عبدالعزیز
دہلی اسمبلی کے الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے۔ ’عام آدمی پارٹی‘ کے علاوہ بی جے پی اور کانگریس میدان میں ہیں۔ لوک سبھا کے حالیہ الیکشن میں کجریوال نے کانگریس کے ساتھ مل کر بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر کانگریس تذبذب کا شکار رہی جس کی وجہ سے دونوں میں اتحاد نہیں ہوسکا۔ ہریانہ میں بھی عام آدمی پارٹی کانگریس سے اتحاد کی متمنی تھی وہاں بھی دونوں نے الگ الگ الیکشن میں حصہ لیا۔ لوک سبھا کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی کارکردگی بہت ہی خراب رہی۔ کانگریس دوسرے نمبر کی پارٹی بن کر ابھری۔ جہاں تک دہلی کی اسمبلی کا الیکشن ہے اس میں عام آدمی پارٹی کے کام کاج پر عوام ووٹ دیں گے۔ عام آدمی پارٹی نے کجریوال کی قیادت میں کام کافی اچھا کیا ہے جس کا اثر عوام پر اچھا مرتب ہوا ہے۔ بجلی، پانی، صحت اور تعلیم کے میدان میں پہلے کی حکومتوں سے کہیں زیادہ اچھا کام دہلی میں موجودہ حکومت نے کیا ہے۔ عوام کو بہت دنوں کے بعد ایک اچھی اور قابل قدر حکومت میسر آئی جو بدعنوانی سے پاک ہے اور عوام کی بہتر سہولیات کیلئے کام کرتی ہے۔ جو لوگ بی جے پی کے حمایتی ہیں۔ ان میں سے بھی بہت سے لوگ عام آدمی پارٹی کے کاموں سے متاثر ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ وہ کام کی بنیاد پر عام آدمی پارٹی ہی کو ووٹ دیں گے۔ بی جے پی کے پاس نریندر مودی کے چہرہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ بھی اب دھومل دکھائی دے رہا ہے۔ جھارکھنڈ میں مودی اور شاہ نے قومی ایجنڈے پر الیکشن لڑنے کی کوشش کی۔ لوگوں کے بنیادی مسائل اور مقامی مسائل کو نظر انداز کرکے قومی، بین الاقوامی مسائل پر دونوں نے عوام کو رجھانے کی کوشش کی۔ این آر سی اور سی اے اے کا بھی ذکر کیا۔ رام مندر اور تین طلاق کے مسئلے کو بھی چھیڑا مگر ؎ ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔
مودی-شاہ کی جوڑی ناکام اور نامراد ثابت ہوگئی۔ دہلی میں الیکشن کے اعلان کے بعد ہی بی جے پی نے دہلی کے ماحول کو پراگندہ بنانے کیلئے جے این یو (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی) میں اپنی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (ABVP) کے ذریعہ جس طرح خون اور دہشت کا کھیل کھیلا اور طلبہ کو لہولہان کیا اس سے دہلی پولس اور بی جے پی دونوں کی نیک نامی کے بجائے زبردست بدنامی ہوئی۔ نہ صرف ہندستان میں بلکہ دنیا بھر میں آر ایس ایس کے طلبہ کی دہشت گردی کی مذمت ہورہی ہے۔ دہلی پولس پہلے سے بدنام تھی۔ اب مزید بدنام ہوئی ہے۔ کجریوال حکومت ’اسٹیٹ ہوڈ‘ (ریاستی درجہ) حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ دہلی پولس پر نشانہ سادھتی ہے۔ اسے بی جے پی کی ہتھیار بند ونگ (Armed Wing of BJP) کہتی ہے۔ جو کچھ جے این یو کے طلبہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اس سے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر پھیل گئی ہے۔ دہلی میں بھی طلبہ کی کمیونٹی نے ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ مظلوم طالب علموں کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ پولس نے ظالموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے مظلوموں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا ہے۔ طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش جسے اے بی وی پی کے طلبہ کے لوہے کے چھڑ سے مار کر سر پھوڑ دیا اور وہ لہولہان ہوگئی۔ اس کے خلاف پولس نے ایف آئی آر درج کیا ہے۔
مشہور اسٹوڈنٹس لیڈر کنہیا کمار نے جے این یو کے احاطہ میں تقریر کرتے ہوئے کہاہے کہ جے این یو کے طلبہ کو جیل میں بند کرکے ڈرانے اور دھمکانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس سے ہمارا وقار بڑھا ہے اور جدوجہد میں طاقت اور قوت پیدا ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر ایک ایک کرکے حکومت حملے کر رہی ہے تاکہ طلبہ اور نوجوانوں کی آواز بند ہوجائے۔ بی جے پی دہشت اور خوف کا ماحول پیدا کرکے سارے ملک کے لوگوں کی آواز بند کرنا چاہتی ہے۔ امید ہے بی جے پی کا یہ خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوگا۔ دہلی میں بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ کجریوال کے مقابلہ بی جے پی والے کسی کو وزیر اعلیٰ کے چہرہ کی حیثیت سے پیش نہیں کر رہے ہیں۔ مودی کے چہرہ کا سہارا لیں گے۔ امید ہے کہ مودی کے چہرہ کا وہی حال ہوگا جو جھارکھنڈ میں ہوا ہے۔ بی جے پی کو دہلی میں نہ صرف شکست ہوگی بلکہ شکست فاش ہوگی۔ (
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
08جنوری2020
جواب دیں