رمضان المبارک میں آخری عشرے کے گرانقدر تحفے

آخری عشرے میں یکسو ہوکر اللہ کے ہوجائیے

    ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ (ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور)
 

لیل و نہار کی گردش تاریخیں بدل دیتی ہے ۔آج کل انسان اپنی ذات میں اتنا محو ہے کہ وقت کے گزرنے کا پتاہی نہیں چلتا۔ابھی چند پہلے رمضان کا چناد دیکھا تھا ،رب کی رحمتوں کا نزول شروع ہوا تھا ،رمضان کی فیوض و برکات سے مستفید ہونے کے منصوبہ بنائے تھے ،لیکن آج نہیں کل سے ان پر عمل شروع کریں گے کے رویہ کے باعث اب تک نجات کا سامان فراہم نہیں کیا جاسکا۔صد افسوس ۔کیا ہمارا شمار ان لوگوںمیں ہونے والا ہے جن کے بارے میں نبی اکرم ؐ نے فرمایاتھا :’’ ہلاک ہوا وہ جو رمضان کا مہینہ پائے اور اللہ سے اپنی مغفرت نہ کراسکے۔‘‘(متفق علیہ)آئیے ،اپنے رب کی طرف دوڑ لگائیں اور آخری عشرے کی سعادتوں سے فیضیاب ہونے کی کوشش کریں ۔اپنے رب کو راضی کریں اور اپنی بخشش کا سامان فراہم کریں ۔اس عشرے میں درج ذیل عبادات کا خصوصی اہتمام کرکے ہم اللہ سے قریب ہوسکتے ہیں۔ 
مغفرت کی نوید:یہ عشرہ مغفرت کا عشرہ ہے۔اس لیے اپنی مغفرت کا سامان مہیا کرنے کی کوشش کی جائے۔مغفرت کسی بھی مومن کی معراج ہے۔اس مغفرت کے حصول کے لیے ہی روزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔نمازیں پڑھی جاتی ہیں،قیام اللیل ہوتا ہے۔تلاوت قرآن ہوتی ہے۔ذکرو اذکار کیا جاتا ہے۔اب چونکہ رمضان رخصت ہونے کو ہے نہیں معلوم کہ اب دوبارہ زندگی میں ملے گا کہ نہیں اس لیے بھرپور کوشش کی جائے اور مغفرت کو یقینی بنایا جائے۔
اعتکاف:اعتکاف کے لغوی معنیٰ ’’ کسی جگہ پر رکے رہنا اور ٹھہرنا ہیں۔‘‘ شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف اس عبادت کو کہتے ہیں جس میں دنیوی کاموں سے الگ ہوکر آدمی ایسی مسجد میں جا بیٹھے جس میں پنج وقتہ نماز کا اہتمام ہوتا ہو۔
اعتکاف کے ذریعہ انسان دنیا داری سے الگ ہوجاتا ہے، دنیا کی آلائشوں سے محفوظ رہتاہے، ہر وقت اللہ کے ذکر میںلگا رہتاہے، اس لیے اس کا دل ایمان سے منور ہوتاہے۔ دنیا سے نفرت اور آخرت سے محبت پیدا ہوتی ہے۔نبی کریم ﷺ ہر سال اعتکاف فرماتے، بزرگان دین نے بھی اعتکاف کی پابندی کی ہے یہاں تک کہ اعتکاف رمضان کاحصہ بن گیا ہے۔
اعتکاف کی مثال ایسی ہے کہ جیسے آ پ کے دروازے پر کوئی سائل اور فقیر آکر بیٹھ جائے اور کہے کہ میں جب تک نہ جائوں گا جب تک کہ آپ مجھے کچھ دے نہیں دیں گے ،اور وہ سائل آپ کے دروازے پر پڑا رہے ،آپ کی خوشآمد کرے ،آپ کے پائوں پکڑے ،آپ کے سامنے روئے ،ہاتھ پھیلائے ،دامن پسارے تو آپ کتنے ہی سخت دل ہوں ،آپ اس کو ضرور کچھ دیں گے ۔اللہ تعالیٰ جو رحمان اور رحیم ہے ،جو ہم سے ستر مائوں کے مقابلے زیادہ محبت کرتا ہے ،پھر اس سے آپ کیوں نہ امید کریں کہ وہ آپ کو اپنے در سے ضرور کچھ دے گا۔ اعتکا ف کا بڑا ثواب ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
’’ جس نے رمضان میں دس دن اعتکاف کیا اس نے گویا دو حج اور عمرے کیے۔‘‘
شب قدر:آخری عشرے کا سب سے بڑا تحفہ شب قدر ہے، اس رات میں قرآن پاک نازل ہوا، قرآن جیسی انمول اور بیش قیمت کتاب کے نزول کے سبب اس کوتمام راتوں پر فضیلت حاصل ہے۔شب ِ قدر میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ دعائیں قبول ہونے کا اہتمام ہوتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ کی خوب تسبیح بیان کرے، اس سے خوب دعائیں مانگے اور امید رکھے کہ اس کی دعائیں ضرور سنی جائیں گی قرآن پاک میں رات کے بارے میں فرمایا گیا ہے: 
’’ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیااور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔اس میں فرشتے اور روح القدس ہر کام کے انتظام کے لئے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔یہ رات طلوع فجر تک امن و سلامتی ہے۔‘‘ِ(القدر)
احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ رات رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کوئی طاق رات ہے ۔ پیارے نبی ؐ نے فرمایا: 
’’ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کسی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (بخاری)
البتہ یہ بات طے ہے نہیں کہ کون سی طاق رات ہے لیکن نبی کریم ﷺ آخری عشرے میںعبادت کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو بھی متوجہ کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: 
’’ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں آتیں تو رسولِ خدا ﷺ کمربستہ ہوجاتے، خود بھی رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے۔‘‘ (متفق علیہ)
صرف تنہا عبادت نہ کیجیے ،بلکہ شب قدر کی راتوں میں اپنے اہل و عیال کو بھی اپنے ساتھ مصروف عبادت رکھیے ،ان کو اللہ کی رحمتوں کا مستحق بنائیے۔پورے گھر کا ماحول ایسا نورانی بنائیے کہ ہر طرف اللہ کی رحمتیں اور برکتیں محسوس ہوں۔قرآن پاک کی تلاوت،ذکر و اذکار کی کثرت ،نوافل کا اہتمام ،رکوع و سجود کے مناظر پیش کیجیے ،اللہ کے سامنے گریہ و زاری کیجیے ،تاکہ اسے آپ پر رحم آجائے اور وہ آپ کی مغفرت کرکے آپ کے حق میں دوزخ سے نجات کا فیصلہ فرمادے۔گزرے رمضان کے ہر پل کی قدر کیجیے، خاص طور پر آخری رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ یہ سوچیے کہ برکتوں اور رحمتوں والے مہینے کی یہ آخری رات ہے۔ اس رات میں جتنی بھی عبادت کرلی جائے کم ہے۔ کیوں کہ یہ موقع اب ایک سال کے بعد میسر آسکتاہے اور وہ بھی زندگی کے ساتھ، ورنہ زندگی کا کیا بھروسہ۔ موت کا فرشتہ ہر وقت اللہ کے حکم کا منتظر ہے۔ نہ جانے ہمیں یہ رمضان کی قیمتی رات دوبارہ ملے نہ ملے۔ اس لیے رمضان کی آخری رات میں بھی عبادت وریاضت کا خصوصی اہتمام کیجیے۔
شب قدر کی راتوں میں اس دعا کا خاص اہتمام کیجیے۔جو اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت عائشہؓ  کو بتائی تھی۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ۔(ترمذی)
اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتاہے، لہٰذا مجھے معاف فرمادے۔
صدقۂ فطر:آخری عشرے کا ایک اہم عمل صدقہ ٔ فطر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبیﷺ نے صدقۂ فطر فرض فرمایا۔ 
یہ صدقہ روزے دار کے لیے لغویات اور بے حیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا باعث اور مسکینوں کے لیے خوراک کاسامان فراہم کرتاہے۔ جو شخص اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کرتا ہے تو یہ ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جو شخص نماز کے بعد اسے ادا کرتاہے تو وہ عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔‘‘ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
اس حدیث میں صدقۂ فطر کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک حکمت یہ ہے کہ روزے دار سے بہت سی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ زبان و نگاہ سے بہت سی خطائیں صادر ہونے کا امکان رہتاہے،اس لیے روزوں کے اختتام پر صدقے کا حکم دیا گیاتاکہ اس صدقے کے ذریعے وہ کوتاہیاں اور خطائیں بخش دی جائیں جو روزے دار سے قصداً یا سہواً سرزد ہوگئی ہیں اورروزے دار کو پاکیزگی حاصل ہوجاتی ہے۔یہ اللہ کا کتنا بڑا نعام ہے کہ اس نے چندسکوں کے عوض ہمارے گناہ معاف کرنے کا وعدہ کیا۔ 
دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ عید کے دن تمام مسلم معاشرے کو خوشی و مسرت میں شریک ہونا چاہیے اور غرباء و مساکین کو مانگے بغیر اتنی رقم ضرور مل جانی چاہیے کہ وہ عید کی خوشی دوسروں کی طرح مناسکیں۔دوسروں کو خوش کرنا بہت بڑی نیکی ہے ۔اس لیے حکم دیاگیا کہ صدقۂ فطر کی رقم نماز ِ عید سے پہلے پہلے غریب افراد تک ضرور پہنچا دی جائے۔
صدقۂ فطر ہر آزاد وغلام، مرد وعورت، ہر چھوٹے بڑے پر واجب ہے حتیٰ کہ عید کا چاند دیکھنے کے بعد اور نمازِ عید سے پہلے بھی جو بچہ پیداہوا تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔صدقۂ فطر سر پرست پر واجب ہوتاہے اور اس کو اپنے زیر سرپرستی (جن کا وہ کفیل ہو) ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کا صدقۂ فطر شوہر کے ذمہ ہے۔ بچوں کا صدقۂ فطر باپ کے ذمہ ہے۔ اگر کوئی نوکر یا خدمت گار ہو تو اس کی طرف سے صدقۂ فطر مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔
انعام کی رات:( لیلۃ الجائزۃ)عید الفظر کی رات کو' لیلۃ الجائزۃ' کہا جاتا ہے، عربی زبان میں جائزہ کے معنی ہیں ’انعام‘۔ اس کو انعام کی رات ا س لیے کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں روزے دارنے جو مشقت برداشت کی ہے، اس کے انعامات اس رات میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ عید الاضحی کی رات کو' لیلۃ الجائزہ 'نہیں کہا جاتا، اسی طرح عید کے دنوں کو بھی 'یوم الجائزہ' نہیں کہا جاتا۔حدیث کے مطابق جب عید الفطرکی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات سے لیا جاتا ہے۔سُمِّیَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ لَیْلَۃَ الْجَائِزَۃِ.(شعب الایمان بیہقی)
لیلۃ الجائزہ خاص امتِ محمدیہ کے لیے ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیات ایسی عطا کی گئی ہیںجو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں، من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول!کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیںبلکہ یہ اس رات میں کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہے۔(کشف الاستار)
عام طور پر ہم عید کی رات خریداری میں گزاردیتے ہیں ۔ساری ساری رات بازار کھلے رہتے ہیں۔خواتین سے بازار بھرے رہتے ہیں۔گھروں میں چاند دیکھتے ہی کھانے پکانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ہاتھوں میں مہندی لگائی جاتی ہے۔نوجوان موٹر سائکلوں پر ہڑدنگ کاٹتے ہیں۔ایسا لگتا ہے رمضان میں جن شیاطین کو قید کیا گیا تھا ان کی رہائی ہوگئی ہے ۔ضرورت بھر سامان کی خریداری،یا اپنے شوہروں کے لیے عورتوں کا سنورنا ایک حد تک جائز عمل ہے ،مگر اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے رب کو راضی کریں۔اس سے اپنے روزوں کی قبولیت کے لیے دعا کریںتاکہ اس انعام کے مستحق ہو سکیں جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔
یہ انعام کی رات ہے ۔اس میں اللہ سے خوب دعائیں کیجیے۔اس رات شہنشاہ کائنات اپنے غلاموں کو ان کے اعمال کی جزا دینے بیٹھا ہے ،ان کے روزوں کا انعام دینے کے لیے جلوہ فرماہے،ان کی تراویح ،ان کی تلاوت کا اجر دینے کے لیے موجود ہے ،اپنے دامن کو پھیلائیے،اس کے سامنے سجدے میں گرجائیے ،اس سے اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کیجیے اور اس سے مغفرت کی امید رکھیے۔
رمضان کے آخری عشرہ میں سب سے کٹ کر اپنے مالک کے ہو رہئے، اس کے حضور سجدے کیجیے، توبہ و استغفار کیجیے، گناہوں پر ندامت و پشیمانی کااظہار کیجیے، اس کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہیے، اس کی قربت و رحمت طلب کیجیے، اس کے دامن ِ عفو میں پناہ تلاش کیجیے، اپنے شب و روز اپنے خدا کے سامنے روتے ہوئے گزاریے اور پھر دیکھیے کہ آپ کا رحیم وکریم پروردگار کس طرح آپ کو اپنے سایۂ شفقت میں پناہ دیتا ہے۔

«
»

رمضان سے ہم نے کیا حاصل کیا؟

خدا کی قدرت ،جو سب سے طاقت و ر تھا وہ سب سے کمزور بن گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے