عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
ماہِ رمضان کی آمداسلامیان عالم کے لیے بہار ِگلستاں اورنویدِِجاں فزا سے کم نہیں ہے بالخصوص اِن سنگین حالات میں جو شامت اعمال کے سبب ہمارا مقدر بن چکے ہیں۔اور ہم بدلتے حالات سے سبق لینے،انعامات باری کی قدرکرنے اور زندگیوں میں صالح انقلاب برپا کرنے کے بجائے اپنی سابقہ روش پر قائم ہیں۔حق تعالی رحم وکرم کا معاملہ فرمائے،ہماری لغزشوں کو درگزرفرمائے،اس ابتلا وآزمائش کو ختم فرمائے اور تغیرات عالم سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
رمضان کایہ مہینہ برکتوں اوررحمتوں کاخزینہ ہے،اس مہینے کی پہلی رات کو شیاطین جکڑدیے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،مومن کا رزق بڑھادیاجاتاہے،نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب سترفرائض کے برابر کردیا جاتاہے،حق تعالی کی طرف سے دعاؤں کی قبولیت اور بندوں کی مغفرت کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔مشہور تابعی حضرت کعب احبار فرماتے ہیں:”اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی کچھ ساعتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے فرض نمازیں بنائیں، اور دنوں کومنتخب کرکے اُن میں سے جمعہ بنایا،مہینوں کو منتخب کرکے اُن میں سے رمضان کا مہینہ بنایا، راتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے شبِ قدر بنائی اور جگہوں کو منتخب کرکے اُن میں سے مساجد بنائی“۔(شعب الایمان:3363)اِس سے معلوم ہوا کہ رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ ہے اور تمام مہینوں میں بطورِ خاص اِس کا انتخاب کیا گیا ہے۔
فضائلِ رمضان:
رمضان شریف کے فضائل و اعمال سے متعلق ایک جامع روایت حضرت سَلمان ؓ کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺنے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وَعظ فرمایا اور کہا: تمھارے اوپر ایک مہینہ آرہاہے جوبہت بڑا مہینہ ہے،بہت مبارک مہینہ ہے، اِس میں ایک رات ہے (شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کرہے،اللہ تعالیٰ نے اِس کے روزے کو فرض فرمایا، اور اِس کے رات کے قِیام (یعنی تراویح)کو ثواب کی چیز بنایا ہے، جو شخص اِس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حا صل کرے ایسا ہے جیساکہ غیرِ رمَضان میں فرض اداکیا، اور جو شخص اِس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایساہے جیساکہ غیرِ رمَضان میں سَتَّر فرض اداکرے۔ یہ مہینہ صبرکا ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے، اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے،اِس مہینے میں مومِن کا رِزق بڑھا دیاجاتاہے، جو شخص کسی روزے دار کا روزہ اِفطارکرائے اُس کے لیے وہ گناہوں کے مُعاف ہونے اور آگ سے خَلاصی کا سبب ہوگا، اورروزے دار کے ثواب کی مانند اُس کو ثواب ہوگا؛مگر اُس روزے دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا، صحابہ نے عرض کیا:یارسولَ اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اِتنی وُسعَت نہیں رکھتا کہ روزے دارکو اِفطار کرائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ثواب تو اللہ جَلَّ شَانُہٗ ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے، یاایک گھونٹ پانی پلادے، یاایک گھونٹ لَسِّی پلادے اُس پر بھی مَرحَمَت فرمادیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اِس کااول حصہ اللہ کی رحمت ہے، اور درمیانی حصہ مَغفِرت ہے، اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔ جوشخص اِس مہینے میں ہَلکا کر دے اپنے غلام وخادم کے بوجھ کو، حق تعالی اُس کی مغفرت فرماتے ہیں، اور آگ سے آزادی کا پروانہ عطا فرماتے ہیں۔نیز چارچیزوں کی اِس میں کثرت رکھا کرو، جن میں سے دوچیزیں اللہ تعالیٰ کی رَضاکے واسطے،اور دوچیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمھیں چارہئ کار نہیں۔ پہلی دوچیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہئ طَیَّبہ اور اِستِغفارکی کثرت ہے، اور دوسری دوچیزیں یہ ہیں: جنَّت طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزے دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میری حوض سے اُس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ (رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ)
اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓسے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:پانچوں نمازیں، جمعہ سے جمعہ تک اور ایک رمضان سے لے کر دوسرے رمضان تک اُن تمام گناہوں کا کفارہ ہیں جو اُن کے درمیان ہوتے ہیں، جبکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔(مسلم)
ذخیرہئ احادیث میں جہاں رمضان المبارک کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں، وہیں اس کی ناقدری پر وعیدیں بھی ذکر کی گئیں ہیں۔ حضرت کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منبر کے قریب ہونے کا حکم دیا، ہم حاضر ہو گئے، پھر آپﷺنے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ”آمین“جب دوسرے درجے پر قدم رکھاتو فرمایا ”آمین“ جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا ”آمین“ ہم نے عرض کیا،یا رسول اللہ ﷺ!آج ہم نے آپﷺ سے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہ سنی تھی،تو آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ (جب میں نے پہلے درجے پر قدم رکھا) اس وقت حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے اور انہوں نے یہ بددعا کی تھی کہ وہ شخص ہلاک ہو، جسے رمضان کا مہینہ ملے اورپھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو،تو میں نے کہا، آمین۔ پھر جب میں نے دوسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا، وہ شخص برباد ہو جس کے سامنے آپﷺ کا ذکرمبارک کیا جائے اوروہ آپﷺ پر درود نہ بھیجے، تو میں نے کہا آمین، پھر جب تیسرے درجے پر چڑھا توحضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ شخص بھی ہلاک ہو جو زندگی میں اپنے والدین یاان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کرائیں تو میں نے کہا۔آمین۔(الترغیب و الترہیب)
اعمالِ رمضان:
چارچیزوں کی کثرت:اوپرفضائل رمضان کے ذیل میں رقم کردہ حضرت سلمان فارسی ؓ کی روایت میں اس بات کی وضاحت بھی ہے کہ نبی کریم ﷺنے رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت کا حکم فرمایا: اوَّل: کلمہئ طیبہ۔احادیث میں اِس کو اَفضلُ الذِّکرفرمایاگیاہے، مشکوٰۃ میں بروایتِ ابو سعید خُدری ؓ منقول ہے کہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ: یااللہ! تُو مجھے کوئی ایسی دعا بتلادے کہ اُس کے ساتھ مَیں تجھے یاد کیاکروں اور دعا کیا کروں، وہاں سے(لا الہ الّااللہ)ارشاد ہوا، حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ: یہ کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں،مَیں تو کوئی دعا یا ذکرِ مخصوص چاہتاہوں، وہاں سے ارشاد ہوا کہ: اے موسیٰ! اگرساتوں آسمان اور اُن کے آباد کرنے والے یعنی ملائکہ (میرے سِوا) اور ساتوں زمین ایک پلڑے میں رکھ دیے جاویں، اور دوسرے میں کلمہئ طیبہ رکھ دیا جاوے تو وہی جھک جائے گا۔دوسری چیز جس کی کثرت کرنے کو حدیثِ بالامیں ارشاد فرمایا گیا وہ اِستِغفار ہے، احادیث میں اِستغفار کی بھی بہت ہی فضیلت وارد ہوئی ہے: ایک حدیث میں وارد ہواہے کہ: جو شخص استغفار کی کثرت رکھتاہے حق تَعالی ہرتنگی میں اُس کے لیے راستہ نکال دیتے ہیں، اور ہر غم سے نجات نصیب فرماتے ہیں، اور ایسی طرح روزی پہنچاتے ہیں کہ اُس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔اِس کے بعد حضور ﷺنے دوچیزوں کے مانگنے کا اَمر فرمایاہے جن کے بغیر چارہ ہی نہیں: جنت کا حُصُول اور دوزخ سے اَمن۔ (ملخص از فضائل رمضان)
تراویح و تہجد:رمضان کے خصوصی اعمال میں ایک اہم عمل نمازِتراویح بھی ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے ایمان کے جذبے سے اورثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دئیے گئے، اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے گئے، اور جس نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے، اس کے پہلے گناہ بخش دئیے گئے۔“ (مشکوٰۃ)اور ایک روایت میں ہے کہ: ”اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے۔“(نسائی، ترغیب)
رمضان المبارک کے دوران اور غیر رمضان میں بھی حضور اکرم ﷺکا نماز تہجد کی ادائیگی کے حوالے سے معمول مبارک یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجد میں آٹھ رکعت ادافرماتے‘ جس میں وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی طریقہ حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے۔تہجد کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے پہلے صالحین کا یہ عمل رہا ہے۔“(جامع ترمذی)
قرآنِ کریم کی تلاوت اور جود و سخاوت: قرآن مجید کا ماہ ِرمضان سے خاص تعلق ہے،جیساکہ اللہ تعالی نے رمضان کا تعارف نزول قرآن کے مہینے سے فرمایاہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جبکہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے، آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، پس آپ سے قرآنِ کریم کا دور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔ (صحیح بخاری)اسی طرح حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔“(بیہقی شعب الایمان، بغوی شرح السنۃ، مشکوٰۃ)
اِعتکافِ مسنون: رمضان کے اخیر عشرے کے خصوصی اعمال میں اعتکاف بھی ہے۔ حضر ت حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان میں (آخری) دس دن کا اِعتکاف کیا، اس کو دو حج اور دو عمرے کا ثواب ہوگا۔“(بیہقی،ترغیب) نیزحضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اِعتکاف کیا،اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے کہ ہر خندق کافاصلہ مشرق و مغرب سے زیادہ ہوگا۔“ (طبرانی اوسط، بیہقی، حاکم، ترغیب)
کرنے سے متعلق ان اہم امور کے علاوہ روزہ کی حالت میں ہر قسم کے گناہوں سے مکمل اجتناب بھی ضروری ہے،اِس لئے کہ روزہ صرف ظاہری طور پر کھانے پینے سے رُکنے کا نام نہیں؛ بل کہ روزہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور تمام گناہوں سے بچنے کی ایسی مشق کا نام ہے،جس میں بندوں سے حلال اور جائز لذتوں کو ترک کرواکر حرام لذتوں کے ترک کی عملی مشق کروائی جاتی ہے، اب اگر کوئی روزے کی حالت میں جائز لذتوں کوتو ترک کردے اورجھوٹ،غیبت، بدنظری وغیرہ جیسی حرام لذتوں کوحاصل کرنے میں لگارہے تو ظاہر ہے کہ اُسے روزے کی حقیقت اور مقصد تک کیسے رَسائی ہوسکتی ہے، اِسی لئے تو نبی کریمﷺنے ایسے لوگوں کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے:کتنے ہی روزہ رکھنے والے ایسے ہیں جنہیں اُن کے روزے سے سوائے بھوک کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔(سنن ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ ہم تمام کورمضان کی عَظمت و اہمیت کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں