اس قبل سعودی عرب کی دو شیعہ مساجد کو خودکش حملوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا تھا تو 26؍ جون کو کویت کی شیعہ مسجد کو ایک سعودی نوجوان فہد سلیمان بدالمحسن نے خودکش حملے کے ذریعہ اللہ کے گھر کے تقدس کو پامال کیا، اس حملہ کی ذمہ داری شت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش)نے قبول کی ہے۔اسی روز تیونس کے ساحلی سمندر پر واقع سیاحتی مقام سوسہ میں دو ہوٹلوں کے باہر سیاحوں پر فائرنگ اور دستی بموں کے ذریعہ حملہ کیا گیا جس میں 38افراد ہلاک ہوگئے یہاں پر حملہ آور کا تعلق دولت اسلامیہ سے بتایا جارہا ہے۔ فرانس میں بھی اسی روزایک گیس فیکٹری پر اسلامی پرچم تھامے ایک حملہ آور نے حملہ کیا جس میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ ان تینوں واقعات پر عالمی برادری نے سخت مذمت کی ہے ۔ تیونس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں میں تیونس، برطانیہ، بلغاریہ اور جرمنی کے افراد تھے۔دہشت گردی کے ان واقعات کے اصل ذمہ دار کون ہیں۔ ؟ جس طرح عالمی سطح پر کویت ، تیونس اور فرانس میں ہونے والے حملوں کے خلاف شدید الفاظ میں مذمت کی گئی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مذمتی بیانات یا دہشت گردی کے سدّباب کے لئے امریکی اور مغربی طاقتیں جس طرح عالمِ اسلام پر حملے کرتے ہوئے دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر عام شہریوں خصوصاً مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں اس سے بڑھتی ہوئی نام نہادجہادی شدت پسند تحریکوں کی دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔؟اتوار کی شام افغانستان میں سپاہیوں کے ایک قافلہ پرگھات لگاکر حملہ کیا گیا جس میں 11افغان سپاہی ہلاک ہوگئے ۔منگل کے روز یمن کے دارالحکومت صنعا کے ایک فوجی ہاسپتل کے پاس کاربم دھماکہ کیا گیا جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے مختلف ذرائع کے مطابق اس حملے کا ہدف حوثی باغیوں کے گھر بتائے جارہے ہیں جبکہ روئٹرز کے مطابق باغیوں کے ایک گروپ کو نشانہ بنایا گیا۔یمن گذشتہ سال ستمبر حوثی باغیوں کی جانب سے صدر عبد ربہ ہادی منصور کے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے شورش کا شکار ہے ، حوثی باغیوں نے صدر یمن کو آخر کار اس سال ماہ مارچ میں ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا جس کی وجہ سے وہ ملک سے فرار ہوکر سعودی عرب میں پناہ حاصل کئے ۔ عبدربہ ہادی منصور کی درخواست پرماہ مارچ سے سعودی قیادت میں عرب ممالک کی جانب سے حوثی باغیوں پرفضائی کارروائی کی جارہی ہے جس کے جواب میں حوثی باغیوں نے بھی سعودی عرب کے سرحدی شہروں پر حملے کررہے ہیں۔ حوثی باغیوں کی کارروائیوں کے خلاف یمن کے دارالحکومت صنعا میں شیعہ علاقہ میں ماہ صیام کی چاند رات کے موقع پر مغرب کی نماز کے وقت سلسلہ وار بم دھماکے کئے گئے جس میں 31افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی دولت اسلامیہ نے قبول کی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یمن سعودی عرب کی قیادت میں کئے جانے والے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے جس میں 1400عام شہری شامل ہے۔ مصرمیں دوشنبہ کے روز سرکاری وکیل ہشام برکات کے قافلہ پر قاہرہ کے مضافتی علاقہ ہیلی پولس میں حملہ کیا گیاجس میں وہ سرجری کے دوران ہاسپتل میں ہلاک ہوگئے ، ان کی گاڑی پر ہونے والے حملے میں انکے دو محافظ سمیت آٹھ افراد زخمی ہوگئے جبکہ تین عام شہری بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے۔ واضح رہے کہ 2013میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی (موجودہ مصری صدر)نے صدر محمد مرسی کی حکومت سے بغاوت کرتے ہوئے عبوری حکومت قائم کی تھی۔ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سرکاری وکیل ہشام برکات نے ہزاروں کی تعداد میں اخوان المسلمون کے خلاف مقدمات علانے کی سفارش کی تھی۔ اس ضمن میں اخوان المسلمین کے حامیوں کے خلاف کارروائی کے دوران سینکڑوں افراد کو سزائے موت یا عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ حال ہی میں مصر میں سرگرم دولت اسلامیہ نے چھ جنگجوؤں کی پھانسی کے بعد عدلیہ کے خلاف حملوں کا اعلان کیا تھا ہوسکتا ہے کہ ان کے خلاف شدت پسندوں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بدلہ لیا ہو۔شام، عراق،افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں بھی شدت پسندوں، حکمراں فوج و سیکیوریٹی فورسز اور شیعہ ملیشیاء کے درمیان حملوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسلامی ممالک میں ماہِ صیام کے دوران سلامتی کا ماحول رہنا چاہیے تھا لیکن ان ہی ممالک میں رمضان المبارک کے آغاز سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ دشمنانِ اسلام کی سازشیں کتنی کارگر ہوچکی ہیں اس کا اندازہ آج عالم اسلام میں ہونے والے خونریزاور تباہ کن حالات سے لگایا جاسکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شیعہ،اسلامی دنیا میں ایک بڑی طاقت ہونے کے حوالے سے ایران سمجھتا ہیکہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ لبنان، عراق، شام اور یمن سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ کی شیعہ برادریوں کو مسلح کرے اور ان کا دفاع کرے۔ یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں ہونے والے عرب اتحادی حملوں کے خلاف ایران نے حوثی باغیوں کی مدد کررہا ہے تو شام اور عراق میں بھی شیعہ ملیشیاء سنی مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ شدت پسندوں اور شیعہ ملیشیاء کے درمیان ہونے والی کارروائیوں میں سنی عام شہری ہلاک ہورہے ہیں۔ آج شام، عراق، افغانستان وغیرہ کے پناہ گزینیوں کا حال انتہائی برا ہے انہیں کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی اہم چیزیں مشکل سے فراہم ہورہی ہے ، دوائیوں کی شدید قلت جبکہ اقوام متحدہ جیسے ادارہ نے بھی پناہ گزینوں کی حالتِ زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انکی ضروریاتِ زندگی کے سامان مہیا کرنے کے سلسلہ میں تعاون کرنے کی درخواست کی ہے۔
دشمنانِ اسلام اگر مسلمانوں کو اس ماہِ مقدس میں نقصان پہنچاتے تو یہ الگ بات تھی لیکن جو اپنے آپ کو اسلامی جہادی تنظیموں کے طو رپر پیش کرتے ہیں وہ خود مسلمانوں کے قتلِ عام کے مجرم بن رہے ہیں۔ یہ مسالک کی بنیاد پر جس طرح مسلمانوں کا قتل کررہے ہیں اس سے انسانیت شرمسار ہوتی جارہی ہے۔ دشمنانِ اسلام کو اب مسلمانوں کے خلاف لڑائی کرنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ انہو ں نے جس طرح مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا تھا ڈال دیا اور اب وہ اسکا نظارہ کررہے ہیں۔ مسلمان مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے جارہے ہیں۔ اسلام نے سلامتی کا جو درس دیا ہے اسے فراموش کیا جارہا ہے۔ شدت پسند یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کسی بھی شیعہ و سنی مسجد، اولیاء اللہ کے مزارات، عام مقامات، دفاتر و کاروباری اداروں پر حملے کرکے انسانیت کی ہلاکت کا سبب بننا جہاد ہے تو یہ انکی خام خیالی ہے کیونکہ اسلام نے کبھی بے قصور اور عام لوگوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسلامی تعلیمات نے جس طرح انسانیت کی بقاء و خوشحالی کے لئے راہیں فراہم کیں ہیں اسے پڑھنے، سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف دنیا نئی نئی ایجادات کے ساتھ ترقی کرتی جارہی ہے تو دوسری جانب شدت پسند دہشت گردی کے ذریعہ خوشحال عوام کو مجبورو لاچار کرتے ہوئے ان کی جانوں اور معیشت کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم حکمراں متحدہ طور پر دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے نمٹتے ہوئے شدت پسندوں کے نا پاک عزائم کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھائیں۔ اگر اسلامی حکومتیں اسی طرح شدت پسندوں کو مواقع فراہم کرتی رہیں تو عالمِ اسلام بہت جلد امیر ترین ممالک کی صف سے نکل کر دہشت گرد ممالک کی صف میں چلا جائے گا کیونکہ اسلام کی بقاء و عظمت اور ترقی کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی چاہے مسالک کی بنیاد پر ہو یا مذہب کی بنیاد پر۔
غزہ کی پٹی کیلئے عالمی برادری سے اپیل
غزہ کی پٹی کا محاصرہ توڑنے کیلئے سرگرم اتحاد کے مطابق فریڈم فلوٹیلا 3 میں شامل چار بحری جہازوں کا قافلہ یونان کی کریت بندرگاہ سے اسرائیلی ناکہ بندی کے شکار غزہ کی جانب روانہ ہوگیا لیکن اسرائیل کے مطابق فلوٹیلاکی رہنمائی کرنے والی کشتی کو غزہ پہنچنے سے روک دیا گیااور پرتشدد کارروائی کے بغیراسے اسرائیلی بندرگاہ کی طرف موڑ دیا گیا۔ فریڈم فلوٹیلا 3 کی انتظامیہ میں شامل ’انسداد معاشی ناکہ بندی غزہ‘ کے رکن رامی عبدہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ فریڈم فلوٹیلا 3 میں شامل چار بحری جہاز یونان کی کریت بندرگاہ سے غزہ کی جانب روانہ ہوگئے ہیں جبکہ پانچواں بحری بیڑہ جلد ہی ان کیساتھ شامل ہوجائیگا۔رامی عبدہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی سے فریڈم فلوٹیلا کشتیاں امدادی جہازوں کے استقبال کیلئے غزہ کے ساحل پر موجود ہیں لیکن اسرائیل نے اسے پہنچنے سے روک رکھا ہے ۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی آبی گزرگاہ اور بندرگاہ کے قیام میں مدد کرے اور اہل غزہ کا عالمی برادری سے رابطہ ممکن بنائے۔ فریڈم فلوٹیلا 3 صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر محصورین غزہ کی مدد کررہا ہے کیونکہ غزہ کی پٹی کے 15 لاکھ کے قریب لوگ پچھلے 8سال سے صہیونی جبرو تشدد اور وحشیانہ ناکہ بندی کا شکار ہیں۔رامی عبدہ نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی امدادی جہازوں کو غیرآئینی قراردینے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنا غیر آئینی کام نہیں بلکہ وسیع علاقے کو کھلی جیل میں تبدیل کرنا اور ان کی ہرطرف سے ناکہ بندی کرنا بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ غزہ کے عوام کی اعانت کے لئے آگے آئیں اور اسرائیلی ناپاک عزائم کے خلاف آواز اٹھائیں۔
جواب دیں