غلامان محمد ؐ جان دینے سے نہیں ڈرتے
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں حق و باطل کے درمیان وہ پہلا معرکہ واقع ہوا۔جسے ہم غزوہ بدر کے نام سے جانتے ہیں،یہ غزوہ 17/رمضان کو پیش آیا۔اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔جب کہ ان کی تعداد 313 تھی اور کافرں کی تعداد ایک ہزار تھی،مسلمانوں کے پاس ہتھیار اور گھوڑے بھی بہت کم تھے۔لیکن اللہ کی مدد، ایمان کی طاقت،نبی ﷺ کی محبت اور صحابہ ؓ کے بے مثال اتحاد نے اس جنگ میں کافروں کو بہت بری شکست سے دوچار کیا۔ مسلمانوں کے کل 14 افراد شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں قریش کے 70 آدمی مارے گئے۔ 70 سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ اس جنگ کو قرآن میں فرقان کے نام سے تعبیر کیا گیا۔ارشاد باری ہے:
”اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تمہیں اللہ پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فرقان کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“(الانفال41)
17 رمضان المبارک 2ھ (17 مارچ 624ء) کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔حضرت ابوبکر ؓاپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حضرت حذیفہؓ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔صفیں درست ہوجانے کے بعدنبی اکرم ﷺ اللہ کے حضورسجدے میں گرگئے،اللہ کی تسبیح کے بعد آپ ؐ یوں گویا ہوئے۔
”اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر لوگ ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔“ (بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)
دعا کے علاوہ نبی اکرم ﷺ نے دوران جنگ ایک مٹھی کنکر اٹھائی اور دشمن کے لشکر کی طرف پھینک دی،اس ریت کا ذرہ جس کافر پر بھی جاکر گرا اس جنگ میں وہ مارا گیا۔سورہ انفال کی آیت 17میں نبی اکرم ﷺ کے کنکر مارنے کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔
: ”اور آپؐ نے (حقیقتاً وہ کنکر) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (کنکر) پھینکی تھی، لیکن وہ (کنکر) اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔“ (الانفال: 17)
جنگ کے آغاز پرعرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمرؓ کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مقابل طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ ؓمیدان میں نکلے لیکن ان تینوں کافروں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے یہاں نہیں آئے ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ”ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو“مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہؓ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علیؓ نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبید ہ ؓنے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ حضرت علیؓ اپنے مدمقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدؓہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
غزوہ بدرمیں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرمؐ کا اعلان ”آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا“۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ”واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔“ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوگئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ اس ہنگامے میں انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن عفر، حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔
”چچاجان! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں“ اتفاق سے ابوجہل کا گذر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن ؓبن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک نے ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز ولٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انہوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود ؓنے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اللہ نے ا س پہلے معرکے میں اہلِ ایمان کو شان دار فتح عطا فرمائی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی۔ قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا۔ مدینہ کے یہود اور منافقین مایوس ہوگئے، مگر ان کے دلوں کا کینہ اندر ہی اندر لاوا بن کر پکتا رہا۔ شکست کی خبر مکہ میں پہنچی تو پورا شہر سکتے میں آگیا۔کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا، جس کے افراد جنگ میں قتل نہ ہوئے ہوں یا مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی نہ بن گئے ہوں۔ غم کے مہیب سایے شہر پر چھا گئے۔ لوگوں کے دلوں سے خوشی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ جنہیں چند سال پہلے تک مکہ کی وادیوں میں گھسیٹا جارہا تھا وہ کمزور ی بے سروسامانی کے باوجود اپنے ایمان کی قوت سے اسلحے کی طاقت اور مادی وسائل پر غالب آچکے تھے۔
قریش مکہ کے تقریباً ساڑھے آٹھ سو جنگجو شکست کے بعد میدانِ جنگ سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپنی کثرت کے زعم اور قوت کے پندار کا حشر دیکھنے کے بعد اب انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس مُنہ سے گھروں کو واپس لوٹیں۔ اہلِ مکہ اپنی فوجوں کی شکست سے نہ صرف بے خبر تھے، بلکہ ان کے نزدیک ان کی فتح یقینی تھی۔ جب پہلا شخص شکست کی خبر لے کر مکہ پہنچا تو کسی نے بھی اس کی بات کا یقین نہ کیا، بلکہ لوگوں نے اسے مجنوں قرار دیا۔
میدانِ بدر سے مکہ پہنچنے والا یہ سب سے پہلا شخص حیسمان بن ایاس خزاعی تھا۔ اہلِ مکہ اسے دیکھتے ہی اس کے گرد جمع ہوگئے اور اس سے جنگ کا حال پوچھنے لگے۔ شدت غم سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اس نے کہا: ”بدر کے میدان میں ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی، ہمارے بہت سے بہادر جنگجو دشمن کی تلواروں کا لقمہ بن گئے۔ میدان جنگ میں ہر جانب موت رقصاں تھی، مکہ کے سردار اور فوج کے قائدین زندگی کی بازی ہارگئے“۔ پھر وہ مقتولین کے نام گنوانے لگا۔
حاضرین سکتے میں آگئے اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مکہ میں جنگ سے پیچھے رہ جانے والا سردار صفوان بن امیہ غصے میں دھاڑا اور کہا: ”حیسمان کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سے ذرا میرے بارے میں پوچھو کہ میں کہاں ہوں“۔ اس نے جواب دیا: ”صفوان بن امیہ وہ سامنے بیٹھا ہے اور اس کے بھائی اور باپ کو مَیں نے قتل ہوتے دیکھا ہے۔“
حیسمان خزاعی کی باتیں سن کر کچھ لوگ متذبذب تھے، مگر اکثریت نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ اسی لمحے بدر سے آنے والا دوسرا فرد مکہ میں داخل ہوا۔ یہ خاندانِ بنوہاشم کا چشم وچراغ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب تھا۔ بنوہاشم میں ابولہب کے بعد یہی شخص اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے بھی حیسمان کی حرف بہ حرف تائید کی تو اہلِ مکہ کے لئے شکست کی خبر پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
ہزیمت کی خبر سننے کے بعد ایک بار تو مکہ کی فضائیں ماتم کے کہرام سے گونج اٹھی تھیں، مگر قریش کی قیادت نے فوراً اعلان کردیا کہ مقتولین کا ماتم نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ قریش کے تمام معروف سردار بدر کے میدان میں قتل ہوچکے تھے۔ اس لئے اب مکہ کا قائد بنوامیہ کا سردار ابوسفیان بن حرب تھا۔ خالد بن ولید، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور عمروبن عاص اس کے مشیر اور دست وبازو تھے۔ ابوسفیان نے نہ صرف آہ وبکا سے منع کیا تھا، بلکہ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں اور کسی کو بلند آواز سے رونے نہ دیں۔اس کا اپنا بیٹا حنظلہ، اس کا خسر عتبہ، اس کی بیوی کا بھائی ولید اور بہت سے دیگر رشتہ دار بدر میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس نے خانہ کعبہ میں جا کر قسم کھائی کہ وہ جب تک مقتولین کا بدلہ نہ لے لے گا سر میں تیل نہیں لگائے گا، نہ ہی غسل کرے گا۔ شعرا ء نے مقتولین کے درد بھرے مرثیے لکھے۔
ابولہب اپنی اسلام دشمنی کے باوجود قریش کے ساتھ جنگ کے لئے نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا۔ عاص اس کا مقروض تھا۔ اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی جانب سے جنگ پر جائے تو یہ قرض معاف کردیا جائے گا۔ وہ مکہ میں جنگ کے نتائج کا بے قراری سے انتظار کررہا تھا۔ چاہِ زمزم کے قریب بیٹھا قریش کی فتح کے خواب دیکھ رہا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ تمہارا بھتیجا ابوسفیان بن حارث میدانِ جنگ سے آگیا ہے۔
اس نے بلند آواز سے ابوسفیان کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا: ”بھتیجے بتاؤ جنگ کی کیا خبر ہے؟“ ابوسفیان بن حارث نے کہا: ”جنگ کی کیا خبر پوچھتے ہو؟ بات کہنے کی ہے نہ سننے کی۔ خدا کی قسم دشمن نے ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹا اور جنگ کے بعد ہمارے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر قیدی بنالیا۔ ہم نے اپنے دشمنوں کے علاوہ ایک عجیب مخلوق دیکھی۔ سرخ وسفید رنگ کے نوجوان ابلق گھوڑوں پر سوار زمین وآسمان کے درمیان معلق نظر آ رہے تھے۔۔۔“
ابوسفیان کی باتوں نے ابولہب کی کمر توڑ دی۔ اس کے گرد عام لوگ جو جمع ہوگئے تھے، وہ بھی حوصلہ ہار بیٹھے۔ زمزم کے قریب بنے ہوئے حجروں میں سے ایک حجرے میں ابو رافع بیٹھے نیزے بنارہے تھے۔ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ جسمانی لحاظ سے بھی کمزور تھے اور سماجی لحاظ سے بھی ان کا کوئی مرتبہ نہیں تھا۔ اسلام قبول کرچکے تھے، مگر مکہ کے پرآشوب حالات کی وجہ سے اپنے اسلام کا اظہار نہ کرتے تھے۔ اس وقت وہ حضرت عباس کی پناہ میں تھے اور انہی کے لئے نیزے بناتے اور انہیں سیدھا کرتے تھے۔ ابو سفیان کی آواز سے جب انھوں نے عجیب مخلوق کا ذکر سنا تو حجرے کے دروازے کا پردہ ہٹا کر کہا: ”خدا کی قسم! یہ عجیب مخلوق اللہ کے فرشتے تھے“۔
غزوہ ئ بدرصحابہ ؓ کرام کے جوش ایمانی اوراللہ اور اس کے رسول سے محبت کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔اسی ایمان کی آج بھی ضرورت ہے۔اپنے ایمان کو مضبوط کیجیے۔اللہ کی قدرت پر یقین رکھیے۔رمضان کے مہینے میں بھی اگر اللہ پر ایمان،اللہ کے رسول سے محبت اور اسلام کے غلبہ کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو پھر یہ روزہ نہیں فاقہ ہے۔
آج ہمارے سامنے اگرچہ کوئی میدان قتال نہیں ہے،لیکن مومن کے سامنے انسانی معاشرے میں ہر وقت کوئی نہ کوئی شیطان رہتا ہے۔اس شیطان سے جنگ کرنا ایک مومن کے لیے ضروری ہے،نفس امارہ خود ایک شیطان ہے،پھر ہر سماج میں ظالم رہتے ہیں جو غریبوں کو ستاتے ہیں،اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے۔غزوہ بدر سے ایک مومن کو یہ حوصلہ ملتا ہے کہ صحابہ کرام نے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرکے ظالموں کے چھکے چھڑادیے تھے تو ہم کیوں نہیں میدان مار سکتے۔
مضمون نگر کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
”اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تمہیں اللہ پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فرقان کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“(الانفال41)
17 رمضان المبارک 2ھ (17 مارچ 624ء) کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔حضرت ابوبکر ؓاپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حضرت حذیفہؓ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔صفیں درست ہوجانے کے بعدنبی اکرم ﷺ اللہ کے حضورسجدے میں گرگئے،اللہ کی تسبیح کے بعد آپ ؐ یوں گویا ہوئے۔
”اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر لوگ ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔“ (بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)
دعا کے علاوہ نبی اکرم ﷺ نے دوران جنگ ایک مٹھی کنکر اٹھائی اور دشمن کے لشکر کی طرف پھینک دی،اس ریت کا ذرہ جس کافر پر بھی جاکر گرا اس جنگ میں وہ مارا گیا۔سورہ انفال کی آیت 17میں نبی اکرم ﷺ کے کنکر مارنے کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔
: ”اور آپؐ نے (حقیقتاً وہ کنکر) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (کنکر) پھینکی تھی، لیکن وہ (کنکر) اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔“ (الانفال: 17)
جنگ کے آغاز پرعرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمرؓ کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مقابل طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ ؓمیدان میں نکلے لیکن ان تینوں کافروں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے یہاں نہیں آئے ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ”ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو“مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہؓ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علیؓ نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبید ہ ؓنے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ حضرت علیؓ اپنے مدمقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدؓہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
غزوہ بدرمیں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرمؐ کا اعلان ”آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا“۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ”واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔“ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوگئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ اس ہنگامے میں انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن عفر، حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا۔
”چچاجان! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں“ اتفاق سے ابوجہل کا گذر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن ؓبن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک نے ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر کے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز ولٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انہوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اور عبد اللہ بن مسعود ؓنے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اللہ نے ا س پہلے معرکے میں اہلِ ایمان کو شان دار فتح عطا فرمائی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی۔ قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا۔ مدینہ کے یہود اور منافقین مایوس ہوگئے، مگر ان کے دلوں کا کینہ اندر ہی اندر لاوا بن کر پکتا رہا۔ شکست کی خبر مکہ میں پہنچی تو پورا شہر سکتے میں آگیا۔کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا، جس کے افراد جنگ میں قتل نہ ہوئے ہوں یا مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی نہ بن گئے ہوں۔ غم کے مہیب سایے شہر پر چھا گئے۔ لوگوں کے دلوں سے خوشی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ جنہیں چند سال پہلے تک مکہ کی وادیوں میں گھسیٹا جارہا تھا وہ کمزور ی بے سروسامانی کے باوجود اپنے ایمان کی قوت سے اسلحے کی طاقت اور مادی وسائل پر غالب آچکے تھے۔
قریش مکہ کے تقریباً ساڑھے آٹھ سو جنگجو شکست کے بعد میدانِ جنگ سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ اپنی کثرت کے زعم اور قوت کے پندار کا حشر دیکھنے کے بعد اب انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس مُنہ سے گھروں کو واپس لوٹیں۔ اہلِ مکہ اپنی فوجوں کی شکست سے نہ صرف بے خبر تھے، بلکہ ان کے نزدیک ان کی فتح یقینی تھی۔ جب پہلا شخص شکست کی خبر لے کر مکہ پہنچا تو کسی نے بھی اس کی بات کا یقین نہ کیا، بلکہ لوگوں نے اسے مجنوں قرار دیا۔
میدانِ بدر سے مکہ پہنچنے والا یہ سب سے پہلا شخص حیسمان بن ایاس خزاعی تھا۔ اہلِ مکہ اسے دیکھتے ہی اس کے گرد جمع ہوگئے اور اس سے جنگ کا حال پوچھنے لگے۔ شدت غم سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اس نے کہا: ”بدر کے میدان میں ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی، ہمارے بہت سے بہادر جنگجو دشمن کی تلواروں کا لقمہ بن گئے۔ میدان جنگ میں ہر جانب موت رقصاں تھی، مکہ کے سردار اور فوج کے قائدین زندگی کی بازی ہارگئے“۔ پھر وہ مقتولین کے نام گنوانے لگا۔
حاضرین سکتے میں آگئے اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مکہ میں جنگ سے پیچھے رہ جانے والا سردار صفوان بن امیہ غصے میں دھاڑا اور کہا: ”حیسمان کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سے ذرا میرے بارے میں پوچھو کہ میں کہاں ہوں“۔ اس نے جواب دیا: ”صفوان بن امیہ وہ سامنے بیٹھا ہے اور اس کے بھائی اور باپ کو مَیں نے قتل ہوتے دیکھا ہے۔“
حیسمان خزاعی کی باتیں سن کر کچھ لوگ متذبذب تھے، مگر اکثریت نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ اسی لمحے بدر سے آنے والا دوسرا فرد مکہ میں داخل ہوا۔ یہ خاندانِ بنوہاشم کا چشم وچراغ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب تھا۔ بنوہاشم میں ابولہب کے بعد یہی شخص اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے بھی حیسمان کی حرف بہ حرف تائید کی تو اہلِ مکہ کے لئے شکست کی خبر پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
ہزیمت کی خبر سننے کے بعد ایک بار تو مکہ کی فضائیں ماتم کے کہرام سے گونج اٹھی تھیں، مگر قریش کی قیادت نے فوراً اعلان کردیا کہ مقتولین کا ماتم نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ قریش کے تمام معروف سردار بدر کے میدان میں قتل ہوچکے تھے۔ اس لئے اب مکہ کا قائد بنوامیہ کا سردار ابوسفیان بن حرب تھا۔ خالد بن ولید، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور عمروبن عاص اس کے مشیر اور دست وبازو تھے۔ ابوسفیان نے نہ صرف آہ وبکا سے منع کیا تھا، بلکہ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں اور کسی کو بلند آواز سے رونے نہ دیں۔اس کا اپنا بیٹا حنظلہ، اس کا خسر عتبہ، اس کی بیوی کا بھائی ولید اور بہت سے دیگر رشتہ دار بدر میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس نے خانہ کعبہ میں جا کر قسم کھائی کہ وہ جب تک مقتولین کا بدلہ نہ لے لے گا سر میں تیل نہیں لگائے گا، نہ ہی غسل کرے گا۔ شعرا ء نے مقتولین کے درد بھرے مرثیے لکھے۔
ابولہب اپنی اسلام دشمنی کے باوجود قریش کے ساتھ جنگ کے لئے نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا۔ عاص اس کا مقروض تھا۔ اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی جانب سے جنگ پر جائے تو یہ قرض معاف کردیا جائے گا۔ وہ مکہ میں جنگ کے نتائج کا بے قراری سے انتظار کررہا تھا۔ چاہِ زمزم کے قریب بیٹھا قریش کی فتح کے خواب دیکھ رہا تھا کہ کسی نے اسے بتایا کہ تمہارا بھتیجا ابوسفیان بن حارث میدانِ جنگ سے آگیا ہے۔
اس نے بلند آواز سے ابوسفیان کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا: ”بھتیجے بتاؤ جنگ کی کیا خبر ہے؟“ ابوسفیان بن حارث نے کہا: ”جنگ کی کیا خبر پوچھتے ہو؟ بات کہنے کی ہے نہ سننے کی۔ خدا کی قسم دشمن نے ہمیں گاجر مولی کی طرح کاٹا اور جنگ کے بعد ہمارے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر قیدی بنالیا۔ ہم نے اپنے دشمنوں کے علاوہ ایک عجیب مخلوق دیکھی۔ سرخ وسفید رنگ کے نوجوان ابلق گھوڑوں پر سوار زمین وآسمان کے درمیان معلق نظر آ رہے تھے۔۔۔“
ابوسفیان کی باتوں نے ابولہب کی کمر توڑ دی۔ اس کے گرد عام لوگ جو جمع ہوگئے تھے، وہ بھی حوصلہ ہار بیٹھے۔ زمزم کے قریب بنے ہوئے حجروں میں سے ایک حجرے میں ابو رافع بیٹھے نیزے بنارہے تھے۔ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ جسمانی لحاظ سے بھی کمزور تھے اور سماجی لحاظ سے بھی ان کا کوئی مرتبہ نہیں تھا۔ اسلام قبول کرچکے تھے، مگر مکہ کے پرآشوب حالات کی وجہ سے اپنے اسلام کا اظہار نہ کرتے تھے۔ اس وقت وہ حضرت عباس کی پناہ میں تھے اور انہی کے لئے نیزے بناتے اور انہیں سیدھا کرتے تھے۔ ابو سفیان کی آواز سے جب انھوں نے عجیب مخلوق کا ذکر سنا تو حجرے کے دروازے کا پردہ ہٹا کر کہا: ”خدا کی قسم! یہ عجیب مخلوق اللہ کے فرشتے تھے“۔
غزوہ ئ بدرصحابہ ؓ کرام کے جوش ایمانی اوراللہ اور اس کے رسول سے محبت کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔اسی ایمان کی آج بھی ضرورت ہے۔اپنے ایمان کو مضبوط کیجیے۔اللہ کی قدرت پر یقین رکھیے۔رمضان کے مہینے میں بھی اگر اللہ پر ایمان،اللہ کے رسول سے محبت اور اسلام کے غلبہ کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو پھر یہ روزہ نہیں فاقہ ہے۔
آج ہمارے سامنے اگرچہ کوئی میدان قتال نہیں ہے،لیکن مومن کے سامنے انسانی معاشرے میں ہر وقت کوئی نہ کوئی شیطان رہتا ہے۔اس شیطان سے جنگ کرنا ایک مومن کے لیے ضروری ہے،نفس امارہ خود ایک شیطان ہے،پھر ہر سماج میں ظالم رہتے ہیں جو غریبوں کو ستاتے ہیں،اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے۔غزوہ بدر سے ایک مومن کو یہ حوصلہ ملتا ہے کہ صحابہ کرام نے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرکے ظالموں کے چھکے چھڑادیے تھے تو ہم کیوں نہیں میدان مار سکتے۔
مضمون نگر کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں