لطف کی بات یہ ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم کے اس بیان سے صرف چند گھنٹوں بعد بیان دیا جس میں وزیر اعظم نے مسلم علماء اور دانشوروں کے ایک وفد کے سامنے کہہ رہے تھے کہ مسلمان اگر آدھی رات کو آواز دیں گے تو وہ ان کی مدد کے لئے حاضر ہوجائینگے۔ ایک طرف تو مودی کی میٹھی بولی تھی تو چند گھنٹوں بعد ہی ونے کٹیار کی زہریلی گولی نکل پڑی۔ آخر انھوں نے اس قسم کا بیان کیون دیا ؟ اس بار ے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ مودی کے ظہور کے بعد سے حاشیئے پر پڑے ہیں اور سرخیوں میں آنے کے لئے اس قسم کی غیر ضروری باتیں کہہ رہے ہیں۔ کسی زمانے میں مندر تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے ونے کٹیاراب مودی کابینہ میں وزیر بننا چاہتے ہیں مگر انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے لہٰذا مسلمانوں کے بیچ اعتماد بحالی کے لئے وزیر اعظم جو کوششیں کر رہے ہیں ،ونے کٹیار اس پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں۔ وہ مودی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتے ہیں ۔
رام مندر نہیں بنا تو پھوٹیگا غصہ
راجیہ سبھا میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ونے کٹیار نے رام مندر بنانے کی وکالت کی ہے اور مودی سرکار پر نشانہ سادھا ہے۔ 1990 کی دہائی میں مندر تحریک کی قیادت کا چہرہ رہے کٹیار نے کہا کہ مودی حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا کرنے کے لئے حکومت کو یا تو قانون بنا کر یا پھر بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کرنا چاہئے۔تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک بات چیت سے حل نکالنے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ ونے کٹیارنے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہا کہ اگر بابری مسجد کے مقام پر رام مندرنہیں بنا تو ہندووں کا غصہ آتش فشاں بن سکتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی پہل کرنے میں مرکزی حکومت کے سامنے کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس سمت میں موجودہ مرکزی حکومت کا راستہ سابق یو پی اے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل حلف نامے سے ہموار ہو رہا ہے۔ اس حلف نامے میں یوپی اے حکومت نے کہا تھا کہ اگر ثابت ہو جائے کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی ڈھانچے کو توڑ کر کی گئی تھی، تو وہ ہندوؤں کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہوئے مندر کی تعمیر میں تعاون کرے گی۔
ونے کٹیار نے یاد دلایا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ رام للا جس زمین پر براجمان ہیں، وہاں پہلے مندر تھا اور
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ سے بھی یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے۔ ایسے میں مرکزی حکومت کے سامنے مندر کی تعمیر کی سمت میں تعاون کو لے کر کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے بار بار کہاکہ مندر کی تعمیر کو نظر اندازکرنا ٹھیک نہیں ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر جذبات مجروح ہوں گی۔ کٹیار یہ بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مندر کی تعمیر میں تاخیر سے رام بھکتوں کا غصہ آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتا ہے۔کٹیار نے مشورہ بھی دیا کہ مندر کی تعمیر کا قانون مرکزی حکومت لوک سبھا میں پیش کرکے منظور کرانے کی کوشش کرے۔ا ن کا کہنا تھا کہ جس طرح ماضی میں زمین کے حصول کا بل لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے کام کاج کی تعریف بھی کی اور کہا کہ حکومت ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘‘ کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔کٹیار نے جوڑا کہ رام مندر کی تعمیر کے لئے حکومت کی کوشش’’ سب کاساتھ، سب کا وکاس ‘‘کے جذبات کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے طور پر چندر شیکھر اور اٹل بہاری واجپئی نے اس تنازعہ میں بات چیت کے ذریعے حل کی سمت میں ٹھوس پہل کی تھی، لیکن وقت کم ہونے کی وجہ سے دونوں رہنماؤں کی کوششیں پروان نہیں چڑھ سکیں۔
رام مندر کی تعمیر کو چاہئے قوت ارادی
ونے کٹیار کے بیان کی بعض ہندتووادی لیڈروں نے حمایت بھی کی ہے۔شاردا پیٹھ کے شنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی نے کہا کہ ایودھیامیں رام مندر کی تعمیر کو پارلیمنٹ میں اکثریت کی نہیں بلکہ قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ بی جے پی راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کی بات اٹھا کر اس معاملے میں ملک کے عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت 1990 میں ہی رام مندر سمیت ارد گرد کی 65 بیگھہ زمین حاصل کر چکی ہے۔ کورٹ میں حکومت کے اس فیصلے کو نہ تو کسی نے اب تک چیلنج کیاہے اور نہ ہی کورٹ نے ہی اس پر کوئی سوال اٹھایا ہے۔ ایسے میں حکومت کو اپنی زمین پر مندر کی تعمیر کے لئے کسی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایوان میں اکثریت کی بات بے وجہ کی جا رہی ہے۔ شنکراچاریہ نے کہا کہ کارسیوکوں کا 1990 میں ڈھانچہ گرانابڑی غلطی تھی، کیونکہ متنازعہ ڈھانچہ مسجد نہیں تھا۔ ایسا کرکے کارسیوکوں نے مسلم کمیونٹی کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ وہ مسجد تھی۔
حالات سازگار ہوتے ہی بنے گا رام مندر
ادھر بی جے پی کے رہنما ساکشی مہاراج نے ایک بار پھر رام مندر بنائے جانے کی وکالت کی ہے۔ رام مندر کے سوال پر بی جے پی کے اس تنازعہ ایم پی نے کہا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت رام مندر بننے سے نہیں روک سکتی ہے۔ساکشی مہاراج کے مطابق مودی حکومت کو رام مندر کی تعمیر کا قانون بنانے کے لیے لوک سبھا میں بل لانا چاہئے۔ ہم تشٹی کرن کی سیاست نہیں کرتے ہیں۔رام مندر بنانے کے لئے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ رام مندر کی تعمیر کو ئی روک نہیں سکتا ہے۔ تاہم بی جے پی کا مسلم چہرہ مانے جانے والے شہنواز حسین نے اس سلسلے میں معتدل بیان دیاہے۔بی جے پی کے ترجمان شاہنواز حسین کا کہنا ہے کہ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں ملک کے عوام کو عدالت پر اعتماد ہے۔ اس کے علاوہ بات چیت بھی ایک راستہ ہے۔انھوں نے کہا کہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلے گا۔ ہم بھی کوشش کر رہے ہیں۔
کٹیار کا بیان غیر ذمہ دارانہ
بابری مسجد کے بزرگ مدعی محمد ہاشم انصاری نے ونے کٹیار کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جب ملک کو متحد رکھنے کی ضرورت ہے، تب کٹیار کا مندر راگ سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور رہتے ہوئے اس طرح کا بیان کورٹ کی توہین بھی ہے۔ہاشم انصاری نے کہا کہ مودی کے کان میں یہ بات پہنچے گی تو کٹیار دودھ کی مکھی کی طرح نکال دیے جائیں گے۔ اچھا ہوگا کہ سیاسی فوائد کے لئے وہ اس طرح کا بیان دینے کے بجائے وہ کوئی دوسرا مسئلہ تلاش کریں۔کٹیار کو بتانا چاہئے کہ وہ عدالت کی مانیں گے یا سڑک پر غنڈہ گردی کریں گے۔ متنازعہ زمین پر مندر کی تعمیر کو لے کر بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر ونے کٹیار کی طرف سے آئے بیان پر وہ انتہائی تلخ نظر آئے۔انہوں نے مندر کی تعمیر کے لئے لوک سبھا سے زمین تحویل بل کی طرح رام مندر کی تعمیر کا بل منظور کرنے کی کٹیار کی مانگ کو مسترد کرتے ہوئے کہا، یہ بجرنگ دل والے ہیں، مندر کے نام پر خون خرابہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسجد ہماری تھی ہماری ہی رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو سپریم کورٹ سے جلد فیصلے کے لئے روزانہ سماعت کا انتظام کرنا چاہئے۔ کسی میں ہمت نہیں ہے کہ قانون بنا کر کچھ چھین سکے۔ عدالت کا فیصلہ جو بھی ہو گا منظور ہے۔ کٹیار اشتعال انگیز سیاست کی کوشش سے باز آئیں۔ہاشم انصاری نے کہا کہ اب مودی حکومت میں ان کی دال نہیں گل رہی ہے، تو اشتعال انگیزی کا دھندہ شروع کر رہے ہیں۔ ونے کٹیار کو بات کرنی ہے تو وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے کریں۔رہی بات قانون بنانے کی تو، قانون آزادی کے پہلے ہی بن چکا ہے کہ مذہبی مقامات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا ہے۔ دعویٰ مسلم فریق نے نہیں کیا۔ مورتی رکھنے کے بعد دعوی گوپال سنگھ وشارد نے کیا تھا۔ ہماری اپیل ہے کہ اس مسئلے کو امن سے حل کیا جائے۔ ونے کٹیار سیاست کے فائدے کے لیے اور کوئی مسئلہ تلاش کریں۔ انہیں کی وجہ سے رام للا جیل میں سڑ رہے ہیں۔
قانون کی بیڑیوں میں جکڑے مودی
بابری مسجد کے مقام پر مندر بنانے کی تحریک ایک خالص سیاسی تحریک ہے اور اس کا استعمال ہمیشہ سے سیاست کے لئے ہوتا رہا ہے۔ اسی ایشو کو بہانہ بناکر سنگھ پریوار نے اپنی قوت میں اضافہ کیا ہے اور آج بی جے پی ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن سکی ہے ۔ کسی بات کو لے کر سیاست کرنا ایک بات ہے اور اقتدار میں آکر اس پر عمل کرنا دوسری بات ہے۔ بی جے پی خواہ ایک مدت سے کہتی آئی ہے کہ وہ مندر بنوانے کی راہ ہموار کرے گی مگر آج جب وہ اقتدار میں ہے تو اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ قانون سے باہر کا راستہ اختیار کرے۔ سنگھ پریوار کا ایک طبقہ چاہتا ہے کہ آرڈیننس لاکر مرکزی حکومت مندر کی تعمیر کرائے مگر اس سے حکومت کی بدنامی ہوگی اور ساری دنیامیں پیغام جائے گا کہ بھارت میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔اپوزیشن ہنگامہ کھڑا کردے گا اور حکومت کی شبیہ اقلیت مخالف کی بن جائیگی۔ آج نریندر مودی کے پاؤں میں قانون اور اصولوں کی بیڑیاں ہیں اور ان کے لئے ممکن نہیں کہ بی جے پی کے وعدے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ البتہ ونے کٹیار، ساکشی مہاراج ، اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے لوگ مندر کا معاملہ اٹھاکر مودی کو تنگ ضرور کرسکتے ہیں۔ (یو این این)
جواب دیں