رمضان المبارک اور بدنصیب لوگ!‎‎

اظفر منصور 

رمضان المبارک کا ماہ منور و مقدس ہم پر اپنی تمام تر جلوہ فشانیوں کے ساتھ سایہ فگن ہے، چہار جانب پر کیف نظارہ ہے، فضاء میں مالک ایزدی کی خاص عنایت و نوازش کا چمکتا ستارہ ہے، فرش تا عرش نور و نکہت اور عرفان محبت کا سماں بندھا ہے، چہروں پر بشاشت کے ہلکے ہلکے پھوار پڑے ہوئے ہیں، بچوں میں صبح ِعید کے انتظار کی تڑپ اور افطار میں طفلی جھڑپ سے اندرون خانہ بھی خوشنما ماحول ہے، خواتین گھروں میں ایسے انتظامات کر رہی ہیں جیسے کسی بادشاہ کی آمد کا اعلان ہوا ہو، ہاں ہاں عظیم الشان بادشاہ کے ایک عظیم مہمان کی آمد ہے، تبھی دیکھئے نہ! نوجوان استقبال میں کھڑے ہیں، ضعیف الجثہ سر پہ ٹوپی ہاتھوں میں تسبیح لئے کبھی تبسم تو کبھی حسرت کی بوندیں آنکھوں سے ڈھلا رہے، بچوں کا تو کیا ہی پوچھنا، آخر یہ انتظامات اسی عظیم مہمان کے استقبال کے لیے تو کئے گئے تھے نہ؟ چنانچہ یہ حاضر ہے، یہ ایک ایسا عظیم ماہ ہے جس کی آمد کی اطلاع پاتے ہی دنیائے بدمستی میں زلزلہ آگیا، غفلت میں ڈوبی آنکھوں میں احساس و بیداری پیدا ہوئی، صباح مساء، لیل و نہار معاصی و ذنوب کے دف بجانے والوں کو جھٹکا لگا کہ STOP اب ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو اس ماہ ِعظیم کا وبال بڑا ہی سخت ثابت ہوگا، جو زبانیں گالیوں سے تر رہتی تھیں وہ اب احتیاط اور خشیتِ خدا کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہیں، پورے سال اپنے ایمان کے ستونوں (نماز) کو ڈھانے والے بھی اس ماہ کے طفیل قطار اندر قطار صفوں میں ہاتھ باندھے، سر جھکائے، عاجزی و انکساری کا پیکر بنے کھڑے ہیں، مسجد کے مختلف گوشوں اور ناحیوں میں دیکھئے تو کوئی تلاوتِ قرآن مجید، کوئی نوافل، کوئی ذکر و اذکار تو کوئی اپنے پالنہار و پروردگار کے حضور دست بدعا ہے، عجیب روح پرور منظر ہے، سب اپنے اپنے گناہوں کی فہرست رب کے حضور پیش کر کے نگاہ عفو و کرم ڈالنے کی درخواست کر رہے ہیں، یہ ایسے لمحات ہیں کہ فرشتوں کو رشک، زمیں کو ناز، آسماں کو غرور، سورج کی تپش کو مسرت، چاند کی چاندنی کو تمکنت کا احساس ہو رہا ہوگا کہ مسلمان اپنے اللہ کے ایک ہی حکم پر سراپا مجسمہ ِتعمیل بنا ہوا ہے، ان سب کے باوجود معاشرے میں ایک تعداد ایسی بھی ہے جسے اس ماہ منور نے اپنی آمد کا احساس تک نہیں ہونے دیا، انہیں نہیں خبر کہ تباہی کے کس دہانے پر وہ کھڑے ہیں، مزاح کی بات ہے کہ سحر و افطار کے پابند تو ہیں مگر غرض ِسحر و افطار سے عاری بھی ہیں، اپنی جانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، یقیناً یہ دوہرے عذاب کے مستحق ہیں کہ ایک تو بھوکے رہ کر اپنے آپ پر ظلم کیا دوسرے کہ رمضان المبارک کی اہمیت و فضلیت کے منکر بنے، اور حکم الہی سے چشم پوشی کی، یعنی صوم کے نام پر نوم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، صوم کا خیال سجا ہے مگر صلاۃ ندارد ہے، صومی کہلا رہے ہیں مگر زبانیں گالیوں، غیبتوں اور برائیوں سے ثقیل ہوتی جا رہی ہیں، اب بتائیے یہ یہ روزے کی حالت ہے یا فاقہ کشی کا زمانہ؟ یہی لوگ تو ہیں جن پر وعید کی آیتیں مشاہد ہیں، ہاں یہی وہ لوگ ہیں جو اس عظیم و متبرک ماہ میں بھی بدنصیبی ہی ہاتھ آئی، اور انہیں احساس و ندامت بالکل بھی نہیں ہے، اور کیسے ہو آخر؟ دل زنگ آلود ہو گئے ہیں، اللہ کی سیاہ مہر ان کے قلوب پر ثبت کر دی گئیں ہیں، شیاطین مقید ہیں، نفس پر کنٹرول آسان ہے موقع تھا کہ اپنے آپ میں بڑی تبدیلی لاتے، موقع تھا کہ دربار الہی میں رجوع نامہ پیش کرتے، موقع تھا کہ شان کبریائی کی دہائی دے کر قلوب کی تطہیر کرتے مگر افسوس جو بدنصیب تھا اسے بدنصیبی ہی ہاتھ آئی، جان لیجئے رمضان المبارک کا بدنصیب بڑا ہی سخت بدنصیب ہے، کل محشر میں اس ماہ کے خاطی و خائن شیطان پر انگلی اٹھانے کی جرات بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ اللہ نے اس کے اس حیلہ پر شیطان کو مقید کر کے بندش لگا دی ہے، رمضان المبارک کی ناقدری کرنے والا سب سے بڑا طبقہ نوجوانوں کا ہے، کتنی افسوسناک بات ہے کہ ملک اس ماہ منور میں بھی تاریکی کی یاد گار بنتا جا رہا ہے، مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے اور ہمارے بے خبر نوجوان آئی پی ایل میں بدمست ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کی ایمانی عمر درازی ِعمر یا اندیشہ موت کے بعد ہی شروع ہوتی ہے، لہذا ایسے بد نصیبوں کے خلاف مہم چھیڑ کر انہیں بیدار کرنے کی ضرورت ہے، جس کا سب سے آسان طریقہ افطار پارٹی اور جمعہ کا خطاب ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں اس ماہ مقدس و متبرک کی قدر کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔

«
»

حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ: بحیثیت انسان

بدلتا ہندوستان اور مسلمانوں کا خوفناک مستقبل‎‎

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے