رمضان کے روزوں کے لئے ایمان و احتساب کا حکم

 ابونصر فاروق

(۱)    حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے،اُ س کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔(بخاری،مسلم)
    ماہ رمضان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس مہینے میں اہل ایمان کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن گناہوں کا معاف ہونا گنگا اشنان کی طرح نہیں ہے کہ کوئی بری عادتوں کو نہ چھوڑے،نیک بننے کی کوشش نہ کرے، اللہ کی نافرمانی میں جیسے لگا ہوا ہے ویسے ہی لگا رہے،جیسے تیسے روزے رکھ لے اور رمضان گزرتے ہی تمام گناہوں سے پاک صاف ہونے کا پروانہ حاصل کر لے۔غیر مسلموں کے ساتھ رہتے ہوئے اُن کے عقائد و خیالات نے اہل ایمان کو ایسا متاثر کیا ہے کہ وہ بھی اُن کے مذہب کی طرح اسلام کو سمجھنے لگے ہیں۔ اور پھر دنیا پرست اور زرپرست جاہل مولویوں نے بھی اُن کو یقین دلا دیا ہے کہ برائی چاہے جتنی بھی کرو شافع محشر حضرت محمد ﷺ تو اللہ سے لڑ کر تم کو جنت کا حقدار بنا ہی دیں گے۔اس لئے اللہ سے ڈرنے کی جگہ رسول اللہ ﷺ سے فریاد اور امداد کی التجا کرتے رہو۔
    اس حدیث میں رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ روزہ دار کو ایمان کی تمام شرطیں اور ہر تقاضے کو پورا کرنا ہوگا اور ہر روز اپنا جائزہ لیتے رہنا ہوگا کہ اب گناہوں سے کتنی دوری ہوئی اور دل دماغ کس قدر نیکی کی راہ پر چلا تب پچھلے تمام گناہوں سے نجات کا پروانہ ملے گا۔
(۲)    حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:آدم کے بیٹوں کے ہر عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، روزے کے سوا، کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، کیونکہ میرا بندہ میری ہی وجہ سے اپنی خواہش اور اپنے کھانے پینے کو چھوڑ دیتا ہے۔(بخاری،مسلم)
    ہر انسان کی زندگی میں گناہ بے انتہا ہے اور نیکی کا نام و نشان نہیں ہے۔اللہ رحمن و رحیم نے بندوں کے لئے ایسا انتظام کیا ہے کہ پچھلی پوری زندگی بھی اگر گناہوں میں گزری ہے تو ایک مہینے کی عبادت اوریاضت کے بعد اللہ تعالیٰ اتنا زیادہ اجر و انعام دے گاکہ بدی کم پڑ جائے گی اور نیکی اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ بندہ جنت کا حقدار بن جائے گا۔
(۳)    حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ ایسا آدمی اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔(بخاری)
    اس حدیث میں یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر روزہ دار رمضان میں بھی اپنی شیطانی چالبازیوں میں لگا ہوا ہے، نہ جھوٹ بولنا چھوڑ رہا ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب سے بچ رہا ہے(جو جھوٹ پر عمل کرنا ہے) تو ایسے روزہ دار کو رمضان کا مہینہ کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔اُس کے دکھاوے کے روزے، گنڈے دار تراویح کی نمازیں اور دنیا پرستی کی بیماری اُس کو جنت کا نہیں جہنم کا حقدار بنا کر رہے گی۔
    حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:روزہ اور قرآن بندے کے لئے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے رب! میں نے دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے اسے روکا تھا، اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما۔قرآن عرض کرے گا، میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکا تھا، اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما۔(بیہقی)
    جن لوگوں نے رمضان اور روزے کے استقبال میں اپنے آپ کو بدل لیا، اپنی عادتیں،رویے اور طور طریقے کو بدل کر پاکباز، نیک، صالح اور متقی مومن بن گئے تو یہ روزہ اور قرآن بھی اُن کی بخشائش کی اللہ سے سفارش کریں گے اور اُس کو جنت کا حقدار بنادیں گے۔قرآن کی سفارش اس لئے ہوگی کہ تراویح میں قرآن سنا جاتا ہے اور یہ لمبی نماز ہوتی ہے۔جن لوگوں کو قرآن سے شوق اور شغف نہیں ہے اُن کا دل تراویح کی نماز میں نہیں لگتا ہے  ذہن بھٹکتا رہتا ہے۔اس عمل میں پیشہ ور حافظ اورقاری بھی شامل ہوتا ہے۔وہ قرآن اس طرح پڑھتا ہی نہیں کہ نمازی ٹھیک سے قرآن کی آیتوں کو سن سکیں اور اُن کی طرف دھیان لگا سکیں۔طوفان میل کی قرأت نمازیوں کو اکتا دیتی ہے۔حافظ اورقاری کی مجبوری یہ ہے کہ تراویح پڑھانا اُن کے نزدیک عبادت نہیں ہے جس میں وہ دل لگائیں۔یہ تو اُن کی تجارت ہے۔وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح پندرہ دن میں تراویح پوری ہو جائے تاکہ باقی پندرہ دنوں میں دوسر ی جہ تراویح پڑھا کر دوگنا پیسہ کمائیں۔یعنی عبادت تجارت بن چکی ہے۔
(۴)    حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب ماہ رمضان آتا تھا تو رسول اللہﷺ ہر قیدی کو آزاد فرما دیتے اور ہر سوا ل کرنے والے کو دیتے تھے۔(بیہقی)
    اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ رمضان رحمت کا مہینہ ہے چنانچہ رحمت عالمﷺ اس مہینے میں رحمت کا ایسا پیکر بن جاتے تھے کہ مجرم قیدی کو بھی آزاد کر دیتے تھے،تاکہ وہ پاکیزہ ایمانی ما حول میں رہ کر اپنے گناہوں سے توبہ کر لے اور مجرم کی جگہ نیک مسلمان بن جائے۔
    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو اس مہینے میں لوگوں کے قصوروں کو معاف کر دینا چاہئے، اُن کی بھول چوک سے درگزر کرنی چاہئے اور اُن کے ساتھ حسن سلوک کر کے اُن کو نیک بننے کا موقع دیناچاہئے۔قرض دار کا قرض معاف کر دینا چاہئے۔کام کرنے والے افراد سے اس مہینے میں ہلکی محنت لینی چاہئے۔ہر میدان میں لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئے۔
(۵)    حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:رمضان کی آخری رات میں میری امت کو بخش دیا جاتا ہے۔(مسند احمد)
    رحمت کے اس مہینے کی انتہا یہ ہے کہ جب رمضان رخصت ہو رہا ہوتا ہے اور اس کی آخری رات آجاتی ہے یعنی عید کی چاند رات تو اللہ نے رمضان میں جتنے بندوں کو معاف کیا ہے اُن کے علاوہ عام امت کی بخشش کا بھی اعلان کرتا ہے۔یہ اُس کے کرم کی انتہا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے، معاف اُسی کو کیا جاتا ہے معافی مانگتاہے۔ جو اپنے گناہ اور جرم پر اڑا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ اُس نے گناہ کیا ہی نہیں تو ایسے مغرور اورگھمنڈی شیطان کو معافی نہیں ملتی ہے۔بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ غافل امت اس قیمتی رات کو عید کی خریداری اور عیش موج منانے میں برباد کر دیتی ہے اور کسی بھی وقت رات میں اللہ کی بندگی کر کے اُس سے اپنے گناہ بخشوانے کی کوشش کرتی ہی نہیں ہے۔
    شیطانی شرارتیں اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں کہ ہر مسلم محلوں میں مسلم نوجوان لاؤڈ اسپیکر لگا قوالیاں بجاتے ہیں اور غیر مسلموں کی طرح شور مچاتے ہیں۔اور اس طرح اللہ کے جو نیک بندے رات میں عبادت کرنا چاہتے ہیں اُن کی عبادت میں خلل پیدا کرتے ہیں۔محلے میں ایسے بااثر اور ہمت و حوصلے والے افراد ہوتے ہی نہیں جو ان بہکے ہوئے نوجوانوں کو سمجھا کر اس فتنے سے روک سکیں اوررمضان کی آخری رات کا ماحول خوش گوار بنانے کی کوشش کر سکیں۔
(۵)    حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب نصف شعبان ہو جائے تو روزہ نہ رکھو۔(ابوداؤد ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
    رسول اللہ ﷺشعبان کی پندرہ تاریخ کے بعد روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں۔لیکن شب برات کے دوسرے دن روزہ رکھنے کا رواج مسلمانوں میں عام ہے۔جو علما اس روزے کی فضیلت بیان کرتے ہیں اُن سے پوچھنا چاہئے کہ اس روزے کی فضیلت کس حدیث میں اورصحابہ کرام و صلحائے امت کے کس عمل سے ثابت ہے ؟ اور اگر یہ شریعت کا حکم ہے تو اس حکم پر صرف ہندوستان میں ہی عمل کیوں ہوتا ہے ؟  باقی دنیا کے مسلمان اس پر عمل کیوں نہیں کرتے ہیں۔ اور اپنے ملک میں بھی ایک خاص فرقے کے سوا سارے مسلمان اس کو بدعت کیوں بتاتے ہیں۔
    اسی کے ساتھ ایک اور دیدہ دلیری کی حرکت یہ کی جاتی ہے کہ شب قدر جو رمضان میں آتی ہے اور یہ بات قرآن اور متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کو یہی عقیدہ ہے۔اس کے بر خلاف بتایا جاتا ہے کہ شب برات شب قدر ہے اور اس میں تقدیروں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ایک طرف رمضان کی شب قدر ہے اور ایک طرف شب برات کی شب قدر ہے۔ سوچئے اصلی کون ہے اور نقلی کون ہے ؟   جن لوگوں نے شب برات میں شب قدر کی عبادت کر لی اب اُن کو رمضان کی شب قدر کی کیا ضرورت رہی۔اسی لئے شب برات کی شب قدر کا جتنا اہتمام ہوتا ہے رمضان کی شب قدر کا اتنا اہتمام نہیں ہوتا ہے۔
قابل غور مسئلہ:    ایک طرف موجودہ دنیا کے بگڑتے ہوئے حالات پر ساری دنیا کی نظر ہے۔ماحول بتا رہا ہے کہ پڑوسی ملک میں جو آفت آئی ہے، خدا نخواستہ ہمارے ملک میں بھی یہ آفت آ سکتی ہے۔عالمی جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس کی بدولت کرنسی کی قیمت جس تیزی سے گر رہی ہے اُس کی بدولت کم آمدنی والے افراد کا جینا محال ہوتا جارہا ہے۔جن لوگوں نے بے تحاشہ حرام دولت جمع کر لی ہے اور اپنے محتاج اور مجبور دینی بھائیوں کی مدد کے لئے کسی قیمت پر تیار نہیں ہیں۔وہ سمجھ رہے ہیں دولت کے خدا کی پوجا اورپرستش اُن کو دنیا کی ہر آفت اور پریشانی سے نجات دلا دے گی۔اُن کو اندازہ نہیں ہے کہ دنیا کی موجودہ حالت دنیا والوں کی خدا سے نافرمانی اوربغاوت پر اللہ کا عذاب ہے۔ اللہ کے عذاب سے نجات پانا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔اللہ کے عذاب سے اللہ ہی نجات دلا سکتا ہے۔مسلمانوں کو دنیا کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے غفلت، بے دینی، دولت اور دنیا پرستی کی روش سے سچی توبہ کر کے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے نیکی کی راہ پر چلنے کا پکا پختہ عہد کرنا چاہئے۔پھر دنیا دیکھے گی کہ ساری دنیا پریشان ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے آرام اور اطمینان سے قدرے قلیل روزی میں سکون و مسرت کی خوش گوار زندگی گزار رہے ہوں گے۔ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم ستائے کیوں کہ یہ ولی اللہ یعنی اللہ کے دوست بن چکے ہوں گے۔اور قرآن میں اللہ کا وعدہ ہے کہ جس نے شیطان سے منہ موڑ کر اللہ سے دوستی کر لی تو اُس کے لئے زندگی میں نہ خوف ہے اور نہ غم!

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

تجیندر بگّا، جگنیش میوانی اور اعظم خان…

ماہِ رمضان ،مردِ مومن کے لئے حیاتِ نو ہے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے