رام پال اور آسا رام کے علاوہ بھی بہت سے سادھوا ورباباعوام کو دھوکہ دیتے رہے ہیں

دنیا کی بڑی سے بڑی سودے بازی میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے اور حکمرانوں کے اقتدار میں ساجھے داری رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس قسم کے سادھو اور بابا ہوتے رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔سنت رام پال کی مثال تازہ ہے جس کے فائیو اسٹار آشرم میں عیش وآرام کا سارا سامان موجود تھا۔ یہاں تک کہ خواتین کے باتھ رومس میں کیمرے لگے ہوئے پائے گئے اور پریگننسی ٹسٹ کٹس بابا کے کمرے میں ملی ہیں۔ خطرناک ہتھیار جو دستیاب ہوئے ہیں وہ الگ ہیں۔ بھارت میں اس قسم کے باباؤں کی کسی زمانے میں کوئی کمی نہیں رہی ہے ۔ ان میں فی الحال چندراسوامی، بابا رام دیو، آسارام، نرمل بابا، بابا رام رحیم جیسے نام آتے ہیں تو ماضی میں دھیرین برہمچاری، ستیہ سائی بابا جیسے نام آتے رہے ہیں۔ یہ تمام وہ نام ہیں جن کے پاس دولت کی ریل پیل رہی اور اسی کے ساتھ سیاسی اثر ورسوخ بھی رہا۔ ان کے تعلقات ملک وبیرونِ ملک کی ناموراور طاقتور شخصیات سے رہے اور اکثر تنازعات میں بھی پھنستے رہے اور آج کل تو ایسے سادھو، سادھوی اور بابا نظر آرہے ہیں جو باقاعدہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبر ہیں اور حکمرانی میں شامل ہیں۔ایسے باباؤں کی کمی نہیں جو ٹی وی پر جلوہ افروز ہوکر عوام کو لوٹتے ہیں اور کروڑوں کا بینک بیلنس بنارہے ہیں۔ان میں سے بیشتر ڈھونگی بابا شادی نہیں کرتے ہیں مگر خواتین کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتے۔ بعض ہم جنس پرست ہیں اور اپنے سب سے قریبی چیلے کو اسی مقصد سے اپنا رازدار بنائے رہتے ہیں۔
دھرین برہمچاری
ہندوستانی سیاست پر باباؤں کے اثر انداز ہونے کی شروعات دھرین برہمچاری سے ہوتی ہے جسے ملک کے اولین وزیر اعظم جواہرلعل نہرو نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے لئے ’’یوگ گرو‘‘کے طور پر رکھا تھا۔ اندرا گاندھی کا گرو ہونے کے سبب اس کے تعلقات قومی اور
بین الاقوامی شخصیات سے ہوگئے اور وہ سیاست پر اثر انداز ہونے لگا۔ ۱۹۲۴ء میں ریاست بہار کے مدھوبنی ضلع کے بسیٹھ چان پور گاؤں میں جنم لینے والے دھرین برہمچاری نے سرکاری مدد سے دلی اور جموں وکشمیر میں کئی آشرم بنا رکھے تھے۔ اس نے یوگ گرو کی حیثیت سے ساری دنیا کے سفر کئے، اس موضوع پر کتابیں لکھیں اور اسے فروغ دینے میں اہم کردار نبھایا۔ ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کے دور میں تو اس کا اثر خاص طور پر بڑھ گیا تھا۔ اس کے اور اندرا گاندھی کے بیچ تعلقات کی نوعیت پر طرح طرح کی باتیں کی جاتی تھیں مگر حقیقت کیا ہے ،کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا۔ اس کے پاس اپنی ہتھیار فکٹری تھی اور کئی قسم کی جائیداد تھی۔اس کے پاس کثیر دولت جمع ہوگئی تھی اور یہ اپنے پرائیویٹ ہیلی کاپٹر سے سفر کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۴ء میں اس کا ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہوگیا اور اس کی موت ہوگئی۔ کوئی وارث نہ تھا لہٰذا اس کی دولت کی بندربانٹ ہوگئی۔ 
چندراسوامی
جس دوسرے بابا کو عروج حاصل ہوا وہ تھا چندرا سوامی۔ یہ پی وی نرسمہاراؤ کا قریبی تھا جو کہ اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر تھے۔ انھوں نے چندرا سوامی کو اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے ملوایا اور دوسرے منتریوں سے بھی ملوایا۔ یہی نرسمہا راؤ بعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی ہوگئے۔ اس طرح اس کے تعلقات ساری دنیا کی بااثر شخصیات سے ہوگئے جن میں برونئی کے سلطان ، بحرین کے حکمراں اور برطانیہ کی وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر سے لے کر ہالی ووڈ اداکار بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی اہم عالمی شخصیات اور متنازعہ لوگ اس سے ملتے جلتے تھے جن میں ہتھیاروں کا عالمی اسمگلر عدنان خشوگی بھی تھا۔۱۹۹۱ء میں سری لنکا کے علاحدگی پسند گروہ ایل ٹی ٹی ای اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے تعلقات کی خبریں بھی آئیں۔ چندرا سوامی کا اصل نام نیمی چند تھا اور اس کی پیدائش ۱۹۴۸ء میں راجستھان میں ہوئی تھی مگر پرورش حیدرآباد میں ہوئی۔ اس نے بچپن میں جادو ٹونا سیکھنا شروع کیا تھا اور اسی لحاظ سے ایک روحانی گرو کے طور پر وہ نرسمہاراؤ کے رابطے میں آیا۔ چندرا سوامی پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر مالی گربڑی کرنے کے کئی الزمات لگے اور اسے جیل بھی جانا پڑا۔ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف کئی معاملے چلے اور سی بی آئی نے بھی کئی معاملوں کی انکوائری کی جن میں سے بعض اب بھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ کچھ معاملات میں سبرامنیم سوامی، جے جے للیتا،آر کے کمار اور سابق صدر بھیروں سنگھ شکھاوت کے ربط بھی سامنے آئے۔اس کی دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں اس لحاظ سے یہ ہائی پروفائل باباؤں میں شامل ہے۔ 
ستیہ سائیں بابا
ستیہ سائیں بابا کو بھی ملک و بیرون ملک کے عقیدت مندوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کے چاہنے والے ساری دنیا سے آیا کرتے تھے۔ وہ اکثر چمتکار بھی دکھاتے تھے جس سے عقیدت مند گرویدہ ہوجاتے تھے۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ شرڈی کے سائیں باباکے اوتار ہیں اور اس طرح سے ان کی چاہنے والوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کی۔ ستیہ سائیں بابا نے سیاسی لوگوں کے گرد چکر نہیں کاٹے بلکہ ہر قسم کے لوگوں کو اپنے ہی پاس جمع کیا۔ ان پر مالی بدعنوانی کے ویسے الزامات تو نہیں لگے مگر جنسی بے راہ روی کے الزمات لگے اور ان کے کئی دیسی اور ودیسی بھکتوں نے جنسی استحصال کا الزام عائد کیا۔ ان میں بعض مرد بھی شامل تھے جن کا کہنا تھا کہ
سائیں بابا نے ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرناچاہا۔ ان کی پیدائش ۱۹۲۶ء میں آندھراپردیش کے علاقے میں ہوئی اور ستیہ نرائنا راجو نام رکھا گیا جسے انھوں نے بعد میں بدل ڈالا۔ انھوں نے ناگپورکو اپنا مرکز بنایا اور خوب دولت جمع کی جو عقیدت مندوں کے نذرانے سے آتی تھی۔ ان کی موت ۲۰۱۱ء میں ہوئی اور دولت پر لالچی لوگوں کو نظریں ٹکی ہوئی تھیں کیونکہ اان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور نہ ہی ان کے رشتہ دار تھے لہٰذاسب کچھ سائیں ٹرسٹ میں چلا گیاجس کے پاس ایک سو چار لاکھ کروڑ کی دولت ہے۔
یوگ گرورام دیو
ان دنوں سب سے زیادہ عروج پر ہیں بابا رام دیو جن کے تعلقات وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر تمام اعلیٰ اور بارسوخ افراد سے ہیں۔ ملک کا شاید ہی کوئی بڑانیتا ہوگا جس سے ان کے روابط نہ ہوں۔ ان کی شہرت یوگ کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ہوئی اور اسی کے ساتھ انھوں نے آشرم بنانا شروع کیا نیز دوائیں بھی فروخت کرنے لگے جس نے ان کی آمدنی میں اضافہ کیا۔ صرف آٹھوین جماعت تک تعلیم یافتہ رام دیوکو دولت ان کے گرو سے بھی ملی تھی جو پراسرا طریقے سے غائب ہوچکے ہیں اور بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ ان کی موت میں رام دیوکا ہی ہاتھ ہے۔ان کی جائیداد بے حد وحساب ہے اورمختلف حکومتوں کی مدد سے انھوں نے پورے ملک میں کئی آشرم بنائے ہیں۔ پتنجلی پیٹھ کے نام سے وہ ادارہ چلاتے ہیں جس کے تحت دواؤں کا کاروبار ہوتا ہے اور کچھ دوسرے کام بھی ہوتے ہیں۔کہنے کو ان کا بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے مگر وہ اپنے ذاتی چارٹرڈ پلین سے سفر کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے یوروپ میں کوئی جزیرہ خریدرکھا ہے۔ ان پر ٹیکس چوری اور دوسرے الزامات بھی لگتے رہے ہیں اور جانچ کی مانگ اٹھتی رہی ہے مگر اب تک کسی قسم کی جانچ نہیں گئی۔وہ ۱۹۶۵ء میں ہریانہ میں پیدا ہوئے اور اصل نام رام کرشنا یادو تھا۔ان دنوں وہ اپنی بچاؤ کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کی قربت چاہتے ہیں۔
آسارام
آج کل جن باباؤں کا چرچا ہے ان میں ایک اہم نام آسارام کا ہے جو ایک نابالغ کے ریپ کے الزام میں جیل میں قید ہے۔ اس پراسی قسم کے دوسرے الزامات بھی ہیں جن کا تعلق جنسی بے راہ روی سے ہے۔ اس کے احمدآباد آشرم میں چلنے والے اسکول میں دو طلبہ کی مشکوک حالت میں موت ہوگئی تھی مگر اس معاملے کی ٹھیک طریقے سے جانچ نہیں ہوپائی۔ آسارام نے پورے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں اپنے آشرم، اسکول اور دوسرے ادارے کھول رکھے تھے ۔ اس کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ، جو اکثر اس کے مذہبی پروگراموں میں شریک ہوتے تھے مگر مذہب اور روحانیت کی آڑ میں اس نے ایک طرف دولت جمع کی تو دوسری طرف جنسی کھیل بھی کھیلتا رہا جس کا آخرکار بھانڈہ پھوڑ ہوگیا۔ اس کی دولت اور جائیداد کا کوئی تھاہ نہیں ہے مگر پولس نے جس دولت کا پتہ لگایا ہے اس کی قیمت دس ہزار کروڑ سے زیادہ ہے ۔ آسارام کی پیدائش ۱۹۴۱ء میں موجودہ پاکستان کے شہید بے نظیرآباد ضلع میں ہوئی تھی اور اصل نام آسومل ہرپلانی ہے۔ان دنوں آسارام کے ستارے گردش میں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا بیٹا نارائن سائیں بھی جیل میں ہے جو خود بھی اسی قسم کی حرکتوں میں ملوث تھا جس طرح حرکتیں اس کا باپ کرتا تھا۔ 
نتیا نند سوامی
متنازعہ باباؤں کی فہرست میں ایک نام نتیا نند سوامی کا بھی ہے جو نوجوان ہے مگر کم مدت میں ہی شہرت اور دولت دونوں پائی ہے۔ ۱۹۷۸ء میں پیدا ہوئے نتیانند سوامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے چہرے کی طرح اس کا دل بھی سیاہ ہے۔ وہ پروچن کے لئے لاکھوں روپئے فیس لیتا ہے اور اپنے عقیدت مندوں سے خوب دولت کماتا ہے۔ اس کے آشرم میں جن لوگوں نے اب تک حاضری دی ہے ان میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ ایک جنوبی ہند کی اداکارہ کے ساتھ جنسی تعلقات کا ویڈیو بھی اس کا سامنے آچکا ہے جسے ابتدائی طور پر تمل ٹی وی چینل SUNنے دکھایا تھا۔ نتیا نند سوامی کو بھی اپنی گندی حرکتوں کے سبب جیل جانا پڑا تھا اور اب وہ ضمانت پر باہر ہے۔ 
نرمل بابا 
ان دنوں جن باباؤں کو ٹی وی پر دیکھا جارہا ہے ان میں ایک بڑا نام ہے نرمل بابا کا ،جس کا اصل نام نرمل جیت سنگھ نرولا ہے اور ۱۹۵۲ء میں پنجاب میں پیدائش ہوئی تھی۔ یہ ایک سکھ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے مگر اس نے اپنے سر کے بال اور داڑھی کو منڈوالیا ہے۔ اس کا خاندان پنجاب کا رہنے والا تھا جو جھارکھنڈ منتقل ہوگیا تھا۔ اس نے کئی دھندھے کئے مگر چل نہیں پائے تو بابا گیری شروع کردی۔ اس کے پروگراموں میں شرکت کی فیس سبھی عقیدت مندوں سے دو، دوہزار روپیئے لی جاتی ہے اور ہزاروں لوگ اس کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے جمع کراتے ہیں۔ اس طرح پچھلے سال تک مختلف بینک کھاتوں میں سینکڑوں کروڑ روپئے جمع ہوچکے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ وہ ایک ایک ٹی وی چینل کو سالانہ کروڑوں روپئے اپنے اشتہار کے لئے دیتا ہے۔ 
باباگرمیت رام رحیم 
ڈیرا سچا سودا کے بانی بابارام رحیم کا اصل نام گرمیت سنگھ ہے جس کی پیدائش راجستھان کے گنگانگر ضلع میں ۱۹۶۷ء میں ایک سکھ خاندان میں ہوئی۔اس نے اپنا الگ فرقہ بنایا جسے ڈیرا سچا سودا کا نام دیا۔ اس کا لباس پاپ سنگرس اور اسٹیج پرفارمرس جیسا ہوتا ہے اور اسی قسم کے بھجن بھی گاتا ہے جس سے عقیدت مند ڈانس کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اس نے اپنے اثرات بڑھا لئے ہیں اور دولت بھی جمع کرلی ہے۔ حالیہ ہریانہ اسمبلی الیکشن میں اس نے بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس علاقے میں اس کے عقیدت مند اتنی تعداد میں ہیں کہ الیکشن پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس کے خلاف بھی کئی سنگین الزامات ہیں جن میں جنسی استحصال سے کر بدعنوانی تک کے شامل ہیں مگر اپنے اثرات سے بچ رہا ہے۔

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے