍جولائی2018(فکروخبر/ذرائع)
جواب دیں