رمضان سے ہم نے کیا حاصل کیا؟

اگراللہ کے مہمان کاشایان شان استقبال نہیں کرسکے تھے تو کم سے کم شایان شان رخصت تو کردیجیے۔

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور

رمضان کا مبارک مہینہ اپنے آخری لمحات میں داخل ہوچکا ہے ۔اگر اللہ نے چاہا تواب ایک سال بعد ہی یہ مبارک ساعتیں ہمیں حاصل ہوں گی ۔ اس موقع پر ہمیں اپنا جائزہ لیناچاہئے کہ روزے کے جو مقاصد قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں کیا وہ ہم نے حاصل کر لیے ہیں۔خالق کائنات نے ماہ مبارک کی ساعتوں کو جو فیوض و برکات عطا فرمائی تھیں کیا ان میں سے کچھ ہمارے حصہ میں بھی آئی ہیں ؟کیا رات دن برسنے والی باران رحمت سے ہمارے دامن کا کوئی حصہ تر ہوا ہے ؟کیا نار جہنم سے نجات کی کوئی سبیل پیدا ہوئی ہے ؟اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو ایک پھر اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیجیے کہ اس کی توفیق سے آپ اس ماہ مبارک کی سعادتوں سے فیضیاب ہوئے ہیں ۔اگر جواب نفی میں ہے تو پھر جو چند لمحے بچے ہیں ان کو ہاتھ نہ جانے دیجیے ،اپنے پرودگار کے سامنے سر جھکادیجیے ،گڑ گڑا کر توبہ و استغفار کیجیے ۔ابھی توبہ کا در کھلا ہوا ہے ،اور رب کائنات توبہ کرنے والوں کی راہ دیکھ رہا ہے ۔
 روزے کے مقاصد کے حصول کاجائزہ لیجیے۔روزہ فرض کیے جانے کا سب سے پہلا مقصد تقویٰ کا حصول ہے ۔تقویٰ اُس جوہرِ اخلاق کا نام ہے جو خدا کی محبت اور خدا کے خوف سے مل کر پیدا ہوتا ہے۔ خدا کی رحمت اور اس کے بے شمار احسانات کے حقیقی شعور سے انسان کے اندر خدا سے محبت کاجذبہ ابھرتاہے، خدا کے قہر وغضب اور اخروی سزاؤں کے تصور سے خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے، حق و باطل کے درمیان تمیزپیدا ہوجاتی ہے۔ اس جذبۂ محبت و خوف سے مل کر دل میں جو کیفیت پیداہوتی ہے اس کا نام تقویٰ ہے۔کیا یہ کیفیت ہمارے اندر پیدا ہوئی ۔کیا اللہ سے محبت میں اضافہ ہوا ؟اس کا نام لیتے ہوئے اور اس کا تصور کرتے ہوئے کیا دل کو سرور حاصل ہورہا ہے ۔کیا اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کی تڑپ انگڑائیاں لے رہی ہے ۔کیا اس کے جھنڈے کو بلند کرنے کا خیال دل میں پیدا ہورہاہے ۔کیا اس کی نافرمانیاں کرتے ہوئے دل گھبرانے لگاہے ،اس کے قوانین کی پامالی پر غصہ آرہاہے ؟ان سوالوں کے جوابات پر ہی ہماری کامیابی یا ناکامی کا دارو مدار ہے۔
روزے کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر جذبہٗ شکر پیدا ہو۔اس لیے ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ اس جذبہ شکر کا کیا حال ہے ؟اپنے محسن کے احسانات و انعامات کے تذکرے ہماری زبان پر ہیں یا نہیں ،اللہ کی ودیعت کردہ نعمتوں کا استعمال ہم کیسے کررہے ہیں ؟کیا دینے والے کی منشا کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے ۔مثال کے طور پراس نے قوت گویائی دی ہے تو ہماری زبان پر کس کے تذکرے ہیں ؟اس نے قوت سماعت دی تویہ کان کس کے ذکر سے محظوظ ہوتے ہیں؟اس نے مال دیا تو کس کی راہ میں خرچ کیا جارہا ہے ؟اس نے علم کی دولت دی تو اس علم سے کس نظام کو فائدہ پہنچ رہا ہے ؟غرض اللہ کی دی ہوئی ہر ایک نعمت پر اسی کا حق ہے ۔اس کے خلاف استعمال کرنا ہی ناشکری ہے ۔
اس ماہ مبارک میں اللہ نے سب سے بڑی نعمت قرآن کی شکل میں عطا فرمائی ۔اسی نعمت کی بنا پر رمضان کے روزے فرض ہوئے ۔اسی نعمت کے باعث نزول کی رات کو شب قدر کا مرتبہ حاصل ہوا۔اس نعمت کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہے ؟کیا ہم اس نعمت کو پاکر اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں ؟یا اس کی ناشکری کررہے ہیں ؟میں سمجھتا ہوں ہم نے جس قدر قرآن کی ناقدری کی ہے شاید کسی دوسری نعمت کی نہیں کی ۔جب کی ہماری ساری کامیابی کا دارو مدار اسی نعمت کی قدردانی پر منحصرتھا۔ہم نے اسے تبرک کی کتاب سمجھ کر آنکھوں سے لگایا ،دوکان و مکان میں خیر و برکت کے لیے پڑھوایا مگر فرمان الٰہی کے طور پر اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔اس نعمت کی شکر گزاری یہ تھی کہ ہم اس کے ہر لفظ کی عملی تصویر بن جاتے ۔روزے کا یہ مقصد بھی قرآن پاک میں بیان کیاگیاہے۔ قرآن پاک میں یہ بتانے کے بعد کہ رمضان کے مہینے میں قرآن اتارا گیا ہے اور جو رمضان کا مہینہ پائے وہ ضرور روزہ رکھے، فرمایا گیا: ’’تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بات پر کہ اس نے تمھیں ہدایت دی، ہوسکتاہے کہ تم شکر گزار ہوجاؤ‘‘۔(البقرۃ: 185)
روزے کے ذریعہ نفس کو کھانے پینے اور خواہشوں سے باز رکھ کر اسے صبر کا عادی بنانا بھی مقصود ہے۔صبر کی یہ صفت ہمارے اندر کس قدر پیدا ہوئی ؟صبر خواہشات نفس پر کنٹرول کرنے کا نام ہے ۔اسی لیے روزے دار کو نہ صرف کھانے پینے سے روکا گیا بلکہ کوئی شخص اس کے ساتھ برا سلوک کرے یا اس کو مشتعل کرنا چاہے تواسے ہدایت کی گئی کہ اپنے جذبات کو برانگیختہ نہ ہونے دے۔ اگر کوئی اس کی تحقیر و تذلیل پر آمادہ ہو تو جواباً حقارت آمیز رویہ نہ اپنائے بلکہ صبر و تحمل سے کام لے کرنظر انداز کردے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: 
’’ تم میں سے جو کوئی روزے سے ہو تو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شورو ہنگامہ کرے اور اگر کوئی اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو اس روزے دا رکو سوچنا چاہیے کہ میں تو روزے دار ہوں، میں کیسے گالم گلوچ اور لڑائی کرسکتاہوں۔‘‘ (بخاری)
روزے سے صبر کی صفت پروان چڑھتی اور پائے دار ہوتی ہے۔ انسان بھوک پیاس کو برداشت کرکے راہ ِ حق میں مختلف مصائب و مشکلات کوبرداشت کرنے کا عادی ہوجاتاہے۔ شدید گرمی میں بھوک اور پیاس کی شدت مومن کے روزے میں کوئی خلل نہیں ڈال پاتی، ٹھیک اسی طرح نرم و گرم حالات میں بھی مومن کے پائے ثبات میںکوئی لغزش نہیں آسکتی۔ چنانچہ حضور ؐ نے فرمایا: ’’ رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘ (بیہقی)
روزے کے مقاصد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان بھوک اور پیاس کی حالت میں ان لوگوں کی کیفیت کااندازہ کرسکے جو ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں تاکہ انسان میں دوسروں کی تکلیفوںاور مصیبتوں کو سمجھنے اور ان کو دور کرنے کا جذبہ پیداہوسکے۔ہمیں جائزہ لینا ہے کہ رمضان المبارک میں جذبۂ غم خواری کس حد تک پیدا ہوا ہے؟، باہم الفت ومحبت، رحم دلی ونرم خوئی ، نصح وخیر خواہی، ہمدردی و دل جوئی، اخلاص و مروت اور اخوت و بھائی چارگی کاماحول کس حد تک سازگار ہواہے۔ بیواؤں ، یتیموں او رغریبوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور سب کے لیے غم گساربن کر اس ماہ کے فیوض و برکات سمیٹنے کی کوششکہاں تک کی گئی ہے۔پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے۔‘‘ (متفق علیہ)اس ارشاد رسول کی کس حد تک پاسداری کی گئی ہے؟
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ فیاض تھے۔ رمضان آتے ہی آپ مزید فیاض ہوجاتے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:’’ جب رمضان کامہینہ آتا تو آپؐ پہلے سے زیادہ سخی ہوجاتے۔‘‘حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے:’’ جب رمضان کا مہینہ آتاتو پیارے نبیؐ قیدیوں کو آزاد کردیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔‘‘ (بیہقی)
رمضان کو الوداع کہتے وقت ہمیں اپنے جذبات و احساسات کا بھی جائزہ لینا چاہئے ۔کیا اس ماہ مقدس کے گزرتے ہر لمحے کے ساتھ ہمارے دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہورہا ہے ؟جس طرح اپنا کوئی عزیز کچھ دن قیام کرکے ہمارے گھر سے رخصت ہوتا ہے تو ہمارا دل ایک طرح کی تکلیف سے گزرتا ہے ،ایک ٹیس سی دل میں اٹھتی ہے ،اک اضطراب چہرے پر نمایاں ہوتا ہے ۔ہزاروں طرح کے خیالات دل میں آتے اور جاتے ہیں ۔کیا رمضان کے گزرنے پر بھی ہمارے دل کی یہی کیفیت ہے؟کیا ہماری آنکھیں اس کے جانے پر اشکبار ہیں ؟کیا گھر کے درودیوار پر ایک اداسی سی چھاررہی ہے ؟یا حسب معمول سب کچھ چل رہا ہے ؟اگر ہمارے دل میں درد کی ہلکی سی بھی کوئی ٹیس اور چبھن نہیں ہے اور ہمارے چہرے پر اس کے جانے پر افسوس کی کوئی شکن نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں رمضان کی اہمیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ کوئی بیش قیمت شئی ہم سے رخصت ہورہی ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے ۔اپنی کوتاہیوں پر اشک ندامت بہالیجیے ۔اللہ سے معافی مانگ لیجیے ۔اس کی بچی ہوئی ساعتوں کی قدر کرلیجیے اور جاتے ہوئے رمضان سے دوبارہ تشریف لانے کی گزارش کیجیے ۔اگراللہ کے مہمان کاشایان شان استقبال نہیں کرسکے تھے تو کم سے کم شایان شان رخصت تو کردیجیے۔
 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے