راہل گاندھی: جانے وہ کان سا دیس جہاں تم چلے گئے

کانگریس کو اپنے احیاء نو کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اسے تحویل اراضی بل کی شکل میں ایک ایسا ہتھیار ملا ہے جس کے ذریعے وہ ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے مگر پارٹی کا سپہ سالار ہی غائب ہے۔ اس وقت راہل گاندھی کے حلقہ انتخاب امیٹھی میں تلاش گمشد ہ کے پوسٹر نظر آرہے ہیں اور اسی قسم کے پوسٹر پورے اترپردیش میں لگنے لگے ہیں مگر پھر بھی راہل گاندھی اپنی خودساختہ جلاوطنی سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں۔ پارٹی کے اندر جہاں ایک طبقہ چاہتا ہے کہ وہ تحویل اراضی بل کے خلاف جاری تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لیں، وہیں ایک طبقہ چاہتا ہے کہ اس آندولن کی قیادت سونیا گاندھی کے ہاتھ میں ہی رہے تو بہتر ہے۔ وہ طبقہ راہل گاندھی کو اب بھی ’’پپو‘‘ مانتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اب تک سونیا گاندھی نے مودی سرکار کے خلاف جو ماحول تیار کیا ہے راہل اس کا خاتمہ کردیں گے۔ سونیا گاندھی ان دنوں اس کوشش میں ہیں کہ دہلی میں اس موضوع کو لے کر ایک ریلی کریں اور اس میں اپوزیشن پارٹیوں کو بھی مدعو کریں تاکہ دس مہینوں کے اندر مودی سرکار کے خلاف جو ماحول تیار ہوا ہے اس کا فائدہ اٹھایا جائے اور بی جے پی کو مزید پھیلنے سے روکا جائے۔ راہل گاندھی کے بارے میں یہ خبر بھی ہے کہ وہ پارٹی صدر بننا چاہتے ہیں مگر پارٹی کے سینئر لیڈران اس کے خلاف ہیں اور اسی ناراضگی کے سبب وہ روپوش ہوئے ہیں۔پارٹی کے اندر اس معاملے کو لے کر دو گروہ بن گئے ہیں اور اجیت جوگی نے ابھی حال ہی میں کہا ہے کہ اگر راہل کو پارٹی صدر بنایا گیا تو کچھ سینئر لیڈران پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔ 
راہل کی تلاش میں پوسٹر
راہل گاندھی اپنے ہی لوک سبھاحلقے میں ان دنوں بدنام ہو رہے ہیں اور اتر پردیش میں جگہ جگہ ان کی گمشدگی کے پوسٹر چسپاں نظر آرہے ہیں جن پر ڈھونڈ کر لانے والے کو انعام کا اعلان کیا گیا۔آپ چونک جائیں گے یہ جان کر کہ راہل گاندھی کے اپنے پارلیمانی حلقہ امیٹھی میں لگے پوسٹروں پر یہ چھپا ہوا ہے کہ’’ چٹھی نہ کوئی سندیس،جانے وہ کون سا دیس جہاں تم چلے گئے‘‘کانگریس نائب صدر راہل
گاندھی کو یہاں کے عوام بے صبری سے تلاش کررہے ہیں۔ راہل گاندھی کے پارلیمانی علاقے میں لوگوں نے ان کی کھوج خبر لینے کے لئے کئی پوسٹر اور پرچے چپکا دیئے ہیں۔ ان پوسٹروں میں امیٹھی کے عوام نے راہل گاندھی سے کئی سوال کیے ہیں۔امیٹھی کے علاوہ بھی یوپی کے کئی اضلاع میں راہل گاندھی کی تلاش کے لئے پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ان پوسٹروں میں کسانوں کے مسائل کے علاوہ کئی دیگر مسائل پر بھی بحث کی گئی ہے۔کچھ پوسٹروں میں امیٹھی کے عوام کو وہاں کے رہنما کی غیر موجودگی سے ہونے والے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ پوسٹر میں لکھا گیا ہے کہ راہل گاندھی کو سمجھ نہیں اس لئے وہ بجٹ اجلاس سے پہلے چھٹی پر چلے گئے۔اس قسم کے پوسٹر امیٹھی کے علاوہ بلند شہر، الہ آباد اور کچھ دوسرے شہروں میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
کانگریس کی ریلی
جہاں ایک طرف کانگریس ایک بار پھر ملک کے سیاسی منظر نامے پر اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہے اورسونیا گاندھی تمام اپوزیشن پارٹیو ں کو اپنے ساتھ جوڑنے میں لگی ہوئی ہیں وہیں اس نازک وقت پر راہل گاندھی کی غیر موجودگی پارٹی کو کھل رہی ہے۔ اسے کئی جگہوں پر سبکی بھی اٹھانی پڑ رہی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا جو سوال اٹھا رہاہے اس سے بھی پارٹی کی جگ ہنسائی ہورہی ہے اور اچھا خاصا مذاق بن رہا ہے۔ پارٹی کے احیاء نو کی کوشش کے طور پر سونیا گاندھی نے دلی میں کسان ریلی کی پکار دی ہے جس کی تیاری زوروں پر ہے مگر راہل گاندھی ملک سے غائب ہیں۔خبر ہے کہ دہلی میں سونیا گاندھی کی کسان ریلی میں راہل گاندھی کے شامل ہونے کا امکان انتہائی کم ہے۔ وہ اس وقت دلی میں نہیں ہوں گے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ راہل کے واپس آنے سے پہلے کانگریس صدر سونیا گاندھی لینڈ بل کے خلاف جنگ چھیڑ کر ماحول تیار کریں گی اور پھر راہل کی انٹری ہوگی۔
طاقت آزمائی کی کوشش
تحویل اراضی بل کے خلاف اپوزیشن کو ساتھ لے چکی کانگریس پارٹی اپنے نائب صدر کو لے کر سش وپنج میں ہے۔ راہل گاندھی نے ایک بار پھر پارٹی کو نازک وقت پر مایوس کیا ہے۔اشارے ملے ہیں کہ اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہونے والی پارٹی کی دہلی ریلی سے بھی راہل فاصلے بنا سکتے ہیں۔ جبکہ، اس ریلی کے ذریعے طاقت تولنے کی تیاری کر رہی کانگریس اعلی کمان کی منشا تحریک کی مشعل راہل کو سونپنے کی تھی۔سونیا گاندھی کی کوششوں سے اگرچہ اپوزیشن ساتھ کھڑا ہے، لیکن راہل کو لے کر پارٹی کا انتظار لمبا کھیچتا دکھ رہا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق 11 یا 12 اپریل کو کانگریس دارالحکومت میں بڑی ریلی کر حکومت کے خلاف طاقت کامظاہرہ کرے گی۔پارٹی کی منشا اس ریلی کے ذریعے نائب صدر راہل کو تحریک کی قیادت سونپ دینے کی تھی۔ اس کے علاوہ پارٹی بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے سے ٹھیک پہلے حکومت پر دباؤ بنانا چاہتی ہے۔پارلیمنٹ کا اجلاس 20 اپریل سے پھر شروع ہو جائے گا،لیکن معلومات کے مطابق راہل تحریک کی قیادت سنبھالنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں پارٹی نائب صدر اس ریلی سے دوری بنا سکتے ہیں۔ اس بارے راہل کے قریبی لیڈروں کا کہنا ہے کہ سونیا کی قیادت کی وجہ سے بنے ماحول کو راہل کمزور نہیں پڑنے دینا چاہتے۔ وہ اور انتظار کرنے کے حق میں ہیں۔
اپوزیشن اتحاد قائم کرنے میں ملی سونیا کو کامیابی

پارلیمنٹ میں تحویل اراضی بل پر حکومت کے قدم روکنے میں کامیاب رہی کانگریس۔ سونیا کی قیادت وہ اپوزیشن کو جمع کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ اس معاملے پر پارلیمنٹ سے راشٹرپتی بھون تک کے مارچ میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے خوش کانگریس صدر ،کسانوں سے ملنے کے لئے الگ الگ ریاستوں کا دورہ کر رہی ہیں۔ سونیا نے مناسب معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے راجستھان اور ہریانہ کا دورہ کیا اور کسانوں سے ملاقات کی۔ جبکہ پارلیمنٹ سیشن سے پہلے ’آتم چنتن‘ کے لئے چھٹیوں پر گئے راہل کی واپسی کو لے کر اب بھی پارٹی رسمی طور پر کچھ کہنے سے بچ رہی ہے۔
کانگریس اس بات پر غور کر رہی ہے کہ تحویل اراضی کے خلاف ہونے والی اپنی ریلی میں دیگر پارٹیوں کو بھی وہ شامل کرے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پارٹی اس سمت میں سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ مودی حکومت کے خلاف دس ماہ بعد بنے ماحول اور اس معاملے پر اپوزیشن میں تیار اشتراک عمل کی چاہت کو دیکھتے ہوئے وہ تمام پارٹیوں کو ساتھ لانے کا سوچ رہی ہے۔وہ مجوزہ ریلی کو حکومت بمقابلہ اپوزیشن کی شکل دے سکتی ہے۔
کانگریس میں بغاوت؟
کانگریس قیادت کے تئیں ناراضگی بڑھنے کے ساتھ آنے والے دنوں میں کچھ بڑے لیڈر پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی مشکلیں کم ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔کانگریس لیڈروں کے جیسے بیان سامنے آ رہے ہیں، اس سے یہ تو طے ہے کہ چھٹیوں سے لوٹنے کے بعد سرخ قالین پر ان کا استقبال ہونے سے رہا۔کانگریس ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں اگلے ماہ ہونے والی آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی میٹنگ میں ہی صدر بنایا جائے گا۔صدر بننے کے بعد ان کے لئے تنظیم چلانا آسان نہیں رہنے والا۔کانگریس کے پرانے بڑے اور گاندھی خاندان کے بہت وفادار اجیت جوگی نے کہا ہے کہ راہل گاندھی کے صدر بننے کے بعد کانگریس کے کئی لیڈر پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔ جوگی نے کہا ہے کہ راہل کو کانگریس کا صدر بنائے جانے کے مسئلے پر پارٹی میں دو طرح کے خیالات ہیں۔
ملک کا کیا ہوگا؟
اس وقت ملک میں یہ بحث جاری ہے کہ کانگریس کا مستقبل کیا ہے اور راہل گاندھی اپنی بچکانہ عادتیں کب چھوڑیں گے؟ اصل میں ملک اس وقت بہت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے جس میں ایک مودی سرکار ملک کے آئینی ڈھانچے میں بدلاؤ پر غور کر رہی ہے اور آر ایس ایس ملک کی مخلوط ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہے ،وہیں دوسری طرف لوک سبھا کے اندراپوزیشن کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ کانگریس نے اس ملک کو بہت بقصان پہنچایا ہے اور کئی بار شکست کھانے کے باوجود بھی اس نے سبق نہیں سیکھا ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ اب تک ملک کے اندر کانگریس کا کوئی متبادل نہیں تیار ہوسکا ہے۔ ملائم، سنگھ، مایاوتی، لالو پرساد یاود اور نتیش کمار جیسے لیڈران سے ملک کو بہت سی امیدیں تھیں مگر انھوں نے بھی بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ ان سے کوئی امید فضول ہے۔ ایسے میں فی الحال کانگریس کی ضرورت اس لحاظ سے ہے کہ وہ اپوزیشن کا رول ٹھیک طریقے سے ادا کرے۔ حالانکہ اس کے پاس لوک سبھا میں صرف ۴۴ سیٹیں ہیں۔ اس نازک وقت میں بھی اس کے لیڈران ملک اور سماج کی صورتحال کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔راہل گاندھی پارٹی ہی نہیں بلکہ ملک کی قیادت کرسکتے تھے مگر ان
کی حرکات سے لگتا ہے کہ ان کے اندر اب بھی پختگی نہیں آئی ہے اور اگر ملک اور پارٹی کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ڈال دی گئیں تو وہ بیڑا غرق کردینگے۔اب ایسے میں ملک کا کیا ہوگا یہ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ 

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے